یہ تو سب جانتے ہیں کہ عربی میں ایک ایک لفظ اور شے کے کئی کئی معانی ہیں۔ مثلاً تلوار، اونٹ، گائے وغیرہ۔ تلوار اور اونٹ عربوں کی پسندیدہ چیزیں تھیں۔ تلوار تو ہاتھ سے رکھ دی گئی مگر اونٹ اب بھی ہر دل عزیز ہیں، کیونکہ ان کی افادیت ختم نہیں ہوئی۔ خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی شے کے نام سے اس کی پوری کیفیت واضح ہوجاتی ہے۔ مثلاً اونٹ یا گائے کی عمر کیا ہے۔ رنگ، نسل کیا ہے۔ ایسے ہی تلوار کے مختلف ناموں سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ کس قسم کی ہے اور کہاں کی بنی ہوئی ہے۔ تفصیل تو کوئی عالم ہی بتا سکتا ہے، البتہ عربی ڈاٹ نیٹ سے کسی صاحب نے ”العین“ کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں کہ اس لفظ کے 100 سے زیادہ معانی ہیں۔ مضمون کے مطابق ’’عربی زبان کا لفظ ’’العین‘‘ اپنے کثیرالمعنی ہونے کے سبب امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ بڑے ماہر لسانیات کا کہنا ہے کہ اس لفظ کے معانی کی تعداد سو تک پہنچی ہوئی ہے۔ اگرچہ لفظ العین کے یہ سو معانی پوری طرح معروف نہیں، تاہم عربی زبان کی اہم ترین کتب کے مطابق اس لفظ کے کثیر استعمال ہونے والے معانی کی تعداد بھی پچاس سے زیادہ ہے۔ ابن منظور جمال الدین محمد بن مکرم (وفات : 711 ہجری) کی مشہور لغت ’’لسان العرب‘‘ کے مطابق لفظ العین کے پچاس کے قریب معانی ہیں۔ اس کا اولین معنی تو حروف تہجی (ع) کے طور پر ہے۔ اس کے علاوہ یہ آنکھ ہے۔ اس کا معنی سربراہ مثلاً ’’عین الجیش: فوج کا سالار‘‘ بھی ہے۔ العین جاسوس یا مخبر کو دیا جانے والا نام ہے، کیوں کہ وہ اپنی آنکھ سے لوگوں پر کڑی نگرانی رکھتے ہوئے خبریں منتقل کرتا ہے۔ العین کا لفظ مختصراً نظر لگنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ العین میں یاء (ی) پر زبر ہو تو اس کا معنی آنکھوں کے گرد حلقوں کا پھیل جانا ہے۔ العین کا معنی زمین سے جاری ہونے والا چشمہ آب ہے۔ اگر بارش قبلے کی سمت سے ہو تو یہ’’المطرالعین‘‘ہے۔ العین کا معنی شعاعِ آفتاب بھی ہے۔
معروف عرب لغت ’’تاج العروس‘‘کے مؤلف مرتضیٰ الزبیدی (وفات: 1205 ہجری) نے بھی اپنے شیخ کے حوالے سے لفظ العین کے سو معانی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ الزبیدی نے لفظ العین کے پچاس کے قریب معنی نقل کیے ہیں۔ ان میں اہلِ شہر، اہلِ خانہ، بڑا اور معزز آدمی، کسی چیز کا اختیار، بذاتِ خود، جلد پر ہلکے گول ابھار، دینار، سونا (دھات)، سود، ہر موجود چیز، بادل، عزت، علم، مال، انسان کا منظر، ترازو کا جھکاؤ، لوگوں کی جماعت، اصل، مسافت میں قریب، ارادہ اور مقصد شامل ہے۔
اسماعیل بن حماد الجوہری (وفات: 393 ہجری) نے اپنی لغت ’’تاج اللغہ وصحاح العربیہ‘‘ میں لفظ العین کے بعد اضافی معانی بیان کیے ہیں۔ العین گھٹنے کی چپنی ہے جو گھٹنے کے جوڑ کو ڈھانپتی ہے۔ اس کا معنی ’’کسی بھی چیز سے قبل‘‘ بھی آتا ہے۔ مثلا ً ’’القیتہ اول عین: وہ مجھے سب سے پہلے ملا (یعنی اس سے پہلے کوئی چیز دکھائی نہیں دی)‘‘۔
علامہ فیروز آبادی (وفات : 817 ہجری) نے اپنی لغت ’’قاموس المحیط‘‘ میں لفظ العین کے پچاس سے زیادہ معانی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے جن معانی کا اضافہ کیا ہے ان میں العین کا معنی عیب، مطلوبہ سمت، پودا اور نعمت شامل ہیں۔ عربی زبان کی قدیم ترین لغت ’’کتاب العین‘‘ میں اس کے مولف الخلیل بن احمد الفراہیدی (وفات: 170 ہجری) نے کہا ہے کہ العین کا معنی ’’موجود مال‘‘ (نقد) ہے۔
اسی طرح العین سے مراد سقوں کی وہ جگہیں ہیں جو گیلی ہوجاتی ہیں۔
العین کے معانی میں مثال، کسی چیز کی ذات، تمام، روپوشی کا مقام، پہرے دار، نگراں، ایک جانور کا نام، ہر مکمل طور پر ظاہر شے کا نام، ہر مصدقہ حقیقت، ہر براہ راست اور مکمل مشاہدہ، کسی چیز کی بعینہ حقیقت اور دلیل شامل ہے۔
محمد بن احمد الہروی الازہری (وفات : 370 ہجری) عربی زبان کی معروف لغت ’’تہذیب اللغہ‘‘میں کہتے ہیں کہ العین کا معنی ’’نقد‘‘ ہے۔ لسان العرب کے مطابق عربوں میں کہا جاتا ہے ’’علی عینیی قصدت زیداً‘‘ یعنی ’’میں نے پوری مسرت اور دل جمعی کے ساتھ زید کا ارادہ کیا‘‘۔
ملکہ زبیدہ کی تعمیر کردہ نہرجسے اردو میں عام طور پر ”نہر زبیدہ“ کہا جاتا ہے، عرب اسے ”عین زبیدہ“ کہتے ہیں، گو کہ نہر بھی عربی کا لفظ ہے۔ مکہ مکرمہ میں اس نہر کے کچھ آثار اب بھی نظر آجاتے ہیں۔ اردو میں العین کا معروف معنیٰ آنکھ ہے، چنانچہ لڑکیوں کے نام بھی قرۃ العین رکھے جاتے ہیں۔ اردو میں عین اور بھی کئی طرح سے مستعمل ہے جیسے ”عین اسی جگہ“۔ امیر کا شعر ہے:
عین مسجد میں میسر ہے نظارہ اس کا
چشم بینا ہے کہ ہے داغ جبیں سائی کا
ذوق کا ایک شعر سن لیجیے:
دیتی شربت ہے کسے زہر بھری آنکھ تری
عین احسان ہے وہ زہر بھی گر دیتی ہے
برادر عینی یعنی سگا بھائی۔ عین الیقین، علم الیقین اور حق الیقین بھی اردو میں مستعمل ہیں۔ ایک دلچسپ استعمال ہے ”عین غین“۔ یعنی ہم صورت، قریب قریب، مشابہت، صرف نقطے کا فرق۔ ایسےہی ”عین مین“ ہے یعنی تشبیہ کی تاکید کے لیے ہو بہو، بعینہ۔ عینی کا ایک مفہوم ہے: دیکھی ہوئی، جیسے عینی شہادت۔
یہ جو بہت سے لوگوں نے آنکھوں پر چڑھایا ہوا ہوتا ہے یعنی عینک، وہ بھی تو عین سے ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عربی میں عین ہے تو فارسی میں ان معنوں میں چشمہ ہے جو چشم سے ہے۔
عین کا تذکرہ تو بہت ہوگیا۔ پچھلے کالم میں ہم نے طالب علمانہ سوال کیا تھا کہ ”اتباع“ مذکر ہے یا مونث؟ کیونکہ ایک بڑے عالم دین نے اسے مونث لکھا ہے اور لغت میں یہ مذکر ہے۔ اس سے کسی کی گرفت مقصود نہیں تھی۔ ویسے بھی ہم جید علماء سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی ہمت اور صلاحیت بالکل نہیں رکھتے۔ لیکن بہت محترم مفتی منیب الرحمٰن نے لکھا ہے کہ ”انہوں نے اشارتاً میرے ایک کالم میں لفظ اتباع کو مونث استعمال کرنے پر گرفت کی ہے، کیونکہ عربی میں یہ لفظ مذکر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اردو میں استعمال کرتے وقت معنی (پیروی) ذہن میں ہوتا ہے، جیسے کتاب، کرسی عربی میں مذکر ہیں مگر ہم اردو میں مونث استعمال کرتے ہیں۔“
حضرت صاحب، گرفت والی بات زیادتی ہے۔ ہم واقعی یہ جاننا چاہتے تھے کہ اتباع مذکر ہے یا مونث۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمیں بھی بابائے اردو نہ سہی، بابا جی سمجھ کر پوچھ بیٹھتے ہیں۔ ہمارا علم لغت کا مرہونِ منت ہے اور لغت میں یہ مذکر ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ آئندہ بھی یہ گمان نہ کیجیے کہ ہم ایسے علماء کی گرفت کا سوچ بھی سکتے ہیں جن سے ہم خود سیکھتے ہیں۔ لغت سے زیادہ قابلِ بھروسہ وہ لوگ ہیں جو خود چلتی پھرتی لغت ہیں۔ ویسے لغت کے مذکر، مونث ہونے میں بھی اشکال ہے۔ لغت ہی سے ایک شعر:
کر کے عصیاں آنکھ کو پُر نم کیا
اتباعِ سنتِ آدمؑ کیا
یعنی اتباع کی نہیں، اتباع کیا۔