عالمی مالیاتی ٹاسک فورس اور کالعدم تنظیموں پر پابندی؟۔

حالیہ دنوں میں پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے بہت سے سخت اقدامات کیے ہیں۔ کالعدم تنظیموں پر عملی طور پر پابندی اور ان کے مدارس سمیت دیگر اداروں کو ریاستی تحویل میں لینے اور وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت پر داخلی اور خارجی محاذ سے خاصا دبائو ہے۔ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کی گرے لسٹ میں اور ستمبر کے اجلاس میں پاکستان کی صورت حال کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا جو پاکستان کی معاشی صورت حال کو آگے بڑھانے کے حوالے سے اہم ہے۔ بھارت پہلے ہی سفارتی محاذ پر یہ کوشش کررہا ہے کہ پاکستان پر مالیاتی پابندی لگائی جائے اور اس تاثر کو مضبوط بنایا جائے کہ پاکستان بطور ریاست دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہوا ہے اور خود بھی وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا اور اس کی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی کوشش ہے کہ ستمبر کے اجلاس میں اسے عملی طور پر گرے لسٹ سے نکالا جائے تاکہ وہ کسی بھی طرز کی مالیاتی پابندی کا شکار نہ ہو۔
حالیہ برسوں میں یقینی طور پر پاکستان نے انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نمٹ کر بہت اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کا اعتراف داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کیا بھی جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ جنگ بدستور جاری ہے اور اس میں ابھی ریاستی، حکومتی اور معاشرتی محاذ پر بہت کچھ کرکے دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمیں اپنے دشمن سے خبردار رہنا ہے جو ہر صورت میں پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذ پر غیر مستحکم کرنے کا ایجنڈا رکھتا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی کررہا ہے۔
اس جنگ سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے ریاستی سطح پر دو اہم دستاویز جاری کیں: (1) نیشنل ایکشن پلان، اور (2) پیغامِ پاکستان۔ 20 نکات پر مبنی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے تناظر میں وفاقی اور صوبائی سطح پر اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو وفاقی سطح پر وزیراعظم اور صوبائی سطح پر وزرائے اعلیٰ کی نگرانی میں کام کریں گی، اور اس میں عسکری قیادت سمیت مختلف انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان بھی حصہ دار ہوں گے۔
پیغامِ پاکستان جو فرقہ واریت سے نمٹنے کی دستاویز ہے اور تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام کا اس پر مجموعی اتفاق اور مل کر مذہبی ہم آہنگی کو تقویت دینا غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ہم نے ان اہم دستاویزات کے مختلف نکات پر سنجیدگی سے کام بھی کیا اور اس کے بہت سے اچھے اور مثبت عملی نتائج بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے وہ مناظر نہیں جو ماضی میں بدترین حالات کی نشاندہی کرتے تھے۔ ہمیں اُن تمام سول اور فوجی جوانوں اور اُن بہادروں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے عملی طور پر میدان میں نہ صرف یہ جنگ لڑی بلکہ 70 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ لیکن یہ اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ ریاستی، حکومتی اور معاشرتی سطح پر ان اہم دستاویزات پر عمل درآمد کے نظام میں وہ مضبوط کمٹمنٹ اور شفافیت دیکھنے کو نہیں ملی جو قومی ذمہ داری کے زمرے میں آتی ہے۔ بلاوجہ کا سیاسی اور عسکری ٹکرائو اور باہمی چپقلش، کمزور سیاسی حکمت عملی اور سیاسی محاذ آرائی کے ماحول نے معاملات میں بگاڑ پیدا کیا۔ حتیٰ کہ سیاسی اور عسکری قیادتوں کی باہمی مشاورت سے طے ہونے والی اہم وفاقی اور صوبائی اپیکس کمیٹیاں بھی عملی طور پر سیاست کی نذر ہوگئیں، اور اس کا عملی نتیجہ عمل درآمد کے نظام میں کمزوری کا سبب بنا۔ قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو کی تقریر نے اُن قوتوں کو فائدہ پہنچایا جو پہلے ہی پاکستان پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ بطور ریاست اور حکومت دہشت گردی سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کی تقریر پر سب سے زیادہ شور بھارت کے میڈیا میں اٹھایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جو بات بھارت کررہا تھا وہی بات اب بلاول بھٹو نے کی ہے، اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ بھارت کا مؤقف پاکستان کے حوالے سے درست ہے۔
حال ہی میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے تناظر میں ایک جائزہ رپورٹ وزارتِ داخلہ کو پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے چھے نکات پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ جبکہ نو نکات پر مکمل اور پانچ نکات پر جزوی عمل درآمد ہوسکا۔ اس جائزہ رپورٹ میں جن اہم امور کی، خامیوں کے تناظر میں نشاندہی کی گئی ہے ان میں اوّل، دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت روکنے کا کام غیر تسلی بخش رہا۔ دوئم، کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کام سے روکنے کے لیے بہتر اقدامات نہیں کیے گئے۔ سوئم، مدارس کی رجسٹریشن کے کام میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا۔ چہارم، فوجداری نظامِ انصاف کی تشکیلِ نو اور اصلاحات کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ پنجم، انسداد دہشت گردی کے لیے قائم اداروں کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ ششم، افغان مہاجرین کی واپسی کے تناظر میں دو وزارتوں کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔
جبکہ مسائل کے ساتھ ساتھ اس جائزہ رپورٹ میں کچھ مثبت پہلو بھی اجاگر کیے گئے ہیں۔ ان میں نفرت انگیز مواد کی تشہیر اور اشاعت کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات، مذہبی فسادات روکنے کے اقدامات، سوشل میڈیا پر انتہاپسندی اور نفرت انگیز مواد کی تشہیر کے خلاف قانون سازی اور عمل درآمد کا نظام، فوجی عدالتوں کی کارکردگی، دہشت گردوں کو سزائوں کا ملنا، فرقہ واریت اور مسلح گروپوں کے خلاف مؤثر کارروائی، بعض صوبوں میں دہشت گردی سے نمٹنے لیے فورس کا قیام، میڈیا کی جانب سے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو ہیرو بناکر پیش نہ کرنا، فاٹا اصلاحات اور متاثرین کی واپسی، کراچی میں فوجی آپریشن، بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مفاہمتی عمل اور دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ جیسے اقدامات میں مؤثر کارکردگی قابلِ تعریف ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی مالیاتی ٹاسک فورس کے حالیہ اجلاس میں جو پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے خاصی اہمیت رکھتا تھا، اگرچہ ہم پر پہلے سے عائد پابندی ختم نہیں کی گئی لیکن یہ اعتراف ضرور کیا گیا ہے کہ پاکستان انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے سمیت مالیاتی شفاف عمل میں مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ جو حکومتِ پاکستان نے حالیہ دنوں میں مختلف تنظیموں کو کالعدم قرار دیا ہے جن میں جیشِ محمد سمیت جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فائونڈیشن شامل ہیں، اسی طرح ان کالعدم تنظیموں کی مدد سے چلنے والے دینی مدارس، مساجد، ان کی مختلف سروسز کو ریاستی تحویل میں لے لیا گیا ہے، یہ کام اب قومی سطح پر شروع کیا گیا ہے اور حکومت کے بقول اس پر کوئی سیاسی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا، اور یہ سب کچھ کسی عالمی دبائو کے تحت نہیں بلکہ قومی مفاد میں کیا جارہا ہے۔ اسی طرح جب ہم کسی تنظیم کو کالعدم قرار دیتے ہیں تو یہ عمل مصنوعی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی مستقبل کے تناظر میں کڑی نگرانی ہونی چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیشنل ایکش پلان پر مؤثر عمل درآمد کے لیے پارلیمانی راہنمائوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی، جو بہتر فیصلہ ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم یا وزیر خارجہ خود کریں گے۔ وزیراعظم کو سوچنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے سے موجود اپیکس کمیٹیاں مؤثر انداز میں کام نہیں کرسکیں؟ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مؤثر رابطہ کاری اور نگرانی کے نظام کا نہ ہونا، اور قائم کی گئی کمیٹیوں کے تسلسل سے نہ ملنے جیسے امور کی موجودگی میں بہتری ممکن نہ تھی۔ اپیکس کمیٹیوں کی وفاقی اور صوبائی سطح پر فعالیت ضروری ہے۔ اسی طرح پیغامِ پاکستان جیسی اہم دستاویز پر بھی وفاقی اور صوبائی سطح پر مؤثر کام کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ محض حکومتی سطح سے باہر نکال کر سول سوسائٹی کی مدد سے اس کام کے پھیلائو اور مؤثر انداز میں اسے آگے بڑھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔کیونکہ نیشنل ایکشن پلان اور پیغام پاکستان پر مؤثر انداز میں عمل درآمد کے نظام سے ہی ریاست کی بقا اور امن کی ضمانت ممکن ہوسکے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جو تنائو ہے اس کو کم کیا جائے۔ کیونکہ اس تنائو کا نقصان جہاں سیاسی استحکام کو ہورہا ہے، وہیں ملک کی معاشی صورتِ حال بھی خطرے میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجود بداعتمادی کی فضا کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے جو کسی بھی حوالے سے ملک کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔