ابوسعدی
طبی ماہرین کی جانب سے اس بات کی تصدیق تو ہوچکی ہے کہ نہار منہ نیم گرم پانی پینا صحت کے لیے خآصا مفید ہے، اور اگر اس عمل کو اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کیا جائے تو کئی متعدد امراض سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن آج یہ جان کر آپ حیران ہوجائیں گے کہ سونے سے پہلے نیم گرم پانی پینا آپ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے، کہ اگر کوئی شخص سونے سے قبل پانی پینے سے گریز کرتا ہے تو جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے(جسے عام طور پر ڈی ہائڈریشن کہتے ہیں)۔ اس کی وجہ سے بے چینی اور ڈپریشن بڑھ جاتا ہے اور سونے میں بھی بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اگر رات سونے سے قبل نیم گرم پانی کا استعمال کیا جائے تو نہ صرف آپ کے جسم سے پانی کی کمی دور ہوگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پُرسکون نیند بھی آئے گی۔ نیم گرم پانی جسم میں موجود مختلف قسم کے جراثیم اور زہریلے مواد کو ختم کرکے خون کے بہائو کو بہتر بناتا ہے جس سے جسم کا اندرونی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ نیم گرم پانی نظام ِہاضمہ کو بہتر بناتا ہے اور میٹابولزم کی رفتار کو بڑھا دیتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ پانی نظام میں پھنسے ہوئے ذرات کو بھی جسم سے خارج کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دراصل یہ حقیقت ہے کہ رات کے وقت نظام ہاضمہ کمزور پڑ جاتا ہے، لیکن نیم گرم پانی کے استعمال سے ہاضمے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کے وقت نیم گرم پانی پینا نہ صرف کھانے کو ٹکڑوں میں توڑ دیتا ہے بلکہ نظام ہاضمہ بھی صحیح طرح سے کام کرتا ہے جس سے ممکنہ طور پرجسمانی وزن میں کمی ہوجاتی ہے۔
روس کی اسلحہ ساز کمپنی نے کلاشنکوف چلانے والا ڈرون بنالیا
فروری 2018ء میں پہلی بار روس کے خفیہ ادارے کے ایک افسر نے انکشاف کیا تھا کہ ایک ایسا جاسوسی ڈرون تیار کیا جارہا ہے جس کی شکل ہوبہو روسی کلاشنکوف اے کے 47 کی طرح ہے اور جو فضا میں اڑتی ہوئی کلاشنکوف لگتی ہے۔ اپنی مخصوص ساخت کے باوجود یہ ڈرون فضا میں تیرتے ہوئے فائرنگ کرکے اپنے شکار کو بآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین افغان وار کے دوران روسی رائفل کلاشنکوف نے عالمگیر شہرت حاصل کی تھی۔ اس رائفل کا نام اس کے تخلیق کار میخائل کلاشنکوف کے نام پر رکھا گیا تھا۔
’’ سوشل میڈیا سے نوجوان مادہ پرستی کی جانب مائل ہونے لگے‘‘
محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی (ماجو) کی بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ سوشل سائنسز فیکلٹی کی طالبہ کومل شمیم نے ’’سماجی نیٹ ورکنگ سائٹس کے زیادہ استعمال کے نتائج، شدت اور دباؤ کے نتیجے کے ماڈل کو روکنا‘‘ کے موضوع پر پیش کی جانے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ سماجی نیٹ ورکنگ سائٹس اور سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال نوجوانوں کو سماجی مسابقت کی طرف متوجہ کررہا ہے جو انھیں مادہ پرستی کی طرف لے جاتا ہے، اور پھر مادہ پرستی کے سبب ان پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جن میں ڈپریشن کا شکار ہونا، پریشان رہنا اور زندگی سے بیزاری شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے استاد اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر طاہر اسلام کی زیرنگرانی یہ رپورٹ تیار کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بے شمار منفی نتائج کو فروغ دے رہا ہے جو کہ اب ایک لاعلاج مسئلے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ سماجی مسابقت اور مادہ پرستی اب ہمارے نوجوانوں کے لیے عام سی بات بن گئی ہے جس کی وجہ سے ان کے برتاؤ اور دماغی حالت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
یہ تحقیقی رپورٹ خاص طور پر پاکستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے جس میں ملک کی آبادی کی سب سے بڑی تعداد نوجوان طبقے کو ہدف بنایا گیا ہے، اور اس کی تیاری کے دوران ڈیٹا ان کے سروے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے، اور ماہرین کے تجزیے کے مطابق آج کا نوجوان روزانہ 24 میں سے 8 گھنٹے سوشل میڈیا کے استعمال پر صرف کررہا ہے۔
فیس بک اکاؤنٹس کے پاس ورڈ خفیہ نہیں رہے
سیکورٹی میں خامیوں، جھوٹی خبروں کی تشہیر اور صارفین کا ڈیٹا دیگر کمپنیوں کو دینے کے بعد فیس بک کے متعلق ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ اس پلیٹ فارم پر کم سے کم 20 سے 60 کروڑ صارفین کے پاس ورڈ محفوظ نہیں رہے۔ فیس بک پر یہ اتنے بہت سے پاس ورڈ صرف سادہ ٹیکسٹ کی صورت میں محفوظ ہیں اور کم ازکم دنیا بھر میں پھیلے فیس بک کے ہزاروں ملازمین سے یہ کسی صورت پوشیدہ نہیں، اور انہیں بہت آسانی سے سرچ بھی کرایا جاسکتا ہے۔ یہ پاس ورڈ فیس بک لائٹ، انسٹاگرام اور فیس بک صارفین سے تعلق رکھتے ہیں۔ حال ہی میں انٹرنیٹ سیکورٹی سے وابستہ ماہر برائن کریبس نے کہا ہے کہ فیس بک پلیٹ فارم پر ایسے پاس ورڈز کی تعداد 20 سے 60 کروڑ ہوسکتی ہے جو سادہ ٹیکسٹ کی صورت میں عیاں ہیں اور وہاں کے ملازمین انہیں باقاعدہ سرچ بھی کرسکتے ہیں۔ گزشتہ دو برس سے فیس بک پر خفیہ معلومات کی حفاظت سے متعلق اسکینڈل اور خبروں کے بعد یہ ایک اور ہولناک معاملہ ہے جس کا اعتراف فیس بک نے خود کیا ہے۔ برائن کریبس کے مطابق فیس بک نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ کئی اکاؤنٹ پانچ سے سات سال پرانے بھی ہیں۔ واضح رہے کہ خود گوگل، ٹویٹر اور فیس بک پر پاس ورڈ اسٹیرک اور دیگر انداز سے چھپاکر خفیہ رکھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ خود ملازمین بھی اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔ لیکن فیس بک کے ڈیٹا بیس میں سادہ ٹیکسٹ کی صورت میں پاس ورڈ تک ادارے کے ملازمین آسانی سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔