جناب احسن اقبال نے اخلاقی اقدار کے شکستہ ڈھانچے اور روحانی انفرااسٹرکچر کےکمزور اور بے رنگ ہونے کا تذکرہ کیا ہے، اور یہ احساس انہیں ہی نہیں ہر دلِ درد مند کو ہے کہ پاکستان بنانے کے بعد ہم نے اقتصادی ترقی کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کی، لیکن یہ ترقی اخلاقیات کے بغیر بلکہ اخلاقیات کو قربان کرکے حاصل کی گئی، انہوں نے ایک اور نیا نکتہ بیان کیا ہے کہ ہمارا یہ اخلاقی انحطاط مذہبی گہماگہمی کے ساتھ ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ جہاں دیکھیے وہاں دین کا ڈنکا بج رہا ہے، مگر اخلاقی بگاڑ اور پستی کی جانب سفر بھی جاری ہے۔
یہ عجیب بات لگتی ہے کہ معاشرے میں مذہب کا بھی زور شور ہو اور بداخلاقی کا بھی، مگر حقیقت یہی ہے۔ ایسا اب نہیں ہے، تاریخ میں ہر قوم کے دورِ زوال کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ مذہب کا چرچا بہت زیادہ ہوجاتا ہے، مذہب کی رسومات اور ظواہر میں ترقی ہوتی ہے لیکن اس مذہب میں مذہب کی حقیقی روح نہیں ہوتی، اس لیے یہ صرف جھگڑے فساد پیدا کرتا ہے، یا یہ ہر گلی کوچے میں موجود ہونے کے باوجود زمانے کی غارت گر اخلاق و تہذیب پر غالب نہیں آسکتا۔ اس مذہب میں سارا زور رسومات پر ہوتا ہے، مذہبی جلسے جلوسوں کی کثرت ہوجاتی ہے، علما اور مشائخ کی قدر بڑھ جاتی ہے اور ان کی شان و شوکت بھی، نئی نئی بحثیں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور دین و مذہب کے حوالے سے ایسی نکتہ آفرینیاں ہوتی ہیں کہ لوگ جھوم اٹھتے ہیں، مگر ان سب باتوں سے معاشرے کے عمومی اخلاق میں کوئی بہتری نہیں ہوتی، بلکہ یہ بد سے بدتر ہوتے چلے جاتےہیں۔ یہودیوں کے پاس ایسے ہی مذہب کی گرم بازاری تھی اور اس کی اصلاح کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا گیا۔ اس مذہب کی خصوصیت یہ تھی کہ ایک طرف مچھر کے برابر برائی کے خلاف لوگ سیخ پا ہوجاتے تھے، دوسری طرف اونٹ سے بھی بڑی برائی بخوشی نگل جاتے تھے، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر زور تھا اور شور تھا، لیکن اصل اور بنیادی بات کی طرف توجہ نہیں تھی کہ انسان محض حیوانی وجود نہیں رکھتا، اور جو چیز اسے حیوان سے انسان بناتی ہے وہ اس کا اخلاقی وجود ہے، اگر کسی معاشرے میں مذہب ہے مگر اخلاقی وجود طاقتور نہیں ہے تو نری حیوانیت کے مظاہرے ہوں گے۔ یہ جو آپ کو اپنے اردگرد کی دنیا میں کرپشن، قتل، فواحش کا غلبہ نظر آتا ہے وہ اسی لیے ہے کہ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر بھی ہم نے ترقی کا معیار خالص دنیوی رکھا ہے، اور اخلاقی معیارات کا لحاظ نہیں ہے۔ ایک بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ ترقی کے لیے اخلاقیات کو تج دینا ضروری ہے، اور اس سلسلے میں مغرب کی مثال دی جاتی ہے کہ دیکھ لو وہاں ترقی ہے مگر مذہب و اخلاق نہیں ہیں۔ لیکن یہ مثال دینے والے مغرب کی تاریخ سے واقف ہی نہیں ہیں۔ دنیا کی ہر تہذیب کی طرح جدید مغربی تہذیب کی تعمیر بھی اقدار کے بغیر نہیں ہوئی، اور مغربی تہذیب بھی اقدار پر جان دینے والوں نے بنائی تھی۔ انہوں نے ملوکیت و پاپائیت کے جابرانہ نظام سے ٹکر لی، فرد کی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر زور دیا، تعلیم و ہنر کو عام کرنے کا بیڑہ اٹھایا، اہلِ دانش کو مقامِ بلند عطا کیا،ہر شعبے میں علم، تحقیق اور کھوج کی سرپرستی کی، اور ابتدا میں جو یورپی سیاح، ڈاکٹر، تاجر، افسر ایشیا میں آئے اُن میں ایک خاص مذہبی جوش بھی تھا۔ ان کا یہ مذہبی جوش اکبر وجہانگیر کے درباروں سے لے کر قاہرہ و استنبول کے بازاروں میں نظر آتا تھا۔ یہ سمجھنا کہ مغرب نے اقدار کے بغیر ترقی کرلی، ناسمجھی ہے۔ اُن کے پاس اقدار تھیں اور ہماری اقدار نے دم توڑ دیا تھا، اس لیے وہ فاتح اور ہم مفتوح بن گئے۔ بلاشبہ آج مغربی تہذیب کی صورت مختلف ہوگئی ہے اور مادیت کے غلبے کے سبب اخلاقی اقدار کا بحران ہے، لیکن اب بھی اقدار کے اعتبار سے مغرب کو مشرق پر فوقیت حاصل ہے۔ وہاں حکومتی نظم و نسق اور کاروباری زندگی میں وہ کرپشن نہیں جو ہمارے پاس عام ہے۔ وہاں قانون طاقتور لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں، اور ایتھوپیا سے لے کر بوسنیا تک انسانوں کے دکھ درد کا احساس ہے اور خدمتِ خلق کے بے شمار ادارے ہزارہا کارکنوں کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اس لیے ہم مغرب کی بالادستی سے بچنا اور اپنا کوئی مستقبل تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ اعلیٰ اقدار کے معاملے میں ہم واقعی ترقی کر گئے ہیں، اور معاشی ترقی کی طرح اخلاقی ترقی کی بھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، بلکہ اس اخلاقی ترقی کے لیے معاشی ترقی کو کچھ قربان بھی کرنا ہوگا۔ جہاں بھی معاشی ترقی کے ساتھ اخلاقی ترقی نہیں ہوگی وہاں یہ ترقی فساد پیدا کرے گی، اور اس فساد کا آج ہم اپنی دنیا میں مشاہدہ کررہے ہیں۔ اور اس سے پہلے کہ یہ فساد کسی عذاب کی صورت اختیار کرلے، ہمیں ایسے معاشرے کی تعمیر پر متوجہ ہونا چاہیے جو اخلاقی معاشرہ ہو اور جہاں ترقی اقدار کےتابع ہو کر حاصل کی جائے۔
) 2جولائی 1999ء)