مالٹے کا شہد ہاضم اور خوش ذائقہ

احمد جان احمد
اس سے پہلے کہ ہم مالٹے کے شہد کے بارے میں کچھ لکھیں، مالٹے کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ شہد کے کام سے وابستہ افراد کی اکثریت کا تعلق ہمارے پختون بھائیوں سے ہے۔ پشتو زبان میں جِنسِ ’’ترنج‘‘ سے تعلق رکھنے والے اکثر پھلوں کو ’’مالٹا‘‘ کہتے ہیں جس میں کینو، موسمی یا موسمبی، مٹھے، سنگترہ، چکوترہ (گریپ فروٹ) اور فروٹر وغیرہ شامل ہیں۔ درحقیقت ان کے خواص معمولی فرق کے ساتھ تقریباً ایک ہی ہیں، کیونکہ ان سب کا تعلق بھی پھلوں کے ایک ہی خاندان سے ہے جس کو علم نباتات (Botany) میں “Citrus” کہتے ہیں۔ ان سب کی ساخت اور رنگ معمولی فرق کے ساتھ تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ یہ سب رس دار اور خوشبودار پھل ہیں۔ ان میں سے بعض کے چھلکے نرم اور پھولے ہوئے، اور بعض کے اندرونی پھل سے چپکے ہوتے ہیں۔ ان سب کا ذائقہ عمدہ، خوشبودار اور صحت بخش ہوتا ہے۔پاکستانی کسانوں نے مختلف پیوندکاریوں سے مختلف پھل تیار کیے ہیں جن میں سرخ مالٹا اور کینو بھی شامل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترنج (Citrus) کے خاندان کے پھلوں میں پاکستان سے خوش ذائقہ، رس دار اور خوشبودار پھل دنیا کے کسی ملک میں نہیں پائے جاتے۔پنجاب میں بہاولپور، بہاول نگر، سرگودھا، چکوال، بھلوال میں مالٹے کے انواع و اقسام کے کثیر تعداد میں بڑے بڑے باغات ہیں۔ خیبر پختون خوا ہزارہ ڈویژن میں ہری پور اور اس کے نواح میں بڑے بڑے باغات ہیں۔ سرخ مالٹے کی بہترین قسم کے باغات ضلع نوشہرہ میں ہیں۔ مالاکنڈ، درگئی، پلئی کے علاقوں میں بھی بہت باغات ہیں۔

مالٹے کے طبی خواص:

مالٹا وٹامن سی کا خزانہ کہلاتا ہے۔ یہ ایک فرحت بخش پھل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو کے لحاظ سے اسے عمدہ پھل قرار دیا ہے۔ فرمایا: تمہارے لیے اترج (مالٹا، سنگترہ وغیرہ) میں بے شمار فوائد موجود ہیں، کیونکہ یہ دل کے دورے کی شدت کو کم کرتا اور دل کو مضبوط کرتا ہے (مسند، فردوس الدیلمی)۔ اطبائے قدیم کی نظر میں اس خاندان “Citrus” کے تمام پھل دل اور معدے کو طاقت دیتے ہیں، پیاس کو بجھاتے ہیں، ’’پیشاب آور‘‘ ہیں، جگر کی اصلاح کرتے اور تازہ خون بنانے میں مدد دیتے ہیں، ان میں ہاضم جوہروں (Enzyms) کی خاصی مقدار ہوتی ہے، قوتِ مدافعت (Amunity force) بڑھاتے ہیں۔سرخ مالٹا خون صاف کرتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے۔ اس کا عرق مفرح ہے۔ شوگر، جگر اور دل کی بیماریوں میں مفید ہے۔ وزن اور کولیسٹرول کم کرتا ہے۔

مالٹے کے شہد کا حصول:

پنجاب اور خیبرپختون خوا میں بڑے پیمانے پر شہد کی مکھیاں پالی جاتی ہیں کیونکہ ان صوبوں میں زرخیزی، پھل اور قدرتی پھول بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ مارچ اپریل یعنی موسم بہار میں مالٹے، کینو وغیرہ میں پھول لگتا ہے۔ شہد کی مکھیاں پالنے والے (مگس بان) حضرات اپنی پالتو مکھیوں کو ان باغات کے قریب رکھتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں لکڑی کے ڈبوں میں پالی جاتی ہیں۔ شہد کی مکھیاں طلوع فجر سے غروبِ آفتاب تک ان قریبی پھولوں سے رس چوس چوس کر اپنے چھتّوں میں جمع کرتی رہتی ہیں۔ یوں دو تین ہفتوں یا جب تک پھول ہوتا ہے، شہد جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح کچھ دنوں میں منوں اور ٹنوں کے حساب سے مالٹے کا شہد حاصل کیا جاتا ہے۔ مالٹے کا پھول ختم ہوتے ہی یہ مگس بان اپنی مکھیوں کو پھلائی (پلوسہ) کے جنگلات میں بذریعہ ٹرک پہنچاتے ہیں اور اس سے عام شہد حاصل کرتے ہیں۔ ہر پودے یا درخت کے پھول میں بیج یا پھل کی پرورش کے لیے چھوٹی چھوٹی شہددانیاں (Nectries) ہوتی ہیں، ان میں ایک قسم کا رس ہوتا ہے جسے عربی میں ماء لحیات اور انگریزی میں Nectarglands کہتے ہیں۔
اس رس کے سالموں یا مالیکیولز کی مثال ایسی ہے جیسے انسانی جسم میں ’’ڈی این اے‘‘ (DNA) کی ہوتا ہے۔ DNA مخفف ہے ’’ڈی آکسی رائبوز‘‘ نیوکلیک ایسڈ کا۔ ڈی این اے میں کسی بھی ذی روح کی تفصیل موجود ہوتی ہے، یعنی رنگت، جبلتی خصوصیات، قدوقامت، عادات و اطوار… غرض تمام معلومات ڈی این اے کے اس سالمیاتی یا مالیکیولر ڈیٹا بیس میں محفوظ ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح پھول کے اس رس میں تقریباً وہ تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو اس درخت/پودے کے بیج یا پھل میں پائی جاتی ہیں۔شہد کی مکھیاں پھولوں سے رس چوس چوس کر اپنے چھتّوں میں جمع کرتی رہتی ہیں۔مختلف قدرتی کیمیائی تعاملات (Natural Chemical Reactions) سے گزرنے کے بعد دو تین ہفتے بعد بہترین قدرتی شہد تیار ہوجاتا ہے جس میں شہد کے خواص کے ساتھ ساتھ مالٹے کے خواص بھی پائے جاتے ہیں۔ مالٹے کے شہد میں دیگر صحت بخش اجزاء کے ساتھ سب سے زیادہ وٹامن سی فراہم ہوتا ہے۔ صبح ناشتے میں اس کا استعمال مناسب رہتا ہے۔ مالٹے کا شہد ہاضم اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ صاف خون پیدا کرکے رنگ نکھارتا ہے۔ دل و دماغ کو طاقت اور فرحت بخشتا ہے۔