اسلام اصلاح چاہتا ہے فرد کی بھی اور معاشرے کی بھی۔ اور یہ اصلاح ایمان کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اور جو ایمان عمل نہ پیدا کرے وہ محض ایک زبانی قولی اقرار ہے۔ ایسا جذبہ نہیں جو فرد اور معاشرے کی زندگی تبدیل کرسکے۔
ایمان بے شک ایک عقیدہ ہے، لیکن یہ عقیدہ عمل پیدا کرنے کے لیے ہے، اور آخرت میں پرسش عقائد کی موشگافیوں کے بارے میں نہیں ہوگی، وہاں اعمال تو لے جائیں گے۔ لیکن جب سے مسلمانوں میں دیگر اہلِ مذاہب کی طرح یہ تصور آگیا کہ عمل کے بغیر بھی ایمان ہوسکتا ہے، وہ غیر عملی ہوتے چلے گئے، ان کے درمیان عقائد کی بحثوں کا بازار گرم ہوا، لیکن عمل کی حرارت سرد پڑتی گئی۔ اور یہی خرابی کا اصل سبب ہے، اور اس تصور کی اصلاح ہونی چاہیے کہ عمل کے بغیر بھی ایمان کافی ہے اور خدا جو غفورالرحیم ہے، اسے قبول کرلے گا۔ لیکن خدا ایسا بے انصاف نہیں کہ وہ باعمل اور بے عمل دونوں کو ایک درجے اور مرتبے پر رکھے۔ حُسنِ عمل کی جگہ بدعملی ہو، اور انسان اس پر سزا کے بجائے جزا پالے ایسا اندھا قانون اِس دنیا کا تو ہوسکتا ہے، آخرت کا نہیں۔ خدا کے دربار میں کراماً کاتبین عقیدے کی بحثیں نہیں، عمل کا دفتر پیش کریں گے اور اس کے لحاظ سے ہی ہر ایک کا حساب کتاب ہوگا، جو بے عملی یا بدعملی کا شکار رہا وہ منہ زبانی خدا کی ہزار تعریف و توصیف کرتا رہا ہو، اس کا ایمان خدا کے نزدیک بے حقیقت قرار پائے گا۔ اور انسان اس بات کا قائل ہوجائے کہ اس کا عمل اس کے ایمان کے تقاضے کے مطابق ہونا چاہیے تو وہ اصلاح کی راہ پر چل پڑے گا، اور اس راہ پر چلنے والے کی اگر کچھ کوتاہیاں بھی ہیں تو اللہ اسے معاف کرے گا بہ شرطیکہ وہ راہِ عمل پر گامزن ہو۔ اور اللہ کی راہ پر چلنے والا خواہ کتنے ہی کمزور ایمان کا ہو اللہ کی معیت و رفاقت حاصل کرے گا۔ اگر وہ آمادۂ عمل ہے تو خدا کی قوت اس کی مددگار ہوگی۔
حضرت علیؓ نے ایمان کے بارے میں کہا تھا کہ جس کے پاس زیادہ ہے اسے اور زیادہ دیا جائے گا، لیکن جس کے پاس تھوڑا ہے اور وہ اس میں اضافہ نہیں کرتا تو یہ تھوڑا بھی اس سے لے لیا جائے گا۔ اس لیے اصلاحِ نفس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انسان ہر وقت اپنا جائزہ لیتا رہے کہ اس کی ایمانی دولت ترقی پذیر ہے یا زوال پذیر۔ اور ایمان کو ترقی پذیر کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان عمل کی نیکی اختیار کرے اور صرف بڑی نیکی کے خیال میں نہ رہے، چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بھی حقیر نہ سمجھے، کہ یہ چھوٹی نیکیاں ہی اس کو بڑی نیکی تک پہنچانے کے کام آئیں گی۔
اصلاح کے کام کی دو سطحیں ہیں، اور دونوں ہی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ فرد اپنی اور دیگر افراد کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو، دوسرا یہ کہ وہ اجتماعی نظام کی اصلاح کے لیے فکرمند ہو اور اس نوعیت کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔ اگر افراد غلط ذہن، غلط عادات کا شکار ہیں تو ملک کا سیاسی و معاشی نظام بھی غلط ہوجائے گا، کیونکہ نظام انسان ہی چلاتے ہیں، انسان اگر اچھے ہوں تو وہ خراب نظام کی خرابیوں پر بھی قابو پالیں گے، لیکن برے انسان اچھے نظام کو بھی تباہ کردیں گے۔ اس طرح اگر نظام صحیح ہے تو اس نظام کے پیدا کردہ افراد بھی صحیح ہوں گے۔ حکومت صحیح طریقوں سے چل رہی ہے، معیشت صحت مند بنیادوں پر استوار ہے، تعلیمی نظام ٹھیک طریقے سے کام کررہا ہے اور ثقافتی ادارے خیر اور بھلائی کی اقدار کو فروغ دے رہے ہیں تو ایسے نظام کے تحت انسان اخلاقی بگاڑ کا شکار نہیں ہوں گے، اور اصلاح پذیر ہوتے چلے جائیں گے۔ جبکہ نظام برا ہوگا تو اچھے لوگوں کی اولاد بھی بگڑ جائے گی، اور خود اچھے لوگ بھی برے نظام کے ساتھ مصالحت کرکے اپنی نیکی کا سودا کرلیں گے۔
لیکن نظام کی بنیاد بہرحال افراد ہیں، اور پہلے مرحلے میں ایسے باایمان لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنے حُسنِ عمل کا نمونہ معاشرے کے سامنے پیش کرسکیں اور اسے متاثر کرسکیں، اور معاشرہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ان باایمان و باعمل لوگوں کو اجتماعی نظام کی ذمہ داریاں اور قوم و ملک کی قیادت سونپی جائے تو نظام ٹھیک ہوجائے گا۔
اصلاح کا پہلا مرحلہ یہی ہے کہ باعمل اور باایمان افراد منظم ہوں اور معاشرے کی تبدیلی کے لیے ان کی کوشش نمایاں ہو۔ لیکن لوگ اصلاح و تبدیلی سے گھبراتے بھی ہیں، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اصلاح کے نام پر لوگوں کو دہشت زدہ اور وحشت زدہ نہ کیا جائے، ان سے ایسے مطالبات نہ کیے جائیں جس کے لیے ان میں استطاعت اور طاقت نہ ہو۔ انسان گناہ کا پتلا ہے، اس کے خون میں شیطان دوڑ رہا ہے، اس کا نفس اسے ہر وقت بہکا رہا ہے، اس لیے یہ غصے اور تعجب کی بات نہیں ہے کہ انسان گناہ گار ہے، بلکہ حیرت اس پر ہونی چاہیے کہ انسان نیک بھی ہیں، اور معاشرے میں اچھی خاصی تعداد نیک لوگوں اور نیکی چاہنے والوں کی ہے۔ ہمیں انہی خیر کی ذہنیت رکھنے والوں کو منظم کرنا ہے، لیکن گناہ گاروں سے نفرت نہیں کرنی ہے، انہیں اپنے قریب لانا ہے تاکہ ہم انہیں اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس کرا سکیں اور اصلاح کے لیے مدد فراہم کرا سکیں۔ اور یہ آج کی بات نہیں ہے، ہر زمانے میں معاشرے کو اصطلاح کی ضرورت رہی ہے، اور جو لوگ اصلاحی مشن لے کر اٹھے ہوں انہیں اس راستے پر چلنے کے لیے حلیم الطبع ہونا چاہیے، مستقل مزاج ہونا چاہیے، ان میں عفو و درگزر اور برداشت کا مادہ ہونا چاہیے اور اپنا بھی ہر وقت محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ اپنی نیکی یا اچھائی پر کسی کبر نفس کا شکار تو نہیں ہیں، ان کے رویّے میں نمرود تو نہیں پیدا ہورہا ہے، اور یہ بات انہیں سمجھنا چاہیے کہ انسان بہت کمزور ہے اور کوئی انسان اپنی طاقت سے نہ نیک بن سکتا ہے نہ نیکی کی راہ کا داعی ہوسکتا ہے، یہ خدا کی طاقت ہے جس سے توفیق اور مدد طلب کرنے پر اسے نیکی کے لیے تائیدِ ایزدی حاصل ہوتی ہے۔
اصلاح چاہنے والوں کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد رکھنی چاہیے کہ انسان جنت کی طرف چلتا ہے اور جنت ایک قدم دور رہ جاتی ہے تو اس کے قدم دوزخ کی جانب پلٹ جاتے ہیں، اور وہ دوزخ کی طرف چلتا ہے، دوزخ ایک قدم کے فاصلے پر ہوتی ہے اور اس کا رخ اچانک جنت کی جانب ہوجاتا ہے۔ اس لیے نہ اپنی نیکی کو کافی سمجھ کر مطمئن ہونا چاہیے، اور نہ دوسرے گناہ گار کے گناہوں کو دیکھ کر اس کی اصلاح سے مایوس ہونا چاہیے۔
(8تا 14 ستمبر1999ء)