قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں پائوں ڈالے اورجب اتارے تو پہلے بایاںپائوں نکالے تا کہ دایاں پائوں پہننے میں اول اور اتارنے آخر ہو‘‘۔
وضاحت: آپ ؐ زینت و تکریم کے کام دائیں جانب سے شروع فرماتے اور دوسرے کام ان کے برعکس بائیں جانب سے شروع کرتے مثلا بیت الخلا میں داخل ہونا، استنجا کرنا اور جوتا اتارنا وغیرہ۔(فتح الباری)
واقم الصلوٰۃ ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشآء والمنکر (العنکبوت: 29:45)
’’اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘
خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر اصل مخاطب تمام اہلِ ایمان ہیں۔ ان پر جو ظلم و ستم اُس وقت توڑے جارہے تھے، اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر و ثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں۔
نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف [فحش اور برے کاموں سے روکنا] ہے جسے موقع و محل کی مناسبت سے یہاں نمایاں کرکے پیش کیا گیا ہے۔ مکہ کے اس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں مادی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت درکار تھی۔ اس اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کے نشوونما کے لیے پہلے دو تدبیروں کی نشان دہی کی گئی۔ ایک تلاوتِ قرآن، دوسرے اقامتِ صلوٰۃ۔ اس کے بعد اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ اُن برائیوں سے پاک ہوسکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گردو پیش اہلِ عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہلی سوسائٹی اس وقت مبتلا ہے۔
غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود ان لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو، بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے اُن کو اُن سب لوگوں پر زبردست برتری حاصل ہوجاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اس ناپاک نظام کو، جو ان برائیوں کی پرورش کرتا ہے، برقرار رکھنے کے لیے ان پاکیزہ انسانوں کے مقابلے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں۔
فحشآء اور منکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت برا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ، خواہ وہ عملاً کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اصولاً ان کو برا ہی سمجھتے رہے ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلیے سے مستثنیٰ نہ تھا۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے، بدی کے مقابلے میں نیکی کی قدر پہچانتے تھے، اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخص ہو جو برائی کو بھلائی سمجھتا ہو، یا بھلائی کو بری نگاہ سے دیکھتا ہو۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر کسی ایسی تحریک کا اٹھنا جس سے وابستہ ہوتے ہی خود اُسی معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہوجائیں، لامحالہ اپنا اثر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہلی تعصبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر اُن لوگوں کا ساتھ دیئے چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہلیت کے اُس نظام کو قائم رکھنے کے لیے لڑرہے تھے جو ان برائیوں کی صدیوں سے پرورش کررہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی، تاکہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کریں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیرو تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دے دے۔
متذکرہ خوبی کے دو پہلو: نماز کی یہ جو خوبی اس آیت میں بیان کی گئی ہے، اس کے دوپہلو ہیں۔ ایک اس کا وصف ِ لازم ہے یعنی یہ کہ وہ فحشا اور منکر سے روکتی ہے، اور دوسرا اس کا وصف ِ مطلوب ہے، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشا اور منکر سے رک جائے۔
جہاں تک روکنے کا تعلق ہے، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں اُن میں سب سے کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے۔ آخر اس سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اُس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تُو اس دنیا میں آزاد و خودمختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اس خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ پھر اس یاددہانی پر بھی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہر نماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی رہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔ نماز کے لیے اٹھنے کے وقت سے لے کر ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اُس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے۔ مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اُس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام وقعود کرتے ہوئے اذکارِ نماز پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اُس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اُس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعے سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جارہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جارہا ہے، اور اُس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیراثر خفیہ اور عَلانیہ ہر حال میں اس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو، اور خواہ دنیا کے لوگوںکو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔
(تفہیم القرآن، جلد دوم۔ ص66۔67)