نیب کے طرزِ عمل پر سنجیدہ سوالات
یہ بات سچ ہے کہ احتساب کا عمل اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کی خودکشی اور نیب کے مرکزی دفتر پر پیپلزپارٹی کی چڑھائی اور ہلہ بولنے کے واقعے نے نیب کے عمل پر بہت سنجیدہ سوال اٹھا دیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ سیاسی حریف مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس نظام کے خالق بھی ابھی کچھ تبدیلی لانے کے موڈ میں نہیں ہیں، وہ اسی نظام کے ساتھ ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام بھی رہے اور کرپشن کے خلاف مہم بھی کامیاب ہوجائے۔ ان دونوں مقاصد کا حصول متوازن حکمت عملی کے بغیر ممکن نہیں۔ کڑا احتساب تو کررہے ہیں لیکن نیب کا غیر متوازن اور اپنی حدود سے آگے بڑھ جانے کا عمل حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن چکا ہے، اسی لیے وزیراعظم نے کہا ہے کہ ’’نیب ہر کیس کھولنے کے بجائے بڑے کیسز پر توجہ دے‘‘۔ کسی بھی تعصب کے بغیر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سب سے بڑا کیس تو بحریہ ٹائون کراچی کا تھا، لیکن یہ کیس محض 460 ارب روپے کی پلی بارگین کے ساتھ اب ختم ہوچکا ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد اب سب کچھ جائز قرار پایا ہے۔ احتساب کے دیگر تمام کیسز اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ بحریہ ٹائون کے مقدمے میں پلی بارگین کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سندھ حکومت اور آصف علی زرداری کو ریلیف ملا ہے۔ تحریک انصاف کی اپنی سیاسی بقا چونکہ احتساب کے نعرے میں تھی، لہٰذا وہ احتساب تو چاہتی ہے لیکن اس کے پاس ٹیم بھی نہیں اور متوازن حکمت عملی کا بھی فقدان ہے۔ حکومت کی مدمقابل سیاسی قوت اپوزیشن کی صرف ایک پریشانی ہے کہ اسے مقدمات کا سامنا ہے، تاہم وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنے سیاسی تجربے اور حکمت عملی سے حکومت پر دبائو بڑھانے میں ہمیشہ کامیاب رہی۔ بلاول کا ٹرین مارچ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
احتساب کے عمل میں فریق نہیں بننا چاہیے تھا۔ یہ کام وہ عدالتوں، نیب اور متعلقہ اداروں پر چھوڑ دیتی۔ نتائج کچھ بھی ہوتے، کم از کم ذمہ داری اس کے کاندھوں پر نہ آتی۔ اب وہ احتساب کا کریڈٹ لیتے ہوئے بری طرح پھنس چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے وہ تمام کارکن جو نیب پر حملہ آور ہوئے، انہیں رہا کردیا گیا ہے، یہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ حکومت کی حکمت عملی ہے، اور اب پیپلزپارٹی مزید جارحانہ انداز میں آگے بڑھے گی اور حکومت دبائو میں رہے گی۔ اسی دبائو میں غلطی کرکے وہ آصف علی زرداری کو گرفتار کرنا چاہے گی، ہوسکتا ہے کہ اپریل، مئی میں یہ فیصلہ ہوجائے۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کا اصل سیاسی امتحان شروع ہوگا۔ بلاول نے ٹرین مارچ شروع کا اعلان کیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے آپ کوبچانا چاہتی ہے۔ اپنے گھر سندھ سے ٹرین مارچ بھٹو کی برسی کی تقریب کے لیے تیاریوں کا حصہ ہے۔ اگر نیب کی کارروائی صرف آصف زرداری تک محدود رہتی تو شاید بلاول بھی ٹرین مارچ نہ کرتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیب چاہتا ہے آصف زرداری، بلاول اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو اکٹھا رکھا جائے۔
اس وقت دلچسپ صورت حال شیخ رشید احمد اور بلاول کے مابین بیانات کی جنگ نے بنا رکھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اس میں کسی حد تک شامل ہیں۔ بلاول بھٹو کو مسلسل جواب دینے سے لگتا ہے کہ حکومت دبائو میں ہے، حالانکہ بلاول کوئی تحریک نہیں چلا رہے بلکہ ایک سیاسی سرگرمی کررہے ہیں۔ حکومت نہ جانے کیوں خوف زدہ ہے! عمران خان کی کابینہ میں شیخ رشید احمد بلاوجہ وزیر برائے اصلاحِ بلاول بنے ہوئے ہیں۔پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ بلاول بھٹو کی نیب میں طلبی نے اس کا کام آسان کردیا ہے، کیونکہ اس کے پاس آصف علی زرداری کے دفاع میں کچھ نہیں تھا۔ بلاول گرفتار ہوئے تو آصفہ بھٹو میدان میں آجائیں گی، یہ صورت حال حکومت کے لیے پریشان کن ہوگی۔ سیاسی افق پر ابھرنے والی کچھ نشانیاں بتا رہی ہیں کہ حکومت بھی دبائو کا سامنا کرنے والی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے عابد شیر علی نے عمران خان کے جن بے نامی اکائونٹس کا ذکر کیا ہے یہ بے مقصد نہیں ہے بلکہ باقاعدہ ٹارگٹڈ ہے، اس میں عابد شیر علی کی اہلیت اور صلاحیت کم… جبکہ شواہد فراہم کرنے والے کا کمال زیادہ ہے۔ عابد شیر علی کی صلاحیت سے سب واقف ہیں۔ انہوں نے ایک نئی ویڈیو جاری کردی ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی ہمشیرہ علیمہ خان کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں عابد شیر علی نے ہاتھ میں کچھ دستاویزات تھام رکھی ہیں جن کے بارے میں اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ دستاویزات عمران خان کی جانب سے بنائی گئی بے نامی کمپنیوں کی تفصیلات پر مبنی ہیں، اور ان کے اکائونٹ میں آنے والا پیسہ آف شور کمپنیوں کو بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عابد شیر علی علیمہ خان کی پراپرٹی کی دستاویزات بھی افشا کرنے جارہے ہیں۔ ان کا کیس یہ ہے کہ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے نیچے عمران خان نے تین بے نامی کمپنیاں بنائیں جو عمران خان کینسر اپیل، آئی کے کینسر اپیل اور ایس کے ایم کینسر اپیل ہیں، ان کے سربراہ عمران خان ہیں، تینوں مختلف کمپنیوں کے آفس ایک ہی شہر کے اندر ہیں اور ایک ہی ٹیلی فون نمبر ہے۔ عمران خان کینسر اپیل کے اکائونٹ میں ڈیڑھ ارب روپے آئے جن میں سے چند ہزار ڈالر پاکستان بھیجے گئے اور ان میں سے 75 کروڑ روپے کے قریب پیسہ یہاں رکھا گیا اور اسے اسٹاک ایکس چینج میں لگایا گیا۔ 2012ء میں 75 کروڑ روپیہ آیا، اس میں سے 2.5 ملین ڈالر جو کہ 37 کروڑ بنتے ہیں، پاکستان بھیجے گئے اور باقی پیسے سے بے نامی پراپرٹی خریدی گئی جس کے سربراہ عمران خان ہیں۔ آئی کے کینسر اپیل میں ہر سال 6 ارب روپے اکٹھے ہوئے، یہ ایک ایسی بے نامی کمپنی ہے جو کہ شوکت خانم کے نیچے چل رہی ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کے باعث اب تحریک انصاف دبائو میں آئے گی۔
جہانگیر ترین کی کابینہ کے اجلاس میں شرکت اور زراعت پر بریفنگ پر اپوزیشن بہت سے سوالات اٹھا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے اعتراض اٹھایا ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے جہانگیر ترین کیسے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوئے؟ تحریک انصاف کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔کابینہ کے اس اجلاس کے دوروز بعد وزیراعظم کی مدیران سے ملاقات تھی۔ مدیروں کے ساتھ اہم نشست میں وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ بیوروکریسی فائلوں پر دستخط نہیں کررہی، اس لیے حکومت کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اس سے ایک دن قبل سرکاری ملازمین کے اعلیٰ ترین ادارے سیکریٹریز کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میںہوا جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ نیب بدستور سرکاری ملازمین کو پریشان اور ہراساں کررہا ہے۔ سیکریٹریز اور ایڈیشنل سیکریٹریز کو نوٹس جاری نہ کرنے کی چیئرمین نیب کی یقین دہانیوں کے باوجود معاملہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ایک وفاقی سیکریٹری کے مطابق سیکریٹریز چاہتے تھے کہ یہ معاملہ وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کے روبرو پیش کیا جائے، لیکن ڈاکٹر عشرت حسین ابھی تک کوئی واضح رہنمائی نہیں دے سکے ہیں۔ ویسے بھی ان کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے کہ وہ صرف اپنی نوکری بچانے کی فکرکرتے ہیں۔ یہ ارادہ بھانپ لینے کے بعد ہی سیکریٹریز نے فیصلہ کیا کہ وہ اجلاس کے اہم نکات کی صورت میں اپنے تحفظات براہِ راست نیب کو بتائیں گے۔ وزیراعظم کو سمجھنا چاہیے کہ جہاں صورت حال ایسی ہو کہ بیوروکریسی کو یہ ڈر لگا رہے کہ کسی بھی فیصلے اور کرپشن کے ثبوت کے بغیر بھی انہیں طلب کیا جا سکتا ہے، ان سے تفتیش کی جاسکتی ہے، حتیٰ کہ انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے، وہ کسی فائل پر کیسے دستخط کرے گی! بیوروکریسی میں خوف اس لیے پیدا ہوا کہ نیب وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر اعجاز منیر کو طلب کرچکا ہے۔ ایسے کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ سیکریٹریز کو بھی نیب ہراساں کررہا ہے۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے افسران کی گرفتاری نے بیوروکریسی کو مایوس کردیا ہے، لیکن سی ڈی اے کے سابق ممبر بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کی خودکشی کے حالیہ واقعے نے سول سروسز کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ اسلام آباد میں ہر اہم حلقے میں یہ بات سنی جارہی ہے کہ ایسے حالات میں بیوروکریسی معمول کے مطابق کیسے کام کر سکتی ہے! وزیراعظم کی سطح پر بھی صورتِ حال درست کرنے کے اقدامات نہیں کیے جا رہے۔اگر بیوروکریسی کو حکومت کی جانب سے تحفظ اور اعتماد مل جاتا تو پیپلزپارٹی کو بھی نیب آفس کے باہر کارکن جمع کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔