پاک، امریکہ تعلقات کی تاریخ کیا کہتی ہے؟
دیکھا جائے تو ہماری پوری سیاسی تاریخ امریکہ اور اُس کے لائے ہوئے لوگوں کی مٹھی میں ہے
امریکہ کے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے ایک ریڈیو انٹرویو میں فرمایا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پھیلائو امریکہ کی سلامتی کو لاحق پانچ بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام غلط ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کا سبب پاکستان سے بھارت جانے والے دہشت گرد ہیں۔ (روزنامہ جنگ اور دی نیوز کراچی، 19 مارچ 2019ء)
اگر ایٹم بم بنانا جرم ہے تو دنیا میں اس جرم کا ارتکاب سب سے پہلے امریکہ نے کیا۔ اگر ایٹمی پھیلائو خطرناک بات ہے تو دنیا میں یہ خطرناک کام بھی سب سے پہلے امریکہ نے کیا۔ فرانس اور برطانیہ کی ایٹمی طاقت امریکہ کی رہینِ منت ہے۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک بار نہیں دو بار ایٹم بم استعمال کر چکا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی حال ہی میں شمالی کوریا کو دھمکی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ امریکہ شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور یہ کہ امریکہ کے ’’ایٹمی بٹن‘‘ شمالی کوریا کے ’’ایٹمی بٹنوں‘‘ سے زیادہ بڑے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیان ’’ایٹمی فحاشی‘‘ تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ کو پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے ایٹمی پروگرام پر اعتراض کرنے کا کوئی اخلاقی یا علمی حق حاصل نہیں۔ مگر امریکہ ہی نہیں اُس کے تمام مغربی اتحادی پہلے دن سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تعاقب میں ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ اپنے اور برطانیہ و فرانس کے ایٹم بم کو ’’عیسائی بم‘‘ نہیں کہتا، نہ ہی وہ بھارت کے ایٹم بم کو ’’ہندو بم‘‘ کہتا ہے، نہ ہی اسرائیل کا بم اُس کی نظر میں ’’یہودی بم‘‘ ہے۔ یہاں تک کہ مغربی ممالک نے سوویت یونین اور چین کے بم کو ’’کمیونسٹ بم‘‘ نہیں کہا، مگر پوری مغربی دنیا کے نزدیک پاکستان کا بم ’’اسلامی بم‘‘ ہے۔ لیکن مسئلہ صرف پاکستان کے ایٹم بم اور ایٹمی پروگرام کا نہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ایک ایک گوشے پر امریکہ کا منحوس سایہ موجود ہے۔ آئیے اس تاریخ کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
آپ کے خیال میں پاکستان کے سابق آمر جنرل پرویزمشرف نے اپنی وردی جسے وہ اپنی کھال قرار دیا کرتے تھے، کیسے اتاری؟ آپ کی رائے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج اپنے عہدوں پر کیسے بحال ہوئے؟ آپ کے نزدیک جنرل پرویزمشرف صدر کا عہدہ چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ آپ ان مشکل سوالات کا جواب ایک منٹ میں دینا چاہیں تو اس کے لیے آپ کو امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی خودنوشت “Decision Points” کی چند سطریں پڑھنا ہوں گی جن میں نہایت تکبر کے ساتھ انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ تینوں کام ان کے حکم پر ہوئے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس انکشاف میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی پشت پر کہیں نہ کہیں امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پاکستان میں مارشل لا آتا ہے تو امریکہ کے حکم اور اس کے مفادات کے تحت۔ پاکستان میں جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکہ کی ہدایت پر اور اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے۔
اب کہنے کو جنرل ایوب نے ملک کا پہلا مارشل لا 1958ء میں نافذ کیا، اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بہت تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ 1952ء سے امریکہ کے ساتھ رابطے میں تھے اور انہوں نے امریکہ کی کامل حمایت کے ساتھ قوم پر مارشل لا مسلط کیا۔ اس کا ثبوت امریکہ کے محکمہ خارجہ کی انتہائی خفیہ یا ٹاپ سیکرٹ دستاویزات ہیں جو چند سال پہلے ہی منظرعام پر آئی ہیں۔ ان میں سے ایک دستاویز کے مطابق لاہور کے امریکی قونصل خانے نے 23 دسمبر 1952ء کو محکمہ خارجہ کے لیے جو خفیہ ٹیلی گرام روانہ کیا اس میں لکھا تھا:
’’جنرل ایوب نے بیان کیا کہ اس نے پاکستان کے سرکردہ سیاست دانوں سے کہا ہے کہ انہیں ذہنی طور پر دل کی گہرائیوں سے مغرب کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کرلینا چاہیے۔ اس نے کہا کہ پاک فوج سیاست دانوں کو اپنی گرفت سے نہیں نکلنے دے گی اور پاکستان کے عوام کو بھی کنٹرول میں رکھا جائے گا‘‘۔ (خفیہ پیپرز۔ مرتب: قیوم نظامی۔ صفحہ 1)
امریکہ کی ایک اور خفیہ دستاویز بھی لائقِ مطالعہ ہے۔ لاہور میں واقع امریکہ کے قونصل خانے نے 13 فروری 1953ء کو اپنے ایک خفیہ ٹیلی گرام میں محکمہ خارجہ کو لکھا:
’’کمانڈر انچیف (جنرل ایوب) نے بیان کیا کہ سیاست دانوں اور عوام کی جانب سے موجودہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو فوج فوری طور پر مارشل لا نافذ کردے گی اور اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لے گی‘‘۔ (خفیہ پیپرز۔ مرتب: قیوم نظامی۔ صفحہ نمبر 1)
اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو جنرل ایوب ہی نہیں… جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا کی حقیقت بھی عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ اس حقیقت کی اہمیت یہ ہے کہ مارشل لائوں کا مجموعی عرصہ ہماری قومی تاریخ کا آدھا حصہ ہے۔ لیکن باقی نصف ’’جمہوری حصے‘‘کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر امریکہ کے لائے ہوئے فوجی آمروں کی مہر لگی ہوئی ہے۔ بنیادی جمہوریت جنرل ایوب کی ایجاد تھی۔ 1970ء کے انتخابات جن کے نتیجے میں ملک ٹوٹا، جنرل یحییٰ کی ہوسِ اقتدار کے سائے میں ہوئے تھے۔ غیر جماعتی جمہوریت جنرل ضیاء الحق نے وضع کی تھی۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں ’’جمہوری تجربہ‘‘ جنرل پرویز کے اقتدار کے تسلسل کا ’’صدقہ‘‘ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری پوری سیاسی تاریخ امریکہ اور اُس کے لائے ہوئے لوگوں کی مٹھی میں ہے۔ لیکن امریکہ کے اثرات یہیں تک محدود نہیں۔
1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی اور اس جنگ میں بھارت کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر چین کی قیادت نے جنرل ایوب کو پیغام دیا کہ بھارت اپنی بیشتر عسکری قوت چین کی سرحد پر لے آیا ہے، یہ پاکستان کے لیے نادر موقع ہے، پاکستان کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے اور مقبوضہ کشمیر کو اپنے ساتھ ملا لے۔ لیکن جنرل ایوب طویل چین بھارت جنگ کے دوران ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو چین کے مشورے کی اطلاع مل گئی، اور امریکہ کے صدر کینیڈی نے جنرل ایوب کو فون کرکے دھمکا دیا کہ وہ چین کے مشورے پر ہرگز عمل نہ کریں۔ کینیڈی نے جنرل ایوب کو یقین دلایا کہ چین بھارت جنگ ختم ہونے کے بعد وہ بھارت پر دبائو ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کرا دیں گے۔ چین بھارت جنگ ختم ہوگئی اور جنرل ایوب امریکہ کو اُس کا وعدہ بھی یاد نہ دلا سکے۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا دفاع ہی نہیں ہماری فتح تک امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اگر مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن گیا ہوتا تو پاکستان کتنا مضبوط ہوگیا ہوتا۔ پھر یقیناً مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا۔ بھارت پاکستان کے مقابلے پر نفسیاتی اعتبار سے انتہائی کمزور ہوجاتا۔ ہمارا دفاع کا تصور بدل جاتا اور ممکن ہے کہ دفاع پر خرچ ہونے والے اربوں روپے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہورہے ہوتے۔ مگر امریکہ کی دھمکی نے ان میں سے کسی امکان کو بروئے کار نہ آنے دیا۔ قوم کے آگے شیر بننے والے امریکہ کے آگے بھیگی بلی بن گئے اور انہوں نے ایک نادر تاریخی موقع گنوا دیا، اور وہ بھی صرف اس لیے کہ امریکہ ناراض نہ ہوجائے۔
1970ء میں پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزرا۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی پالیسیوں نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا۔ امریکہ کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے تھی، لیکن امریکہ نے پاکستان کی امداد سے انکار کردیا۔ بھارتی فوجیں ڈھاکہ میں داخل ہوگئیں۔ پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ سے امداد کی درخواست کی، امریکہ نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے ساتویں بحری بیڑے کو مدد کے لیے بھیج رہا ہے۔ لیکن یہ بحری بیڑا کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ اس لیے کہ یہ بحری بیڑا کبھی بھی پاکستان کے لیے روانہ نہیں ہوا تھا۔ ڈھاکہ پر بھارت کا قبضہ ہوگیا۔ پاکستان کے 90ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ پاکستان ٹوٹ گیا اور ہم آج تک ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کررہے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دفاع ہی نہیں، ہماری بقا اور سلامتی بھی امریکہ کے ہاتھ میںہے، اور اسے ہماری بقا و سلامتی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ کا مفاد ہو تو ہم اُس کے ’’اتحادی‘‘ ہیں، ہمارا مفاد ہو تو ہم امریکہ کے لیے ’’اضافی‘‘ ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو دیکھا جائے اور پاکستان میں غربت و مہنگائی کے طوفانوں کو ملاحظہ کیا جائے تو ان پر بھی امریکہ کا گہرا سایہ نظر آتا ہے۔ اس دعوے کی تاریخی شہادتیں ناقابلِ تردید ہیں۔
ان میں سے ایک تاریخی شہادت کے مطابق امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 20 جنوری 1949ء کو اپنے افتتاحی خطاب میں کہا تھاکہ دنیا کا جنوبی علاقہ غیر ترقی یافتہ یا Underdevelop ہے۔ یہ ایک نئی اصطلاح تھی اور اس کے سنگین مضمرات میں سے ایک یہ تھا کہ اب شمال جو ترقی یافتہ ہے، جنوب میں طرح طرح کی مداخلتیں کرسکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 24 جون 1949ء کو اپنے مذکورہ خیال کو مزید آگے بڑھایا اور جنوب میں مداخلت کے لیے جواز جوئی کی۔ انہوں نے امریکی کانگریس کے نام ایک پیغام میں کہا کہ ہمیں غیر ترقی یافتہ علاقے کے لوگوں کی اعانت اور ان کا ’’معیارِ زندگی‘‘ بہتر بنانے کے لیے ان کی مدد کرنی چاہیے۔ لیکن اس مدد کے معنی کیا تھے؟ اس سوال کا جواب ممتاز ماہرِ معاشیات وولف گینگ ساچز نے ایک فقرے میں دیا ہے۔ انہوں نے ترقی کے موضوع پر مرتب کی گئی کتاب “The Development Dictionary” کے صفحہ 3پر لکھا ہے:
’’ترقی (اور امداد) کا خفیہ ایجنڈا ابتدا ہی سے دنیا کو مغرب کے رنگ میں رنگ دینا یا Westernized کردینا تھا‘‘۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ دنیا کی بڑی قوت بن کر ابھر چکا تھا،اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ Westernizationکامطلب ازخود Americanization ہوتا چلا گیا اور امریکہ مغرب کی بالادستی کی علامت بن کر ابھر آیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو ترقی کے حوالے سے مغرب کے رنگ میں رنگنے کا مفہوم کیا ہے؟ اس کی تین سطحیں ہیں۔
اس کی پہلی سطح یہ ہے کہ ہمارے یہاں ترقی اور امداد کے جتنے تصورات اور نمونے یا Models آئے وہ سب کے سب مغربی یا امریکی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے مسائل تو مقامی تھے مگر ان کا حل مغربی یا امریکی تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 60 برسوں میں ہمارا کوئی اقتصادی اور معاشی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ہوتا بھی کیسے؟ سرطان کے مریض کو اگر ٹی بی کی دوا پلائی جائے تو وہ کیسے ٹھیک ہوگا؟
اس کی دوسری سطح یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک وغیرہ کے ذریعے ہمیں 50 سال میں 90 ارب ڈالر کے قرضے دلائے۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے اور پاکستان کی ابتر معاشی، اقتصادی اور سماجی حالت دیکھ کر کسی کو یقین نہیں آسکتا کہ اس ملک میں 90 ارب ڈالر کے قرضے استعمال ہوئے ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں گئی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ رقم یا تو امریکہ کا مسلط کردہ حکمران طبقہ کھا گیا، یا پھر یہ قرض غلط سلط استعمال ہوگیا جس کا ملک و قوم کوکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ البتہ قوم 90 ارب ڈالرکی مقروض ضرور ہوگئی۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ قرض کی رقم کیسے ہڑپ کر گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس رقم کو ضائع ہونے دیا اور اس کے استعمال کی کوئی نگرانی نہیں کی۔
مغرب کے رنگ میں رنگنے کی تیسری سطح یہ ہے کہ ہمارے یہاں نجکاری کا عمل امریکہ کے ادارے آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہوا۔ نجکاری شروع ہوئی تھی تو کہا گیا کہ صرف غیر منافع بخش ادارے فروخت کیے جائیں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ بڑے بڑے حساس اور منافع بخش ادارے بھی اونے پونے داموں فروخت کردیے گئے۔ پی ٹی سی ایل کا ایک حصہ جس وقت فروخت ہوا پی ٹی سی ایل سالانہ 14 ارب روپے منافع کما رہا تھا۔ پاکستان اسٹیل مل ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے مگر اسے بھی نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا اور سپریم کورٹ کے مقدمے سے ثابت ہوگیا کہ اسٹیل مل کو بھارت کا متّل گروپ خرید رہا تھا، حالانکہ سامنے متّل گروپ نہیں، کوئی اور تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے مختلف ادارے خدا جانے کس کس بھارتی یا یہودی کو فروخت کردیے گئے ہیں۔ یہ صورتِ حال پاکستان پر برائے فروخت کا بورڈ لگانے کے مترادف ہے۔ لیکن نجکاری سے صرف یہی نہیں ہوا، نجکاری سے 14 برسوں میں 7 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ اس طرح امریکہ ملک میں بے روزگاری کا براہِ راست سبب ہے۔
تیسری سطح کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکی ادارے آئی ایم ایف اور یورپی ادارے عالمی بینک کے حکم پر بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک قیمتوں میں اضافہ کیوں کرواتے ہیں؟ اس ’’راز‘‘ کی حقیقت اتنی سی ہے کہ قیمتوں اور محصولات میں اضافے سے حکومت کی آمدنی بڑھ جائے گی اور وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے لیے گئے قرضوںکی قسط ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ قیمتیں نہ بڑھنے کی صورت میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو اپنے قرضے ڈوبنے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ لیکن امریکہ کا سرطان ہمارے قومی وجود میں کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے اس کا جائزہ اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک 9/11 کے بعد رونما ہونے والی صورتِ حال کا ذکر نہ کیا جائے۔
11 ستمبر 2001ء کی رات امریکہ سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال پر جنرل پرویزمشرف نے پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ ایک ٹیلی فون کال نے جنرل پرویز کو کتنا حواس باختہ کیا اس کا اندازہ جنرل پرویز کوکال کرنے والے امریکہ کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے جنرل پرویز کے سامنے سات مطالبات رکھے، ہمارا خیال تھا کہ وہ ان میں تین چار مطالبے ہی تسلیم کریں گے، مگر انہوں نے ساتوں کے سات مطالبے تسلیم کرلیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل پرویز نے جہاد سے متعلق قرآنی آیات نصاب سے خارج کرا دیں، جہاد کی تعریف بدل ڈالی۔ انہوں نے فرمایا کہ جہاد کا مفہوم کافروں اور مشرکوں کے خلاف جہاد نہیں، غربت اور ناخواندگی کے خلاف جہاد ہے۔ امریکہ کی ہدایت پر نصاب کو اس حد تک بدلا گیا کہ امہات المومنین پر لکھے گئے مضامین نصاب سے نکال باہر کیے گئے اور ان کی جگہ عام شخصیات پر مضامین شاملِ نصاب کرلیے گئے۔ جنرل پرویز کے وفاقی وزیرتعلیم نے فرمایا کہ ہماری تاریخ محمد بن قاسم کے بجائے اشوک سے شروع ہوتی ہے۔
ایک ٹیلی فون کال پر ملک امریکہ کے حوالے کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاک فوج امریکہ کے لیے کرائے کی فوج بن گئی۔ پاکستان کے فوجی ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کردیے گئے۔ پورا ملک سی آئی اے، ایف بی آئی اور بلیک واٹر کے لیے کھول دیا گیا۔ امریکہ نے ملک کے شمالی علاقوں میں فوجی آپریشن کا حکم دیا تو 25 لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا گیا۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و حدیث اور ان کی تشریح و تعبیر بھی امریکہ سے محفوظ نہیں۔ ہماری تاریخ اور تعلیم بھی امریکہ کی گزرگاہ ہے، اور ہماری داخلہ پالیسیاں بھی امریکی چنگل سے آزاد نہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو ملک کی سیاسی جماعتیں یا تو امریکہ کی آلۂ کار ہیں یا انہیں ان حقائق کا شعور ہی نہیں۔ ملک میں صرف ایک جماعت اسلامی ایسی تنظیم ہے جسے ان حقائق کا ادراک ہے۔ اس ادراک کی ٹھوس مثال جماعت اسلامی کی ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک تھی۔ بعض کم فہم لوگ اس تحریک کو امریکہ مخالف تحریک سمجھتے تھے، لیکن ایسا نہیں تھا۔ یہ تحریک قرآن و سنت اور ان کی تعبیر کو امریکہ اور اس کے ایجنٹوں سے بچانے کی تحریک تھی۔ یہ تحریک پاکستان کو حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار بنانے کی جدوجہد تھی۔ یہ تحریک ملک کے تصورِ دفاع اور دفاعی ترجیحات کو امریکی قبضے سے چھڑانے کی کوشش تھی۔ اس تحریک کا مقصد پاکستانی قوم میں یہ شعور پیدا کرنا تھا کہ ہماری معیشت امریکہ کے یہاں گروی رکھی ہوئی ہے۔ اس تحریک کے ذریعے جماعت اسلامی لوگوں کو بتانا چاہتی تھی کہ غربت اور مہنگائی کے طوفان کا ذمے دار بھی امریکہ ہے۔ اس تحریک کا ہدف یہ تھا کہ ملک کی تعلیمی اور داخلہ پالیسیوں پر موجود امریکی اثرات کی نشاندہی کی جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’تحریکِ پاکستان‘‘ پاکستان بنانے کی جدوجہد تھی، اور ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک پاکستان بچانے کی جدوجہد تھی۔ پاکستان بنانے کی تحریک ایک مقدس تحریک تھی۔ پاکستان بچانے کی تحریک بھی مقدس تحریک تھی۔
یہ تحریک کامیاب ہوجاتی تو پاکستان پر امریکہ کے دبائو میں کچھ نہ کچھ کمی ہوسکتی تھی۔ امریکہ نے گزشتہ پچاس ساٹھ سال میں پاکستان کے ساتھ جو خوفناک کھیل کھیلا ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کا سوئمنگ پول نہیں بلکہ ایک سمندر موجود ہے۔ اس سمندر میں اٹھنے والا ایک طوفان بھی امریکہ کے ناپاک عزائم کو لگام دینے کے لیے کافی ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ ابھی تک امریکہ کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر دبائو بڑھاتا جارہا ہے۔ ایک وقت تک پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کے دبائو کی نوعیت بین الاقوامی تھی، مگر اب امریکہ نے اس دبائو کو ’’علاقائی‘‘ تناظر مہیا کردیا ہے۔ تمام باشعور پاکستانی جانتے ہیں کہ بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرن کے تحت پاکستان کی سرحد کے ساتھ اربوں ڈالر سے چھائونیاں بنائی تھیں۔ بھارت کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ عددی اکثریت کے بل پر پاکستان میں گھس جائے اور وسیع علاقے پر قبضہ کرکے پاکستان کو اپنی شرائط ماننے پر مجبور کرے۔ مگر پاکستان نے چھوٹے ایٹم بم یا Tactical nuclear weapon بناکر بھارت کے اس ناپاک منصوبے کو ناکام بنادیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالتا رہتا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے ایٹم بموں یا Tactical nuclear weapon کو ضائع بھی کرے اور ان کی پیداوار بھی بند کردے۔ امریکہ ایسا اس لیے چاہتا ہے کہ پاکستان پر بھارت کا حملہ آسان بھی ہوجائے اور اُس کی کامیابی کا امکان بھی بڑھ جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کا دبائو شیطانی بھی ہے اور پاکستان سے متعلق امریکی پالیسیوں کا تسلسل بھی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے حکمران امریکہ کے افغانستان سے باعزت انخلا میں اُس کی مدد کررہے ہیں مگر امریکہ اس حال میں بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر دبائو بڑھا رہا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کوشاں ہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کے حوالے سے غیر ذمے دار ملک ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ مگر پاکستان کے حوالے سے یہ محض ایک ’’امکان‘‘ ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل میں ایٹمی ہتھیار عملاً انتہا پسندوںکے ہاتھ میں ہیں۔ امریکہ دوبار ایٹم بم استعمال کرچکا ہے، اور یہ ایک انتہا پسندانہ اقدام تھا۔ اس لیے کہ جاپان دوسری عالمی جنگ میں شکست کھا چکا تھا اور وہ امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالنے والا تھا۔ امریکہ اس حوالے سے جاپان کے خفیہ پیغامات پکڑ کر انہیں ’’ڈی کوڈ‘‘ کرچکا تھا۔ حال ہی میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دی۔ یہ دھمکی بھی اپنی اصل میں ’’ایٹمی دھمکی‘‘ تھی۔ یعنی زیر بحث موضوع کے حوالے سے ٹرمپ کا انتہا پسند ہونا بھی ثابت ہے۔ نریندر مودی بھارتی گجرات میں تین ہزار مسلمانوںکے قتلِ عام کے حوالے سے ’’گجرات کا قسائی‘‘ کہلاتا ہے۔ جو شخص تین ہزار بے گناہ انسانوں کو قتل کرا سکتا ہے اُس کے لیے تین لاکھ یا تین کروڑ انسانوں کی ہلاکت بھی کوئی بڑی بات نہ ہوگی۔ اسرائیل لاکھوں فلسطینیوں کا قاتل ہے، وہ 50 لاکھ فلسطینیوں کو جلا وطن کیے ہوئے ہے۔ مزید 30 لاکھ لوگوں کو وہ غزہ اور مغربی کنارے میں محصور کیے ہوئے ہے۔ ایسا ملک کسی دن فلسطینیوں کے خلاف ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا انتہا پسندوںکے ہاتھوں میں جانا محض افسانہ ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار مدتوں سے انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت عیاں ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تعاقب میں ہیں، اور یہ معمولی بات نہیں۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ بھارت کی جارحیت کو صرف پاکستان کی ایٹمی صلاحیت روکے ہوئے ہے۔ جس دن پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت نہیں ہوگی، بھارت ایک لمحے میں پاکستان پر چڑھ دوڑے گا اور پاکستان کو اپنی کالونی بنا لینے کی سازش کرے گا۔ بی جے پی کے ایک رہنما نے چند روز پیشتر ہی یہ بکواس کی ہے کہ 2025ء تک پاکستان بھارت کا حصہ بن چکا ہوگا۔ بدقسمتی سے امریکہ ہی نہیں اُس کے مالیاتی ادارے بھی پاکستان کو بھارت کا چارہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عالمی بینک نے چند روز پہلے پاکستان پر دبائو ڈالا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنی تجارت بڑھائے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بھارت پاکستان پر حملے کی سازش کررہا ہے، اُس کے رہنما پاکستان کو بھارت کی کالونی بنانے کے اعلانات کررہے ہیں، اور عالمی بینک چاہ رہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت تجارت کھیلے۔ بدقسمتی سے پاک بھارت تجارت کا کھیل بھی عیاں ہے۔ پاکستان مدتوں سے بھارت کے ساتھ خسارے کی تجارت کررہا ہے۔ اس تجارت کا 70 فیصد حصہ ’’درآمدات‘‘ پر مشتمل ہے اور صرف 30 فیصد حصہ ’’برآمدات‘‘ کے ذیل میں آتا ہے۔ یہ ہے وہ ’’تجارت‘‘ عالمی بینک جس کا فروغ چاہتا ہے۔ جیسا کہ صاف ظاہر ہے یہ تجارت نہیں ہے، پاکستان کے خلاف امریکہ اور اُس کے اداروں کی معاشی اور مالی سازش ہے۔
پومپیو کا الزام۔ دفتر خارجہ کا ردِعمل
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کوامریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں امریکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ میں اس بیان پر غور کیا گیا اور مائک پومپیو کے تمام الزامات مسترد کردیے گئے۔ مائک پومپیو کے بیان کی مذمت کافی نہیں، بلکہ ایک مکمل جوابی بیانیہ کے لیے پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہونی چاہیے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ اس خطہ میں بھارت اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک نئی ٹرائیکا تشکیل دے رہی ہے جو پاکستان، چین، ایران پر نظر رکھے گی اور ہمارے لیے مسلسل مشکلات بھی بڑھاتی رہے گی۔ مائک پومپیو کے الفاظ پاکستان سے متعلق امریکہ کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ حالیہ انٹرویو میں مائک پومپیو کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کو درپیش دنیا کے پانچ بڑے خطرات میں سے ایک ہے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں میں جانے کا خدشہ ان میں سے ایک ہے۔ پومپیو کا یہ نکتہ نظر امریکہ کے روایتی تعصب پر مبنی ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کا انتظام ہر لحاظ سے عالمی معیار کا ہے، اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ بین الاقوامی ادارے اس پر اپنی رپورٹ بھی دے چکے ہیں، اور پاکستان ایٹمی عدم پھیلاؤ کا حامی ہے۔ پاکستان اسلحہ کے بین الاقوامی معاہدوں کا پابند ہے جس میں کیمیائی ہتھیاروں، حیاتیاتی ہتھیاروں، ایٹمی مواد اور سہولتوں کے تحفظ کے کنونشن اور آئی اے ای اے کے ضابطہ اخلاق سے متعلق معاہدے شامل ہیں۔ پاکستان نے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے نیشنل کمانڈ اتھارٹی قائم کررکھی ہے جس پر بین الاقوامی طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اس حوالے سے اسٹرے ٹیجک پلان ڈویژن بھی پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کررہا ہے۔ یہ ادارہ 2001ء میں قائم کیا گیا تھا۔
(میاں منیر احمد۔ اسلام آباد)