پھانسی گھاٹ پر حیرت انگیز منظر نگاہوں کے سامنے تھا

میری قید بھی مختلف مرحلوںسے گزر رہی تھی۔ جب کوئی نیا سیاسی قیدی آتا تو تنہائی کم ہوجاتی، اور جب کوئی غمگسار نہ ہوتا تو دوبارہ تنہائی کا سفر شروع ہوجاتا اور میں کتابوں کی دنیا میں چلا جاتا۔ جیل اور تنہائی کی راتیں طویل ہوجاتیں۔ چونکہ مجھے بی کلاس دی گئی تھی اس لیے اپنے احاطے سے نکل کر مختلف بیرکوں میں گھومتا اور دیکھتا۔ جیل میں قیدی آ اور جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک دن احاطے میں کھڑا تھا کہ ایک جوان قیدی لایا گیا اور اسے وزن والی مشین پر کھڑا کیا گیا۔ اس قیدی کا قد 6 فٹ سے زیادہ ہوگا، وہ خاموش کھڑا تھا۔ میں اس کے قریب گیا اور ہاتھ ملایا تو اس کی پشت پر کھڑے ایک وارڈن نے اپنے سر کوہلایا اور اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ عام قیدی نہیں ہے بلکہ ذہنی مریض ہے، اس لیے ذرا محتاط ہوگیا ۔ وزن کے بعد وہ مشین سے اتر آیا اور اس نے اپنی گفتگو شروع کردی، اس نے کہا کہ دنیا میں فساد کی تمام ذمہ داری عورتوں پر عائد ہوتی ہے اور وہ مردوں پر حکمرانی کرتی ہیں، ان کی حکمرانی مردوں پر سے ختم ہوجائے گی تو دنیا میں سکون ہوجائے گا۔ اس نے کہا کہ میرا مشن ہے کہ خواتین کی حکمرانی کو ختم کیا جائے۔ وہ کچھ عرصے بعد چلا گیا۔ ایک دن جب میں بھی رہا ہوگیا تھا تو اس سے لیاقت روڈ پر ملاقات ہوئی۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس سے پوچھا کہ تمہارے مشن کا کیا حال ہے، تو وہ خاموشی سے مسکرایا اور چل دیا۔ اس طرح ایک دن ایک بنگالی قیدی سے ملاقات ہوئی۔ اسے آوارہ گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کی قید کو دو سال ہوگئے تھے، اور اس کا کوئی ضمانتی نہ تھا۔
اب ایک ایسا واقعہ، جس کو میں فراموش نہیں کرسکا ہوں۔ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہورہا تھا تو بعض بنگالی افسران اور عام ملازمین بلوچستان سے راہِ فرار چاہتے تھے کیونکہ وہ خوف زدہ ہوگئے تھے۔ وہ چمن بارڈر کے ذریعے بلوچستان سے نکلنا چاہتے تھے اور افغانستان سے بنگلہ دیش جانا چاہتے تھے۔ وہ عوامی لیگ کے بعض لیڈران اور عام اسمگلروں کے ذریعے نکل رہے تھے۔ ان بنگالیوں کو آئل ٹینکر کوئٹہ سے چمن لے جاتے اور سرحد پار کرا دیتے۔ سب سے افسوس ناک اور اذیت ناک بات یہ تھی کہ بعض دفعہ آئل ٹینکر میں دم گھٹنے سے وہ موت کی وادی میں چلے جاتے تھے۔ حالانکہ شیخ مجیب الرحمن نے بلوچستان کے عوامی لیگ کے لیڈروں کو رقم بھی بھجوائی تھی، لیکن انہوں نے اس رقم پر ہاتھ صاف کیا اور بنگالیوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ وہ پیسوں کی لالچ میں موت کے سوداگر بن گئے تھے۔ کوئٹہ جیل میں باغی بنگالی قیدی تھے، ان سے ملتا تو وہ جیل کے عملے کی مختلف شکایتیں کرتے تھے۔ ایک دن ایک نوجوان بنگالی قیدی نے مجھ سے کہا کہ جیل کے کلرک نے میری گھڑی لے لی ہے۔ میں جیل سپرنٹنڈنٹ سے ملا اور اس کی گھڑی واپس دلا دی۔ بعض قیدیوں نے مجھ سے شکایت کی کہ عوامی لیگ نے بلوچستان سے وابستہ بعض وکلا کو رقم فراہم کی ہے لیکن وہ مقدمات کی پیروی سے جان چھڑاتے ہیں۔ انہوں نے ایک وکیل کے نام رقعہ بھی مجھے دیا کہ آپ جب کچہری جائیں تو یہ رقعہ ان کو دے دیں۔ میں نے یہ کام بھی کیا لیکن اُن کی پریشانی کم نہیں ہوئی۔ بعد میں نیپ کی حکومت نے انہیں جیل سے آزاد کردیا اور وہ بنگلہ دیش چلے گئے۔
ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ایک بنگالی فوجی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا۔ اب وہ کتاب میری لائبریری میں ہے، اور اِن دنوں جب یہ لکھ رہا ہوں تو کراچی میںہوں۔ ان فوجی افسروں کا بڑا خطرناک منصوبہ تھا، وہ کوئٹہ سے دور سمنگلی کے قریب اسلحہ کے ڈپو کو بارود سے اڑا دینا چاہتے تھے۔ خدانخواستہ یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو کوئٹہ اور چھائونی تباہ ہوجاتے۔ اس فوجی کو شیخ مجیب الرحمن کی حکومت نے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا فوجی اعزاز بھی دیا۔ بعد میں یہ فوجی شیخ مجیب الرحمن کی حکومت کا تختہ الٹنے میں شریک تھا۔ اس فوجی بغاوت میں شیخ مجیب الرحمن مع خاندان قتل ہوگیا۔ شیخ حسینہ واجد بھارت کے دورے پر تھی اور ڈاکٹر کمال بھی باہر تھے اس لیے یہ دونوں بچ گئے۔
بی کلاس کا قیدی ہونے کی وجہ سے کچھ رعایت حاصل تھی۔ ایک دن عصر کے بعد گھومتے ہوئے جیل کے داخلی احاطے میں چلا گیا جہاں جیل سپرنٹنڈنٹ کا کمرہ تھا۔ اس احاطے میں قیدیوں کو لاتے، ان کی تلاشی لیتے اور پھر مختلف بیرکوں میں بھیج دیتے۔ میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھے شخص کے ہاتھ رسیوں سے باندھے ہوئے تھے اور اس کا ایک 14سالہ بیٹا اس کے ساتھ تھا۔ فوجی نے بوڑھے کے ہاتھ کھول دیے، اور اس کا بیٹا سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں چلا گیا تاکہ کاغذی کارروائی مکمل ہو۔ اس دوران میں بوڑھے قیدی کے قریب گیا اور اس سے پشتو میں بات کی تو وہ پشتو زبان جانتا تھا، اس نے بتلایا کہ میں تو سڑک پر کام کرنے والا مزدور تھا، میرا پہاڑوں پر لڑنے والوں سے کوئی تعلق نہیں، لیکن انہوں نے میری بات سنی ان سنی کردی اور مجھے اپنے چھوٹے سے معصوم بیٹے کے ساتھ گرفتار کرلیا ہے اور جیل پہنچا دیا ہے۔ میرا علاقہ کوہلو ہے اور میں مری قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں(مری قبائل کا علاقہ پشتون علاقے سے ملحق ہے، اس لیے مری قبائل کے لوگ پشتو بولتے ہیں)۔ کچھ دیر بعد جیل وارڈن نے اسے جیل کے احاطے میں منتقل کردیا۔ اس کے بعد مجھے تجسس ہوا کہ کیا اس کوئٹہ جیل میں مری قبائل کے اور بھی لوگ موجود ہیں، اور کس احاطے میں ہیں؟ اس لیے ایک دن فیصلہ کیا کہ ان مری قبائل کے قیدیوں کا سراغ لگائوں اور دیکھوں کہ وہ کس حال میں ہیں اور انہیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔
چکر جمعدار سے دوستی ہوگئی تھی، ایک دن عصر سے کچھ پہلے اپنے احاطے سے نکلا اور چکر جمعدار کا انتظار کرتا رہا، اس نے جیل کے احاطے کے دروازوں پر تالے لگانا شروع کردیے تھے، اس لیے اُس کے ساتھ ساتھ کچھ فاصلے پر رہا اور دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد وہ اس احاطے کی طرف بڑھا، جو پھانسی گھاٹ کا علاقہ تھا۔ میں بھی جلدی جلدی پھانسی گھاٹ پہنچ گیا۔ جب کمروں کو دیکھا تو ہر کمرے میں4 سے5 قیدی موجود تھے۔ ان میں کچھ قیدی صرف بلوچی زبان جانتے تھے اور کچھ قیدی پشتو زبان۔ جو تعلیم یافتہ تھے وہ اردو زبان بھی جانتے تھے۔ ان سے اردو اور پشتو میں جلدی جلدی حالات پوچھتا رہا۔ ان قیدیوں کی صحت خطرناک حد تک گر چکی تھی اور وہ بہت بری حالت میں تھے۔ ان کے رنگ زرد تھے اور وہ بیمار لگ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جس دن سے گرفتار کیا گیا ہے ہم نے دھوپ نہیں دیکھی۔ ان میں سے بعض قیدیوں کے پائوں اکڑ گئے تھے۔ ایسے ہی اور بھی روح فرسا مناظر تھے جو میرے لیے ایک خوفناک خواب کی مانند تھے۔ ان کو دیکھ دیکھ کر میرا دِل بیٹھ رہا تھا اور بھٹو کے ظلم و ستم کی داستان میری نگاہوں کے سامنے تھی، نفرت کے شعلے میرے دل میں بھڑک رہے تھے۔ ان قیدیوں نے کہا کہ اس پھانسی گھاٹ کی طرف دیکھیں۔ میں اس طرف مڑا اور دیکھا تو انہوں نے کہا کہ جیل کا عملہ ہمیں رفع حاجت کے لیے اکٹھے جانے کا حکم دیتا ہے، اور ہم اس مکروہ عمل پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
جیل کے عملے کے علاوہ ان پر F.S.F کے جوانوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ اس لیے ایک لحاظ سے یہ اذیت پسند ہوگئے تھے اور ان مری بلوچ قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرتے تھے۔
یہ کوئٹہ جیل کا منظر تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔ آج اس داستان الم کو لکھ رہا ہوں تو 45 سال گزر چکے ہیں، اور لگ رہا ہے کہ میں جیل میں ہوں اور یہ قیدی اپنی داستانِ درد سنا رہے ہیں۔ آج بھی میرے ذہن میں فاشسٹ بھٹو کے لیے کوئی ہمدردی نہیں، بلکہ ایک الائو پک رہا ہے۔
جیل کے ان قیدیوں کے لیے کپڑوں اور خوراک کا انتظام جیل میں قید بردت خان اچکزئی اور سخی دوست جان کے ذمہ تھا۔ ان کو رقم بھی فراہم کرتے اور خوراک کا بندوبست بھی کرتے تھے۔
ان دونوں کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے، اس کو کسی قسط میں بیان کروں گا۔ لکھتے لکھتے کچھ واقعات یاد آرہے ہیں اور کچھ واقعات ذہن سے نکل بھی گئے ہیں۔ بہرحال ایک دلچسپ اور المناک داستان ہے جو رقم کر رہا ہوں۔ بقول شاعر

دل ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم

(دل میں زخم ہی زخم ہیں۔ مرہم کہاں کہاں رکھوں)