امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کی قطر میں غیر رسمی ملاقات
افغانستان کے لیے امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں اب سنجیدہ کام شروع ہورہا ہے، یہ ایک اہم گھڑی ہوسکتی ہے۔ اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ملاقات میں مزید طالبان راہنمائوں کی شرکت سے مذاکرات کا حالیہ دور انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے مذاکرات کی میزبانی اور معاونت کے لیے قطر اور پاکستان کی تعریف کی۔
طالبان ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دوحہ مذاکرات میں پہلی دفعہ تنظیم کے بانی رکن اور ملا محمد عمر مجاہد کے انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جانے والے طالبان راہنما ملا عبدالغنی برادر بھی نہ صرف قطر پہنچ چکے ہیں بلکہ وہ جاری مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے رہنما ملا عبدالغنی برادر کی قطر میں مذاکرات کے نئے دور سے پہلے ایک غیر رسمی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔
دوسری جانب طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں شامل افرادکی تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں جن میں طالبان کے دوحہ سیاسی دفتر کے نگران شیر محمد عباس ستانکزئی کا تعلق افغانستان کے صوبے لوگر سے ہے۔ وہ طالبان مذاکراتی ٹیم کے سب سے اہم نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ستانکزئی نے کالج تک تعلیم افغانستان سے حاصل کی، تاہم ستّر کی دہائی میں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اسکالرشپ پر انڈیا گئے تھے جہاں انھوں نے ملٹری اسکول سے ڈگری حاصل کی تھی۔ افغانستان میں جب روس کے خلاف جہاد شروع ہوا تو وہ پاکستان آگئے تھے اور یہاں کئی سال تک مقیم رہے تھے۔ عباس ستانکزئی سابق افغان صدر پروفیسربرہان الدین ربانی کی جماعت جمعیت اسلامی کا حصہ بھی رہے، بعد میں وہ عبدالرب رسول سیاف کی جماعت اتحاد اسلامی میں شامل ہوئے، تاہم جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انھوں نے طالبان تحریک میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور حکومت میں ڈپٹی وزیر خارجہ سمیت اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ وہ طالبان کے سیاسی امور کے نگران بھی رہے ہیں۔ وہ کئی زبانیں جانتے ہیں لیکن انگریزی زبان پر انہیں خاص دسترس حاصل ہے۔ طالبان وفد کے ایک اور رکن مولوی ضیاء الرحمان مدنی کا تعلق تخار سے ہے۔ وہ تاجک قبیلے سے بتائے جاتے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں تخار صوبے کے گورنر رہ چکے ہیں۔ امریکی حملے کے دوران پھنسے کمانڈروں کونکالنے میں مولوی ضیاء الرحمان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مولوی عبدالاسلام حنفی کا تعلق جوزجان صوبے کے ازبک قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔ وہ ابتدا ہی سے طالبان تحریک کا حصہ رہے ہیں، تاہم عام طور پر وہ طالبان میں ایک عالم دین کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ کراچی میں بھی ایک دینی مدرسے سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں محکمہ تعلیم کے نائب وزیر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ شیخ شہاب الدین دلاور کا تعلق لوگر صوبے سے ہے۔ وہ خیبر پختون خوا کے سب سے بڑے دینی مدرسے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل ہیں۔ شیخ شہاب الدین بیشتر اوقات پشاور میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے ہیں اور اس دوران پشاور میں ایک دینی مدرسہ بھی چلاتے رہے ہیں۔ وہ طالبان دورِ حکومت میں افغان قونصلیٹ پشاور میں کونسل جنرل کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ ملا عبداللطیف منصورکا تعلق پکتیا سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے مشہور کمانڈر مولوی نصراللہ منصور کے بھتیجے بتائے جاتے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں لوگر صوبے کے گورنر اور طالبان سیاسی کمیشن کے اہم رکن رہے ہیں۔ ملا عبدالمنان عمری کا تعلق اورزگان صوبے سے ہے۔ وہ طالبان تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر کے بھائی ہیں۔ مولوی امیر خان متقی کا تعلق افغان صوبے پکتیکا سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے دوران مولوی محمد نبی محمدی کی جماعت کا حصہ رہے، تاہم جب طالبان تحریک ظہور پذیر ہوئی تو یہ اس میں شامل ہوگئے تھے۔ امیر خان متقی طالبان حکومت میں اطلاعات کے وزیر کے اہم عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔ موجودہ حالات میں بھی وہ طالبان کے محکمہ اطلاعات کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں۔ ملا محمد فاضل مظلوم کا تعلق اورزگان سے بتایا جاتا ہے۔ وہ طالبان حکومت میں ملٹری کے سربراہ کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ گوانتانامو میں بھی قید رہ چکے ہیں۔ تاہم 2018ء میں جب طالبان کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے امریکی شہری بوئی برگودال کو رہا کیا گیا تو اس کے بدلے میں گوانتانامو میں قید جن پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی گئی تھی اُن میں محمد فاضل مظلوم بھی شامل تھے۔ ملا خیراللہ خیرخواہ کا تعلق ننگرہار سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے دوران مولوی یونس خالص کی جماعت حزبِ اسلامی کا حصہ رہے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں ہرات صوبے کے گورنر کے عہدے پربھی فائز رہے، جبکہ امریکہ کی طرف سے گرفتاری کے بعد گوانتانامو جیل میں قید کیے گئے تھے۔ مولوی مطیع الحق کا تعلق افغان صوبے ننگرہار سے ہے۔ وہ افغان جہاد کے نامور کمانڈر مولوی یونس خالص کے صاحبزادے ہیں۔ انس حقانی طالبان کے قطر سیاسی دفتر اور مذاکراتی ٹیم کے واحد رکن ہیں جو اس وقت افغانستان میں پابندِ سلاسل ہیں۔ انس حقانی مشہور جہادی کمانڈر مولوی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ملا نوراللہ نوری کا تعلق افغانستان کے صوبے زابل سے ہے۔ وہ امریکی جیل گوانتانامو میں قید رہ چکے ہیں اور ان کا افغانستان کے مشرقی صوبوں میں خاصا اثر رسوخ رہا ہے۔ ملا عبدالحق وثیق کا تعلق غزنی صوبے سے ہے۔ وہ طالبان حکومت میں انٹیلی جنس چیف کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ یاد رہے کہ افغان طالبان کی طرف سے گزشتہ دنوں جاری کردہ ایک اعلامیہ میں امریکہ سے بات چیت کے لیے 14 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا گیا تھا جن میں اکثریت کا تعلق قطر کے سیاسی دفتر سے بتایا گیا ہے۔ اس اعلامیہ میں قطر دفتر کی سربراہی ملاعبدالغنی برادر کے سپرد کی گئی تھی جنہیں 2010ء میں کراچی سے گرفتارکیا گیا تھا اور ابھی حال ہی میں پاکستان سے ان کی رہائی عمل میں آئی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کے بارے میں اب تک متضاد اطلاعات آتی رہی ہیں۔ ان کی رہائی کے بارے میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی رہائی کا مطالبہ سب سے پہلے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کیا تھا۔ یہ دعویٰ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی کے چونکہ ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ طالبان دورِ حکومت سے اچھے تعلقات تھے اس لیے حامد کرزئی نے اپنے دورِ صدارت میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے ان کی رہائی کا مطالبہ جہاں سابقہ تعلق کی بنا پر کیا تھا، وہیں حامد کرزئی اپنی اس کوشش کے ذریعے طالبان کی صفوں میں دراڑ ڈال کر ان کی صفوں میں اپنے ہمنوا پیدا کرنا چاہتے تھے، لیکن پاکستان نے اُس وقت حامد کرزئی کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات کی بنا پر، نیز افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو زیرِ احسان لانے کی اس کوشش کو مُلا عبدالغنی برادر کو رہا نہ کرنے کی صورت میں ناکام بنادیا تھا۔ جب کہ اس کے برعکس بعض دوسرے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ ملا عبدالغنی کی گرفتاری محض امریکی دبائو کا نتیجہ تھی، اور بعد ازاں گرفتاری کے بعد وہ پاکستان سے بدظن ہوگئے تھے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں ریاض سعودی عرب اور اسلام آباد میں طے شدہ امریکہ طالبان مذاکرات کی منسوخی کے پیچھے بھی ان ہی کی ناراضی کو بطور ایک اہم وجہ بیان کیاجاتا ہے۔ البتہ اب جب وہ دوحہ پہنچ چکے ہیں اور زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں طالبان کی قیادت کررہے ہیں تو اس سے ان مفروضوں پر یقین کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
امریکہ طالبان مذاکرات کے حالیہ دور کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے مذاکرات کے حالیہ دور سے چند روز قبل امن عمل کے لیے پہلی بار پاکستانی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان امن کے لیے اقدامات کررہا ہے، پاکستان کی جانب سے مزید بڑے اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ زلمے خلیل زاد نے میڈیا کو انٹرویو میں کہا ہے کہ افغان امن عمل کے لیے حکومتی سربراہی میں مضبوط، متحد مذاکراتی ٹیم ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں مذاکرات کے دوسرے دور میں وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ترغیب دینے اور سیزفائر پر مشتمل دو نکات پر زور دیں گے۔
دریں اثناء افغانستان کے شمالی صوبے فریاب سے آمدہ اطلاعات کے مطابق طالبان کے ایک فوجی چوکی پر حملے کے نتیجے میں 5 سیکورٹی اہلکار ہلاک جبکہ 2زخمی ہوگئے ہیں، حملے کے بعد پولیس کے ساتھ جھڑپ میں 18 طالبان کے مارے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ فریاب کی ضلعی شوریٰ کونسل کے رکن عبدالباقی ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 5 سیکورٹی اہلکار ہلاک اور 2 زخمی ہوگئے، جب کہ فریاب محکمہ پولیس نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے کے بعد ہونے والی جھڑپ میں 18 طالبان بھی مارے گئے ہیں۔ ان اطلاعات کے علاوہ افغانستان کے بعض دیگر علاقوں سے بھی سیکورٹی اہلکاروں پر طالبان کے حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ طالبان اگر ایک طرف مذاکرات کے ذریعے امن کو موقع دینا چاہتے ہیں تو دوسری جانب ان کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملوں کے ذریعے بھی دنیا کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ طالبان پورے افغانستان میں پہلے سے زیادہ فعال اور متحرک ہیں، اور اگر امریکہ ان کے ساتھ جلد از جلد کسی حتمی نتیجے اور معاہدے پر نہیں پہنچا تو آنے والے دن بالخصوص موسم بہار کے دوران طالبان کی مسلح کارروائیوں میں کئی گنا اضافے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، جس سے امن عمل کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا فریقین کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کچھ نہ کچھ لچک کا مظاہرہ بہرصورت کرنا ہوگا۔