کیا مومو چیلنج ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے؟‭

گزشتہ سال واٹس ایپ میں ایک گیم مومو چیلنج سامنے آیا تھا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ بچوں میں خودکشی کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔ اس چیلنج میں بچوں کو خطرناک سرگرمیوں کا حصہ بننے کے لیے اکسایا جاتا، تاکہ وہ خود کو مار لیں۔ ایک جاپانی مجسمے پر مبنی تصویر کو مومو کا نام دیا گیا جو کہ ایک جاپانی اسپیشل ایفیکٹ کمپنی لنک فیکٹری نے تیار کی تھی، مگر نامعلوم افراد اسے فیس بک، واٹس ایپ اور یوٹیوب پر استعمال کرنے لگے۔ یہ چیلنج 2018ء کے وسط میں اُس وقت سامنے آیا جب ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ بچی کی خودکشی کو اس سے جوڑا گیا، تاہم اس کی تصدیق انتظامیہ نے نہیں کی۔
اس وقت اسپین، جنوبی امریکہ اور وسطی امریکہ کے متعدد ممالک کی پولیس نے بچوں کے لیے انتباہی پیغامات جاری کیے کہ وہ اجنبی افراد سے بات کرنے سے گریز کریں، اور مومو چیلنج کے بارے میں تفتیش کا بھی اعلان کیا۔ اور اب ایک بار پھر مومو چیلنج کے بارے میں خدشات سامنے آئے ہیں اور مختلف لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کردار یوٹیوب ویڈیوز میں سامنے آرہا ہے اور بچوں کو خود کو مارنے اور والدین سے کلپ کو چھپانے کی ہدایات دیتا ہے۔ اس بارے میں یوٹیوب نے باضابطہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ اب تک ایسی ویڈیوز کے شواہد دریافت نہیں کرسکا جو اس پلیٹ فارم میں مومو چیلنج کو فروغ دے رہی ہوں۔ یوٹیوب نے اپنے بیان میں کہا ’’نقصان اور خطرناک چیلنجز کے لیے اکسانے والی ویڈیوز ہماری پالیسیوں کی واضح خلاف ورزی ہیں اور مومو چیلنج بھی ان میں شامل ہے، اس چیلنج کے دوبارہ ابھرنے کی میڈیا رپورٹس کے برعکس ہم حال ہی میں کوئی ایسا لنک دریافت نہیں کرسکے جو ہماری کمیونٹی گائیڈلائنز کی خلاف ورزی ہو۔‘‘َ
اب تک کسی ملک میں مومو چیلنج کا کوئی مصدقہ کیس بھی سامنے نہیں آیا مگر امریکہ اور برطانیہ میں پولیس نے والدین کو انتباہ کیا ہے کہ وہ آگاہ رہیں کہ ان کے بچے کیا دیکھ رہے ہیں۔ مختلف معروف یوٹیوبرز کے مطابق یہ کردار ایک افسانوی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے اور لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ مومو ایسا کررہی ہے یا ایسا کرچکی ہے، مگر بیشتر افراد کا اس اکائونٹ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ مومو سے رابطے کے اسکرین شاٹ کو تلاش کرنا لگ بھگ ناممکن ہے۔ آئرش پولیس نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھا ’’ہمارا مشورہ ہمیشہ سے یہی ہے کہ آپ کے بچے جو گیم کھیلتے ہیں، اس پر نظر رکھیں، اور وہ جو ویڈیوز یوٹیوب پر دیکھتے ہیں، اس کے حوالے سے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کو جن ڈیوائسز تک رسائی حاصل ہو اُن میں مواد کے حصول کے لیے عمر کی حد کا اطلاق ہو۔‘‘

فیس بک… دلچسپ تبدیلیاں‎

فیس بک نے حال ہی میں میسنجر ایپ کو مکمل طور پر ری ڈیزائن کرتے ہوئے اپنی زیادہ توجہ چیٹ پر مرکوز کی اور وعدہ کیا تھا کہ صارفین کے لیے بہت جلد ڈارک موڈ متعارف کرایا جائے گا۔ اور اب یہ ڈارک موڈ متعارف کرا دیا گیا ہے، مگر اس کو ایکٹی ویٹ کرنا اتنا آسان نہیں بلکہ آپ کو چاند کی تلاش کرنا ہوگی۔ اینڈرائیڈ پولیس اور دیگر نے ایک ٹِرک دریافت کی ہے جس کی بدولت آپ اپنے فیس بک میسنجر میں ڈارک موڈ کو سیٹنگز میں لاسکتے ہیں۔ بس اس کے لیے کسی کو بھی، چاہے خود کو ہی کریسنٹ مون کی ایموجی بھیجیں۔ جیسے ہی آپ ایسا کریں گے، چیٹ ونڈوز میں چاندوں کی بارش ہوجائے گی اور آپ کے سامنے پوپ اپ ونڈو میں آئے گا کہ ڈارک موڈ کو سیٹنگز میں جاکر ایکٹی ویٹ کرلیں۔ اس کے بعد پروفائل پیج میں جائیں، جہاں ڈارک موڈ کا آپشن آن کردیں۔فیس بک نے گزشتہ سال مئی میں میسنجر میں ڈارک موڈ متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا، اور اب جاکر اس پر عمل درآمد ہوا ہے، جبکہ اب تک واٹس ایپ میں یہ تبدیلی سامنے نہیں آسکی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں گوگل نے انکشاف کیا تھا کہ ایپس کا ڈارک موڈ اسمارٹ فون بیٹری کی زندگی بچانے میں مدد دیتا ہے۔ اینڈرائیڈ ڈیو کانفرنس کے دوران کمپنی نے تسلیم کیا کہ آپریٹنگ سسٹمز اور ایپس میں ڈارک موڈ کی موجودگی بیٹری لائف کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔گوگل کی جانب سے جاری ایک تصویر میں بتایا گیا کہ ڈارک موڈ کا استعمال نارمل موڈ کے مقابلے میں یوٹیوب ایپ کو استعمال کرنے پر 43 فیصد کم بیٹری پاور استعمال کرتا ہے، نارمل موڈ میں اسکرین بہت زیادہ سفیدی استعمال کرکے بیٹری جلد خرچ کرتی ہے۔

پاکستان: 15 لاکھ بچے بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورلڈ ہیرنگ ڈے (World Hearing Day) منایا جا رہا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 15 لاکھ سے زائد بچے بولنے، سننے اورسمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، اُنہیں سماعت کا آلہ لگانے اور بولنے کی باقاعدہ تربیت دی جائے تو وہ نارمل بچوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ابتدا میں ہی تشخیص اور علاج ہوجائے تو گونگے اوربہرے پن پر جلد قابو پایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیدائشی طور پر گونگے، بہرے بچوں میں بولنے کی قوت بحال کرنے کے لیے کان کے پیچھے جِلد میں آلۂ سماعت لگایا جاسکتا ہے جس پر تقریباً 16 لاکھ روپے خرچ آتے ہیں، حکومت کی امداد کے بغیر والدین کے لیے یہ علاج مشکل ہے۔