معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ابراہیم کنبھر نے صوبہ سندھ کے معروضی سیاسی حالات کے تناظر میں کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’کاوش‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر بروز بدھ 20 مارچ کو محولہ بالاعنوان سے جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
سندھی تحریر: ابراہیم کنبھر
’’آصف علی زرداری نے ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کرلی ہے۔ بینکنگ کورٹ کے جج نے اچانک ان کی ضمانت رد کرکے نیب کی درخواست کو جوں کا توں منظور کرکے سندھ کے کیس کو اسلام آباد منتقل کرکے پیپلزپارٹی کی قیادت کو راولپنڈی کے حوالے تو کردیا ہے، لیکن اس کے تمام قانونی پہلو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج ہوچکے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے فی الحال تو آصف علی زرداری کو عبوری ریلیف دیا ہے لیکن آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کا خطرہ ٹلا نہیں ہے، ممکن ہے کہ اس فیصلے کے خلاف نیب سپریم کورٹ جائے، یا ہوسکتا ہے کہ آئندہ سماعت پر سندھ ہائی کورٹ ازخود ہی اپنے فیصلے کو واپس لے لے۔ معاملہ محض آصف علی زرداری یا فریال تالپور کی گرفتاری کا نہیں ہے بلکہ اصل ہدف ان کی سیاسی حیثیت ہے۔ زرداری خاندان کو بھی اسی بات کا خوف ہے کہ سیاسی میدان کو خالی کرانے کے لیے یہ چالیں چلی جارہی ہیں۔ آصف علی زرداری کے خلاف جو بھی کیس یا الزامات ہیں ان پر کارروائی یا ان کے امکانی نتائج سے قبل ہم ملک کی سیاسی یا حکومتی صورت حال کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
معاشی خرابیوں، بدحالی، بے روزگاری کی لہر، مہنگائی کے طوفان، عدم استحکام کی صورت حال کے باوجود حکومت کے نشانے پر آج بھی سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ہیں۔ حکومت کی اس سیاسی دشمنی کی بنا پر یہ شک ہر ایک کو ہی درپیش ہے کہ خود کو ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کہلوانے والی تحریک انصاف نے خود ہی سیاسی جماعتوں سے دشمنی کا یہ فیصلہ کیا ہے یا موجودہ حکمران اُن کے اشارے پر عمل پیرا ہیں جن کے اشارے پر ہمارے سیاسی رہنما اور جماعتیں ہمیشہ چلنے کے لیے منتظر رہا کرتے ہیں؟ احتساب کے نام پر انتقامی انداز میں کی جانے والی کارروائیوں کے باعث بعض سیاست دانوں کا رخ اگر عدالتوں کی طرف ہے تو دوسرے سیاست دان پس منظر میں چلے گئے ہیں، اور بعض خاموشی اپنائے ہوئے بہتر وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ نوازشریف طبی بنیادوں پر ریلیف کے حصول کے لیےعدالت عظمیٰ کے دروازے پر کھڑے ہیں جہاں سے انہیں کل آئندہ ہفتے کی تاریخ ملی ہے۔ عدالتی آبزرویشن سے تو نواز لیگ کی قیادت کو فی الوقت مایوسی ہی ہاتھ آسکی ہے۔ کیونکہ انہیں اس عدالت پر اعتبار بھی کم ہی ہے جس نے ان کے قائد کو اقتدار سے ہٹاکر حوالۂ زنداں کر ڈالا ہے۔ یہ بات بھی ہے کہ یہ نوازشریف کا آخری کیس ہے جس سے اگر وہ اس طرح سے آزاد ہوگئے تو پھر اس محنت کا نتیجہ کیا نکلے گا جو انہیں راستے سے ہٹاکر سیاسی میدان خالی کرانے کے لیے کی گئی ہے؟ ادھر آصف علی زرداری کے سر پر نیب ریفرنسز میں گرفتاری کی تلوار معلق ہے اور دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی آج دوبارہ نیب کے دروازے پر حاضری بھر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جعلی اکائونٹس کیس کے حوالے سے جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کیس کی سماعت کررہے تھے تو بلاول کا معاملہ بھی ڈولتی ہوئی کشتی کی طرح کا دکھائی دیتا تھا، اور معزز عدالت کے سابق چیف جسٹس کو خود بھی اس امر کا اندازہ نہیں ہوپارہا تھا کہ اب کرنا کیا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ سابق چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور بلاول زرداری کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر نہ صرف حکومتی ذمہ داران پر اظہارِ ناراضی کیا تھا بلکہ بلاول کو معصوم بھی کہا تھا۔ لیکن اس معاملے پر جب تحریری حکم نامہ آیا تو اس میں اِس طرح کی کوئی بات بھی نہیں تھی۔ کیسوں، کارروائیوں، حملوں، خطروں اور دھمکیوں کی زد میں بس وہی سیاست دان ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت کے مخالف ہیں، اور درحقیقت وہ مخالف بھی نہیں ہیں بلکہ ان کے سیاسی قد کاٹھ اور عوام میں جڑیں ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے مالک اور خالق ان سیاست دانوں پر برانگیختہ اور برہم ہیں۔ ایک تو بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاست دان زیرعتاب ہیں، اور دوسرا سارا سیاسی زور اُن سیاست دانوں کو کنارے لگانے کے لیے لگایا جارہا ہے جو صوبوں کی، ان کے حقوق کی، وسائل پر حقِ ملکیت، خودمختاری، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور قومیت کی بات کرتے ہیں۔
آصف علی زرداری اور سیاہ و سپید کی مالک اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور سے اس وقت جو سلوک ہورہا ہے اس پر واقعتاً بھی افسوس ہوتا ہے۔ اس پر دو رائے نہیں ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں سندھ پر اس کے گیارہ سالہ دورِ اقتدار میں بدعنوانی کے نہ صرف نئے ریکارڈ قائم ہوئے بلکہ سارے سندھی کلچر کو بھی کرپشن کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔ ان کے اِن اعمال کی وجہ سے ہی یہ بدعنوانی نچلی سطح پر اتر آئی ہے۔ نئون کوٹ کے چھوٹے شہر کی ٹائون کمیٹی کے چیئرمین سے لے کر بلدیاتی اداروں کے وزیر رہنے والے جام خان شورو تک سبھی کے ہاتھ اُس مال سے صاف کردہ بتائے گئے ہیں جو دراصل اہلِ سندھ کا ہے۔ 11 برس مسلسل برسراقتدار رہنے کا ریکارڈ قائم کرنے والی پیپلزپارٹی کی قیادت اگر سندھ، اہلِ سندھ، اپنے ووٹروں، شہریوں اور دیہاتیوں کو اپنا بناکر رکھتی تو شاید وہ یہ دن دیکھنے سے بچ جاتی، اور اگر نہ بچتی تو بھی ایسی کارروائیوں پر سخت ردعمل یا مزاحمت میں عوام ان کے ساتھ کھڑے ہوئے دکھائی دیتے۔ کم از کم کچھ اور نہیں تو دلی ہمدردی تو وہ ضرور ہی ان سے کرتے۔ اس سارے عرصے میں صوبے میں اندازِ حکمرانی، سندھ کے انفرااسٹرکچر، زرعی و معاشی تباہی اور سندھ کے ساتھ اغیار کی طرح کے روا رکھے گئے سلوک کو دیکھ کر لگتا ہے کہ احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی اس احتساب کے عمل کو درست ماننے کے لیے بھی جی چاہتا ہے۔ یہ محض اس لیے کہ یہ جو ہلکی طبیعت کے وزیر مشیر اٹھاکر بڑی کرسیوں اور بڑے محکموں میں بٹھا کر انہیں مختارِ کل بنادیا گیا، انہوں نے سندھ کے وسائل کو مالِ غنیمت گردان کر مزے لوٹے اور اتنا اندھیر مچایا کہ گٹروں کے ڈھکن کے پیسے بھی کھا گئے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سندھ کوئی مالِ غنیمت نہیں ہے، اور جو کرپشن آپ کررہے ہیں یہ پیسے اور وسائل اصل میں سندھ کے عوام کے ہیں۔ لیکن دوسری جانب افسوس بھی ہوتا ہے، کیونکہ احتساب کا جو طریقہ مروج ہے وہ خامیوں سے بھرا پڑا ہے۔ احتساب کرنے والے خود کون سے دودھ کے دھلے ہیں! احتساب کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا قطعی یہ مقصد نہیں ہے کہ جو سامنے دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے مقاصد خفیہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کا مقصد اپنے مقصد کا کام لینا بھی ہوسکتا ہے۔ اپنے ایجنڈا پر مہرِ تصدیق ثبت کروانا بھی ہوسکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ احتساب کے نام پر دہرا معیار اختیار کیا جارہا ہے۔ چوتھی بات یہ کہ خلقِ خدا کو بے وقوف بنانے یا پھر مخصوص حلقوں کو خوش کرنے یا انہیں سہولیات بہم پہنچانے کے لیے احتساب کے نام پر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ اس ایک ایک نکتے کی وضاحت بھی کی جاسکتی ہے، لیکن جو مشق ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ پرانی، آزمودہ، من پسند نتیجہ دکھانے والی مشق ہے۔ اس میں تحریک انصاف اسی طرح سے استعمال ہورہی ہے جس طرح ماضی میں نواز لیگ استعمال ہوتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کو جب یہ بات سمجھ میں آئے گی اُس وقت تک بہت کچھ ہوچکا ہوگا۔ تحریک انصاف کی بھی مجبوری ہے، اس کی قیادت میں سے کچھ رہنما سارے کھیل کو سمجھتے ہوئے بھی نہ سمجھنے کا تاثر دے رہے ہیں۔ کچھ رہنما یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔
احتساب عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس کیس میں منتقل کردہ دستاویزات کو ادھورا اور بے ترتیب قرار دے کر حکم دیا ہے کہ انہیں پورا اور درست کرکے دیا جائے۔ اس ریفرنس سے تین ہزار صفحات کی دستاویز لاپتا ہوجانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ اس کے پس پردہ کس کا ہاتھ ہے؟ کیا ایف آئی اے یا نیب کا کمال ہے، یا پھر ان سے بھی کوئی ہاتھ کرگیا ہے؟ اس وقت تو یہ کیس ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق بن چکا ہے۔ اگر یہ ساری دستاویز ہاتھ بھی آجائیں تب بھی یہ کیس نیب کی اسی عدالت میں چلے گا جو قبل ازیں میاں نوازشریف کو سزا دے چکی ہے۔ جس اہتمام کے ساتھ یہ کیس تیار کیے گئے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ میاں نوازشریف کی طرح آصف علی زرداری پر بھی وہی فارمولا استعمال ہوگا۔ بظاہر دیکھنے میں تو یہی آرہا ہے کہ آصف علی زرداری کو سیاست سے دست بردار کرانے کے لیے تمام تر حربے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ حکومت کو یہ لالچ دیا گیا ہے کہ زرداری صاحب پیسے واپس کریں گے جس کی وجہ سے آپ کے دن بھی اچھے گزریں گے۔ لیکن ہونا کچھ بھی نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اکیلے آصف علی زرداری کو دیوار سے لگا کر ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟ ایک فرد کا میڈیا ٹرائل کرکے، اسے دھکیل کر، سیاسی طور پر تنہا کرنے کے لیے جیل میں ڈال کر اگر ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا کوئی خواب دیکھ رہا ہے تو اس سے کم عقل کوئی نہیں ہوسکتا۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے نظام قابلِ اعتبار ہونا چاہیے۔ اگر نظام تجربات پر مشتمل ہوگا تو کرپشن کے خلاف واویلا تو ہوسکتا ہے لیکن کرپشن کا اس طرح سے خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ میکنزم، نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ اختیار بھی عوام ہی کو حاصل ہونا چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کو الیکشن میں شکست دیں۔ یہ اختیار فواد چودھری یا ان کے پرانے آقا پرویزمشرف، یا پھر ان کے ہم خیالوں کو نہیں ہے کہ وہ اعلان کرتے پھریں کہ نواز لیگ یا پیپلزپارٹی کی قیادت کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ یہ اختیار عوام کو حاصل ہے۔ عوام جسے بھی چاہیں اس کی سیاست اور الیکشن کو زمین بوس کرسکتے ہیں۔‘‘