ممتاز ادیب، شاعر، محقق، ڈائریکٹر قائداعظم اکادمی خواجہ رضی حیدر ہندوستان کے صوبے یوپی کے شہر پیلی بھیت کے ایک علمی خانوادے میں 1946ء میں پیدا ہوئے، جب ڈھائی سال کے تھے تو خاندان نے کراچی ہجرت کی، ابتدائی دس سال کھارادر میں رہے جہاں چوتھی جماعت تک گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھا، پھر والد صاحب نے وہاں سے نکال کر میٹھادر میں قائم ایک ایرانین ٹیکنیکل اسکول میں داخل کرادیا۔ وہاں آٹھویں تک تعلیم حاصل کی۔ 1958ء میں ناظم آباد آگئے جہاں حسینی ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’میں پڑھنے لکھنے میں غبی قسم کا طالب علم تھا، شرارتیں،ہنگامہ آرائی، کھیل کود یہ سب مجھے زیادہ عزیز تھے“۔ دورانِ تعلیم 1966ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی سے بطور سب ایڈیٹر کیا۔ مگر جلد ہی تحریک پاکستان کی تاریخ اور قائداعظم محمد علی جناح کی سوانح میں دلچسپی لینے لگے۔ 1976ء میں قائداعظم کے صد سالہ جشنِ ولادت کے موقع پر پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب ”قائداعظم کے 72 سال“ شائع ہوئی، جس کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ خواجہ رضی حیدر کی دیگر تصانیف میں ’’تذکرہ محدث سورتی‘‘ 1981ء۔ ”قائداعظم خطوط کے آئینے میں“ 1985ء۔ ”قراردادِ پاکستان“ 2014ء۔ ”رتی جناح: قائداعظم کی رفیقہ حیات“ 1995ء۔ ”سید شمس الحسن: تحریک پاکستان کا ایک اہم کردار“ 2003ء۔ ”کانپور نزدیک سے دور تک“ 2003ء۔ ”راجا صاحب محمود آباد: حیات و خدمات“ 2005ء۔ ”بابائے صحافتِ سرحد اللہ بخش یوسفی“ 2006ء۔ ”محترمہ فاطمہ جناح: رفقا کی نظر میں“ 2006ء۔ دو شعری مجموعے ”بے دیار شام“ 1995ء۔ ”گماں گشت“ 2007ء شامل ہیں۔ رَتی جناح کا انگریزی ایڈیشن 2004ء میں پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی سے اور 2010ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوا۔ آپ کا مکتبہ فکر وہی ہے جو معروف شاعر اور نقاد سلیم احمد کا تھا۔ اُن کے دبستان روایت سے وابستہ ہیں اور اس روایت کے تحت جو چیزیں آتی ہیں اُن پر بحث بھی کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ 2012ء میں سلیم احمد پر آپ کی تاثراتی کتاب شائع ہوئی، جبکہ 2013ء میں انہوں نے جدید نظم کے اہم ترین شاعر مجید امجد کے بارے میں ایک ضخیم کتاب ’’مجید امجد: ایک منفرد آواز‘‘ مرتب کی۔ 2014ء میں انہوں نے اپنے والد اور ممتاز عالم دین اور مورخ مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی کی حیات و خدمات پر مبنی سوانح تصنیف کی۔ 2015ء میں اُن کی کتاب ’’اللہ بخش یوسفی: قائداعظم کی سیاسی فکر کے ترجمان‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ خواجہ رضی حیدر نے محترمہ فاطمہ جناح، پروفیسر شریف المجاہد، لطف احمد شیروانی، خواجہ سرور حسن، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر ریاض احمد کی کتابوں کے اردو تراجم بھی کیے ہیں۔ نظموں کا ایک مجموعہ ابھی حال ہی میں ’’لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے‘‘ شائع ہوا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے دو سو سے زائد اسکرپٹ لکھے۔ خصوصاً پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈراما سیریل ’’جناح سے قائد“ 1997ءکا تحقیقی اسکرپٹ ان کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ روزنامہ ’’حریت‘‘ کے بعد 1981ء میں انہوں نے سینئر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے قائداعظم اکادمی سے وابستگی اختیار کی اور 27 سال تک اس ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر آپ سرسیدیونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں بحیثیت کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہے تھے، اس کے بعد اب پھر قائداعظم اکادمی کے ڈائریکٹر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ آرٹس کونسل آف پاکستان کے تاحیات رکن ہیں اور قائداعظم رائٹرز گلڈ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اے اے سید