الجزائر: تبدیلی کی لہر

پُرامن مظاہروں سے قلعۂ آمریت میں گہرا شگاف پڑچکا ہے

الجزائر کی حکومت کے خلاف کئی ہفتوں سے جاری مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو سارے ملک میں لاکھوں افراد نے قبر میں پیر لٹکائے لیکن اقتدار سے چمٹے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کے خلاف مظاہرہ کیا۔الجزائر کے موجودہ سیاسی بحران کے تجزیے سے پہلے شمالی افریقہ کے اس خوشحال ترین ملک کا ایک مختصر سا تعارف، کہ الجزائری تاریخ پُروقار و ایمان افروز جدوجہد کا استعارہ اور تیل سے مالامال یہ ملک لاکھوں اخوانیوں کے لہو سے منور و معطر ہے۔
سوا چار کروڑ آبادی والے اس ملک میں تیل کی پیداوار بیس لاکھ بیرل یومیہ ہے، جبکہ دس ارب مکعب فٹ گیس بھی روزانہ نکالی جاتی ہے۔ الجزائر کے بارے میں یہ بات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ پاکستانی انجینئروں اور ماہرینِ ارضیات نے الجزائر کی تیل و گیس کی صنعت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز پر جناب ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کے کام کو منظم و مربوط کرنے کے لیے او جی ڈی سی کی بنیاد ڈالی۔ موصوف اُس وقت پاکستان کے وزیرِ صنعت تھے۔ اسی دوران الجزائر نے غیر ملکی تسلط سے نجات حاصل کی، لیکن آزادی سے قبل فرانسیسیوں نے تیل کے اکثر میدانوں کو فرانسیسی اور امریکی اداروں کے ہاتھوں اونے پونے بیچ دیا، جبکہ قابض فوج باقی اثاثے جاتے جاتے تباہ کرگئی۔ الجزائر کی نوزائیدہ حکومت نے پاکستان سے مدد کی درخواست کی کہ اُس وقت مسلمان ملکوں میں صرف پاکستان ہی قدرتی وسائل کی تلاش و ترقی کا علم رکھتا تھا۔ بھٹو نے الجزائری قیادت کی بھرپور مدد کی اور او جی ڈی سی کے انداز میں سوناطراک (Sonatrach) کے نام سے وہاں تیل و گیس کے ایک قومی ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ بڑی تعداد میں پاکستانی ماہرین الجزائر بھیجے گئے، بلکہ ایک عرصے تک سوناطراک کا انتظام و انصرام پاکستانیوں ہی کے پاس رہا۔
الجزائر کے لوگوں نے اپنی آزادی کی ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ فرانسیسیوں نے 1830ء میں یہاں قبضہ کیا، لیکن انھیں ایک دن بھی آرام سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا، اور نیشنل لبریشن فرنٹ کے بینر تلے الجزائری حریت پسندوں نے بے مثال شجاعت کی تاریخ رقم کی۔ برطانیہ اور اسپین نے حریت پسندوں کے خلاف فرانس کی بھرپور مدد کی، سارے یورپ سے سنگین جرائم میں ملوث ہزاروں افراد اور پیشہ ور قاتل یہاں لاکر بسائے گئے جنھوں نے ظلم و تشدد کے نت نئے طریقے ایجاد کیے، لیکن حریت پسندوں نے مستقل مزاجی سے اپنی تحریک جاری رکھی اور 1962ء میں فرانسیسیوں کو بوریا بستر لپیٹنا پڑا۔ آزادی کے بعد نیشنل لبریشن فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی اور ملک میں 1978ء تک ایک جماعتی نظام برقرار رہا۔ حواری بومدین کے انتقال پر شاذلی بن جدید برسراقتدار آئے، انھوں نے آئین میں ترمیم کرکے کثیرالجماعتی نظام قائم کردیا، اور 1988ء میں جماعت سازی پر پابندی اٹھتے ہی مشہور حریت پسند رہنما ڈاکٹر عباس مدنی نے دوسرے سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر اسلامک سالویشن فرنٹ یا FISکی بنیاد رکھی۔ نفسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے عباس مدنی ایک سنجیدہ، بردبار اور اعتدال پسند سیاسی رہنما ہیں۔ آزادی کی جنگ میں یہ احمد بن بیلا، حواری بومدین اور دوسرے حریت پسند رہنمائوں کے شانہ بشانہ تھے۔ مدنی صاحب ایک طویل عرصے تک فرانسیسیوں کی قید میں بھی رہے۔
دنیا بھر کی تحاریکِ اسلامی کی طرح FIS نے بھی خدمتِ خلق کے میدان سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا، اور سارے ملک میں اسکولوں، سستی روٹی کے تندور اور شفاخانوں کا جال بچھا دیا، جس کی وجہ سے اسے غریب لوگوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ 12 جون 1990ء کو ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں FIS نے 54 فیصد ووٹ لے کر تمام کی تمام بلدیات میں حکومت بنالی۔ بلدیاتی اقتدار کو FIS نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہت ہی حکمت و تدبر سے استعمال کیا اور اس کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ بلدیاتی انتخابات کے فوراً ہی بعد عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ رائے عامہ کے تمام جائزوں سے FIS کی کامیابی یقینی نظر آرہی تھی جس سے حکمران طبقے کو سخت پریشانی ہوئی۔ چنانچہ امراء نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ سیکولر عناصر، فوج، کمیونسٹوں اور تمام دین بیزاروں نےFIS کے خلاف متحدہ محاذ بنالیا، حتیٰ کہ اہلِ جبہ و دستار اور صوفی ومشائخ بھی FIS مخالف سوشلسٹ اتحاد میں شامل ہوگئے۔
شدید نظریاتی تنائو کے باوجود چھے مہینوں پر محیط انتخابی مہم انتہائی پُرامن رہی اور ملک میں کسی ایک جگہ بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ دسمبر1991ء میں پارلیمنٹ کی 430 نشستوں پر انتخابات ہوئے جس میں پچاس سے زیادہ جماعتوں نے حصہ لیا۔ پہلے مرحلے میں231 نشستوں کا فیصلہ ہوا، اور اسلامک فرنٹ نے 47 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر 188نشستیں جیت لیں۔ اس کے قریبی حریف سوشلسٹ فرنٹ کو 25 سیٹوں پر کامیابی نصیب ہوئی، جبکہ صرف15 نشستیں حکمران نیشنل لبریشن فرنٹ کے حصے میں آئیں۔ باقی 199 نشستوں میں سے 160 پر اسلامک فرنٹ کو برتری حاصل تھی، لیکن کُل ووٹوں کا پچاس فیصد نہ ملنے کی بنا پر ان نشستوں پر دوسرے مرحلے کے Run-Off انتخابات ہونے تھے۔ سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ دوسرے مرحلے کا انتخاب مکمل ہونے پر اسلامک فرنٹ کو 430کے ایوان میں 350 نشستیں حاصل ہوں گی۔
سالویشن فرنٹ کی اس بے مثال کامیابی پر سارے ملک میں جشن کا سماں تھا۔ دیہات میں لوگوں نے گھروں کی منڈیروں پر زیتون کے چراغ روشن کیے۔ لیکن یہ جشن دوسری ہی صبح شامِ غریباں میں تبدیل ہوگیا جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے انتخابات کو کالعدم کردیا۔ مذہبی بنیادوں پر بنائی جانے والی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی اور اسلام پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز ہوا۔ فوجی آپریشن کے آغاز پر ہی عباس مدنی نے واضح اعلان کیا کہ اسلامک فرنٹ ایک جمہوری جماعت ہے اور بیلٹ ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ لیکن الجزائری فوج اس یقین دہانی پر مطمئن نہ ہوئی اور اسلامک فرنٹ کی قیادت کو گرفتار کرکے اس کے کارکنوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اسلامک فرنٹ کے دو لاکھ سے زیادہ کارکن فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج نے اپنی کارروائی کا جواز پیدا کرنے کے لیے جعلی معرکوں کا اہتمام کیا، جس کے بعد اخوانیوں پر الجزائز کی زمین تنگ اور ان کے خون سے سرخ کردی گئی۔
دنیا میں جمہوریت کے سار ے علَم برداروں نے عوامی امنگوں اور مینڈیٹ پر ڈالے جانے والے ڈاکے کی بھرپور حمایت کی۔ یورپی یونین کا کہنا تھا کہ الجزائری فوج نے بروقت کارروائی کرکے اپنے ملک کو گڑھے میں گرنے سے بچالیا ہے۔ اسی پر جناب انور مسعود نے کہا تھا:

ہمیں جمہوریت اچھی لگے ہے
اگر یہ الجزائر میں نہ ہووے

خون کی یہ ہولی آٹھ سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔ 1995ء سے انتخابات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا، اور ہر بار فوج کی حمایت سے نیشنل لبریشن فرنٹ کے امیدوار ہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔ موجودہ صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ 1999ء میں منتخب ہوئے اور اس کے بعد 2004ء میں 85 فیصد ووٹ لے کر وہ دوسری مدت کے لیے دوبارہ صدر چن لیے گئے۔ الجزائری دستور کے تحت کوئی بھی شخص دو مدت سے زیادہ صدارت کے منصب پر نہیں رہ سکتا، لیکن تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح الجزائر میں بھی ملکی آئین آمروں کے گھرکی لونڈی ہے۔ چنانچہ دستور میں ترمیم کردی گئی۔ وہ فروری 2009ء میں تیسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے اور اپریل 2014ء کے انتخابات میں 81 فیصد ووٹوں کے ساتھ موصوف نے چوتھی مدت بھی حاصل کرلی۔
عوام جہاں 82 سالہ عبدالعزیز کی کرپشن اور ظلم و تشدد سے بے حد پریشان ہیں، وہیں چند برسوں سے وہ خود بھی عملاً مفلوج ہیں۔ ان کی بیماری کا سلسلہ آٹھ سال سے جاری ہے اور وہ اپنا اکثر وقت جنیوا کے اسپتالوں میں گزارتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال ملک کے یہ مطلق العنان حکمران 20 سال کے دوران ایک بھی ایسا اسپتال نہ بنا سکے جس میں وہ اپنا علاج کرا سکیں۔ ان کے خلاف عوامی تحریک کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ الجزائر کے صدر کو اس کا اندازہ بھی نہیں، کہ دو ہفتے پہلے تک وہ سوئٹزرلینڈ میں اپنا علاج کرا رہے تھے۔ سنتے ہیں پاکستان پر بھی کبھی ایسا وقت آیا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد فالج کے باوجود حکمرانی فرما رہے تھے۔
گزشتہ ہفتے جب صدر صاحب علاج کراکے سوئٹزرلینڈ سے واپس آئے تو ایک ترجمان کے ذریعے انتہائی علیل عبدالعزیز بوتفلیقہ نے آئندہ انتخاب نہ لڑنے کا اعلان کردیا۔ عوام نے پیر تسمہ پا سے جان چھُوٹنے پر زبردست جشن منایا، لیکن یہ خوشی دو دن بعد اُس وقت کافور ہوگئی جب الیکشن کمیشن نے انتخابات ہی ملتوی کردیے۔ صدر صاحب کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے مستقبل کے بندوبست پر قومی مفاہمت ضروری ہے۔ صدر کی تقریر سنتے ہی سارا الجزائر ایک بار پھر سڑکوں پر آگیا اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ کئی شہروں میں اسکارف پوش خواتین نے جلوس نکالے اور ارحل یاعبدالعزیز (اے عبدالعزیز ہماری جان چھوڑ دیجیے) کا نعرہ زبان زدِ عام ہوگیا۔ فوج بظاہر غیر جانب دار لگ رہی ہے، تاہم 15 مارچ کو صدر کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ فوج، عدلیہ اور سیکولر و لبرل طبقے کو اپنی آنکھ کھول لینی چاہیے کہ حالات 1990ء کی طرف واپس جاتے نظر آرہے ہیں۔ گویا صدر عبدالعزیز نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔
دوسری طرف مقتدرہ نے قلعہ بندی شروع کردی ہے اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ صدر عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ نئی حکومت میں ایک تہائی خواتین ہوں گی۔ لیکن اس لالی پاپ کے خلاف اتوار کو لاکھوں خواتین نے زبردست مظاہرہ کیا۔ خواتین کا کہنا تھا کہ عورت ہو یا مرد، ہمیں منتخب قیادت چاہیے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کے لیے اب نورالدین بدوی کو وزیراعظم نامزد کیا گیا ہے جنھوں نے دوسال پہلے بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیے جانے والے وزیر خارجہ رمطان لعمامرہ کو نائب وزیراعظم مقرر کردیا۔ مزے کی بات کہ وزارتِ خارجہ کا قلمدان بھی دوبارہ رمطان صاحب ہی کو تھما دیا گیا ہے۔ نئے وزیراعظم کو اپنی کابینہ بنانے میں سخت مشکل درپیش ہے کہ عوامی دبائو کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل لوگ کٹھ پتلی حکومت کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ مشہور طبیب اور سرکاری ڈاکٹروں کی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر الیاس مربت نے وزیر صحت بننے سے انکار کردیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ الجزائر کے لوگ عبدالعزیز کی آمریت سے نجات اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں، جبکہ ٹیکنوکریٹس حکومت کے نام پر انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اساتذہ کی وفاقی انجمن کے صدر میزان مروان نے بھی وزارت کی دعوت یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ جس حکومت کو عوام نے مسترد کردیا اُسک ا حصہ بن کر میں لاکھوں اساتذہ کو بے وقار نہیں کروں گا۔
اب یہ خبر گرم ہے کہ مشہور سفارت کار لخدربراہیمی ملک کے مختلف سیاسی گروہوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کریں گے۔ لخدر براہیمی عراق اور افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رہ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ذمہ داریاں محض علامتی تھیں کہ معاملہ امریکہ سے تھا، اور بیچارے لخدر براہیمی کی کیا مجال کہ وہ چچا سام کے کسی قدم، مؤقف، حتیٰ کہ عندیے پر بھی تنقید یا ناراضی کا اظہارکرسکیں۔ کہا جارہا ہے کہ وہ الجزائر کے بانیوں یعنی 1954ء سے 1962ء تک جاری رہنے والی جنگِ آزادی میں شریک زعما سے مشاورت کررہے ہیں جن کی اکثریت پیرانہ سالی کے سبب معذور ہے اور بستر سے لگی بیٹھی ہے۔1991ء میں عوامی مینڈیٹ چرانے والوں میں لخدر صاحب بنفسِ نفیس شامل تھے، اور FISکو کچلنے کے بعد جو نئی حکومت قائم ہوئی اُس کے یہ وزیرخارجہ تھے۔ چند سال پہلے اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے فرمایا کہ ’’1991ء میں جب FISکی کامیابی نوشتۂ دیوار نظر آرہی تھی تو انتخاب کروانے کی ضرورت ہی کیا تھی!‘‘ ذہنی افلاس کا شکار اور اخلاقی طور سے دیوالیہ شخص کو کون ثالث تسلیم کرے گا!
ایک منظم اور سیکولر اقدار کی بالادستی کے لیے پُرعزم فوج کی موجودگی میں کسی بڑی تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، لیکن نوجوانوں کا خیال ہے کہ پُرامن مظاہروں سے قلعۂ آمریت میں گہرا شگاف پڑچکا ہے۔ عوامی بیداری تبدیلی کی برسات کا پہلا قطرہ ہے، اور موسلا دھار بارش سے اٹھنے والا سیلاب کرپٹ و بوسیدہ اقتدار کو آخرِکار بہا لے جائے گا۔ دیکھنا ہے کہ سیکولرازم کی پاسبان الجزائری فوج عوامی امنگوں کو کچلنے کے لیے اِس بارکس حد تک جائے گی۔

…………

اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔