پاکستان کے ’’جدیدیت زدگان‘‘ اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ ’’جدیدیت‘‘ کا مطلب ’’مغربیت‘‘ یعنی Modernization کا مفہوم Westernization نہیں ہے، ان دونوں میں فرق ہے۔ لیکن یہ ایک صریح غلط بیانی ہے جو عوام و خواص کو دھوکا دینے کے لیے کی جاتی ہے۔ ورنہ اصل بات یہ ہے کہ جدیدیت مغربیت کے سواکچھ نہیں، بلکہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں 8 مارچ کو ہونے والے نام نہاد عورت مارچ سے ثابت ہوگیا ہے کہ Modernization مغربیت سے آگے بڑھ کر Vulgarization بلکہ Dehumanization بھی بن سکتی ہے۔ ذرا آپ عورت مارچ میں موجود پلے کارڈز پر لکھی ہوئی عبارتیں تو ملاحظہ کیجیے:
(1) My body is not your battle ground
(2)خود کھانا گرم کرلو
(3)ہمارا جسم ہماری مرضی
(4) مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے؟
(5) اکیلی، آوارہ، آزاد
(6)اگر دوپٹہ اتنا ہی پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو
(7) میں آوارہ، میں بدچلن
(8) لو بیٹھ گئی صحیح سے
Emotional Labour(9) کے پیسے دو
(10) میری شادی کی نہیں آزادی کی فکر کرو
(11)ناچ میری بلبل، تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا
(12) عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں
(13) میں لولی پاپ نہیں، عورت ہوں
(14) نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ان نعروں میں بات Westernization سے آگے بڑھ کر Vulgarization بلکہ Dehumanization تک چلی گئی ہے۔ ایک عورت مارچ میں ایک صاحب سے تو یہ تک کہلوایا گیا کہ جب تک نکاح کا ادارہ ختم نہیں ہوگا اُس وقت تک عورت کو ظلم سے نجات نہیں ملے گی۔ نکاح اور شادی کے ادارے سے انکار صرف قرآن و سنت پر ہی کھلا حملہ نہیں ہے بلکہ ابھی تک ہم جنس پرستوں کے مغرب کو بھی شادی کے ادارے سے انکار کی جرأت نہیں ہوئی ہے۔ مگر جو بات مغرب بھی نہیں کہہ رہا پاکستان کے مغرب زدگان کہہ رہے ہیں۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ دنیا کے ہر معاشرے میں آزای اور پابندی کا سوال اُس معاشرے کے عقائد اور اقدار کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان صرف آئینی طور پر نہیں، عملاً بھی ایک مذہبی ریاست اور مذہبی معاشرہ ہے۔ چنانچہ پاکستانی معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کی آزادی اور پابندی کا مطالبہ قرآن و سنت کی روشنی ہی میں کیا جاسکتا ہے، مگر عورت مارچ کا انعقاد کرنے والوں اور اس کے شرکا نے عملاً اعلان کردیا ہے کہ وہ نہ خدا کو مانتے ہیں، نہ خدا کی کتاب کو تسلیم کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کا اعلان اسلام کے خلاف کھلی بغاوت ہے، اور دنیا کی کوئی ریاست اور دنیا کا کوئی معاشرہ اپنے عقائد اور اقدار کے خلاف کھلی بغاوت کو قبول نہیں کرسکتا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے یہاں حکومت، فوج اور ریاست تو مقدس ہیں، اور ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والا باغی اور دہشت گرد کہلاتا ہے، لیکن جو لوگ خدا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف بغاوت کررہے ہیں وہ نہ حکومت کو نظر آرہے ہیں، نہ فوج کو دکھائی دے رہے ہیں، نہ ریاست کو سُجھائی دے رہے ہیں۔ کہیں ایسا اس لیے تو نہیں ہورہا ہے کہ عورت مارچ اور اُس کے منتظمین کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ تائید و حمایت حاصل ہے؟ ہمیں یہ خیال اس لیے آرہا ہے کہ حال ہی میں توہینِ رسالت کی مجرم کو مغرب کے مطالبے، دبائو اور دھمکی پر رہا کیاگیا ہے اور اس سلسلے میں ریاست کے تمام ادارے ایک ہی صفحے پر نظر آرہے تھے۔ یہ امر بھی سامنے کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے ہندو رکن اسمبلی رمیش کمار نے حال ہی میں شراب کے خلاف قانون سازی کی کوشش کی، مگر ملک کی تینوں بڑی جماعتوں پی ٹی آئی، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے اراکینِ قومی اسمبلی نے رمیش کمار کے بل کی ڈٹ کر مخالفت کی اور اسے اسمبلی میں پیش نہیں ہونے دیا۔ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ ملک کا پورا حکمران طبقہ کہیں Modernization کا اشتہار بنا دکھائی دیتا ہے، کہیں Westernization کا کارٹون بنا نظر آتا ہے، اور کہیں وہ Vulgarization اور Dehumanization کی حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان، نوازشریف، آصف زرداری اور اسٹیبلشمنٹ دل ہی دل میں عورت مارچ کے منتظمین اور شرکا کے شکرگزار ہوں گے۔ مگر عمران خان کا پاکستان تو ’’ریاست مدینہ‘‘ کا عکس ہے۔ بدقسمتی سے عورت مارچ اور اس کے نعرے شیاطین کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ عمران خان ریاست مدینہ کے ساتھ ہیں یا پاکستانی معاشرے کے شیاطین کے ساتھ؟
پاکستان میں خواتین کئی بڑے مسائل کا شکار ہیں، بہت سی جگہوں پر انہیں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا۔ شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکیوں کی مرضی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ خواتین میں ناخواندگی کی شرح مردوں کے مقابلے پر بلند ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی شریکِ حیات کے لیے اچھا ہے۔ مگر بہت سے مرد، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کرتے نظر نہیں آتے۔ لیکن عورت مارچ کے منتظمین اور شرکا نے خواتین کے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے حوالے سے کچھ بھی نہ کہا۔ ان کی ساری توجہ اس بات پر رہی کہ معاشرے میں شوہر اور بیوی کے تعلقات کو خراب کیا جائے۔ مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے مددگار کے بجائے ایک دوسرے کا دشمن باور کرایا جائے۔ شادی کے ادارے کی تذلیل کی جائے اور خواتین کو اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی اقدار کے خلاف بھڑکایا جائے۔ چنانچہ عورت مارچ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی معاشرے اور اسلامی اقدار کے خلاف ہی نہیں، خود خواتین کے خلاف بھی ایک سازش تھا۔ بدقسمتی سے ملک کے ذرائع ابلاغ اس سازش کی ’’رپورٹ‘‘ کرکے رہ گئے، حالانکہ ان کا مذہبی اور قومی فریضہ تھا کہ وہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی معاشرے اور اسلامی اقدار کے خلاف اس سازش پر آواز اٹھاتے اور رائے عامہ ہموار کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے اکثر ذرائع ابلاغ خود معاشرے میں جدیدیت، مغربیت، عریانی و فحاشی اور غیر انسانی تصورات کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کا اندزہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ عورت مارچ کے حوالے سے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی ایک تحریر میں عورت مارچ کو ’’انقلابی‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اصل سوال تو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ سے ہے، اور وہ یہ کہ کیا عورت مارچ کو آپ کی خفیہ تائید و حمایت حاصل تھی؟ اگر نہیں تو مارچ کے منتظمین پورے معاشرے کے سامنے ہیں، چنانچہ ریاست پاکستان کو اس تنظیم کے خلاف سیکولر اور لبرل دہشت گردی کے حوالے سے فوراً سے پیشتر کارروائی کرنی چاہیے، ورنہ اسلام کے باغیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس حوالے سے گلی گلی کشمکش برپا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔