اپنی سماعت کی حفاظت کیجیے

احمد خاں خلیل
حواس خمسہ (چھونے، دیکھنے، سننے، سونگھنے اور چکھنے) میں سے کسی ایک کی خرابی سے بھی زندگی بے لطف ہوجاتی ہے۔ سماعت صحیح نہ ہو تو یہ پتا نہیں چل سکتا کہ کوئی کیا مانگ رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ خاموش زنداں میں زندگی گزر رہی ہے۔
طبِ جدید نے انسانی صحت کے ہر شعبے میں خاصی ترقی کی ہے۔ سماعت کے بہت سے نقائص کا خاطر خواہ علاج ہورہا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی 20 ملین افراد میں کسی نہ کسی درجے کا سماعت کا نقص پایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ 40 سے 50 ملین افراد کو کان بجنے (TINNITUS) کی شکایت ہے۔ بعض افراد میں سماعت کے نقص یعنی ہلکے بہرے پن کے ساتھ کان بجنے کی شکایت بھی ہوتی ہے۔
سماعت کی تکلیف والے اکثر لوگ 50برس سے زیادہ عمر کے ہیں، لیکن 30 اور 40 برس کی حد میں آنے والوں کی بھی خاصی تعداد ہے۔
سماعت کے تھوڑے نقص کو بڑھنے نہ دیجیے:اگر کسی فرد میں سماعت کا تھوڑا نقص ہے تو اُس کا یہ فرض ہے کہ اس پر پوری توجہ دے۔ ماہرِ سماعت سے مشورہ کرے، اس کے تجویز کردہ علاج سے استفادہ کرے اور اپنے تھوڑے نقص کو مزید نہ بڑھنے دے۔ تقریباً تمام بڑے اسپتالوں میں گلے، ناک اور کان کے ماہرینِ خصوصی موجود ہیں۔ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
طبل گوش کی حفاظت کیجیے:کان کے اندر ایک پردہ ہوتا ہے جس کو طبل گوش (EAR DRUM) کہتے ہیں۔ اس سے آواز کان کے اندرونی حصے میں منتقل ہوتی ہے۔ اس لیے نہ تو کان میں پنسل یا پن ڈالیں اور نہ کوئی دوسری چیز، کیوں کہ اس طرح طبل گوش زخمی ہوسکتا ہے۔
کان کے میل کو دیا سلائی یا کسی اور چیز سے نہ نکالیے:کان میں کوئی چیز داخل کرکے میل نکالنا صحیح نہیں۔ اس سے بعض اوقات میل کان کے زیادہ اندر چلا جاتا ہے اور طبل گوش پر دبائو ڈالتا ہے۔ عام طور پر میل خشک ہوکر خود بخود نکلتا رہتا ہے۔ میل خود نکالنے کے بجائے معالج سے یہ کام کروانا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔
کان میں کیڑے اور گرد داخل نہ ہونے دیں:یہ اہم حفاظتی تدبیر ہے۔ کان کو ہر قسم کے انفیکشن سے بچانا چاہیے۔ صحت کی یہ تدبیر بچوں کو بھی سکھائی جائے اور پوری زندگی اس پر عمل کیا جائے۔
بہت اونچی آواز اور شور سے بچیں:اندرونی کان میں بہت ہی باریک بال ہوتے ہیں جو آواز کے ارتعاش (Vibration) کو کان سے دماغ کی طرف جانے والے اعصاب پر منتقل کرتے ہیں۔ یہ نہایت ہی نازک کام ہے۔ اونچی آواز، شور، گولی کی آواز اور تیز موسیقی سے کان کا یہ حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اس لیے ماہرین کی سفارش یہ ہے کہ آپ اپنے ریڈیو، ٹی وی اور میوزک کے دیگر آلات کی آواز کو ہمیشہ مدھم رکھیں، ورنہ کان سے دماغ کو جانے والے اعصاب (Nerves) کو صدمہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ اعصاب کوئی بڑی رگیں نہیں ہوتیں بلکہ بال سے بھی باریک ہوتے ہیں، اس لیے بہت نازک ہوتے ہیں۔
اسی طرح گھر میں جو برقی آلات استعمال کرتے ہیں ان کے نیچے گدے رکھیں تاکہ وہ زیادہ آواز نہ دیں۔ گھر میں دریاں اور قالین بھی ایسے استعمال کریں جو آواز کو جذب کرتے ہیں۔
شور کے وقت کان میں پھریری کا استعمال:
پھریری (Earplug) تو مغربی ممالک کے اسٹوروں میں بنی بنائی ملتی ہیں، بلکہ ان میں یہ تک لکھا ہوتا ہے کہ وہ آواز کو 20 درجے گھٹاتی ہیں۔ ہمارے ہاں اگر یہ دستیاب نہیں تو روئی کی پھریری استعمال کی جاسکتی ہے۔ جہاں بہت زیادہ شور ہوتا ہے وہاں اس کا استعمال ضروری ہے۔
باقاعدگی سے معائنہ کراتے رہیے:
ماہرین کے پاس سماعت چیک کرنے کے آلات ہوتے ہیں۔ نیز سماعت کو بہتر بنانے کے بھی ان کے پاس آلات ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سے سماعت کو چیک کراکر اگر ضرورت ہو تو سماعت کو بہتر بنانے کا آلہ بھی لے لیں۔ سماعت چونکہ کچھ مدت کے بعد کم یا بیش ہوسکتی ہے، اس لیے اسے مقررہ مدت کے بعد چیک کرانا ضروری ہے۔
کان بجنا ایک مرض ہے:کان بجنا ایک مرض ہے، اس کا مناسب علاج کرائیں۔ بعض اوقات اندرونی کان کے انفیکشن یا کسی شریان کے جزوی طور پر بند ہونے یا خودکار مدافعت (Autoimmune) سے بھی یہ تکلیف ہوجاتی ہے جو مناسب علاج سے دور ہوسکتی ہے۔ خودکار مدافعت کا مطلب یہ ہے کہ قدرت نے ہمارے جسم میں دفاع کا یہ انتظام رکھا ہے کہ جب باہر سے بیکٹیریا اور وائرس حملہ کرتے ہیں تو ہمارا دفاعی نظام اُن سے جنگ لڑ کر انھیں ختم کرتا ہے۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ کبھی کبھی ہمارا دفاعی نظام غلطی سے خود جسم کے کسی حصے پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ یوں کئی امراض جنم لیتے ہیں۔
زود حسیت کا علاج کرائیں:پھولوں کا زیرہ (Polen)، پھپھوندی وغیرہ بھی کان بجنے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح بعض غذائوں کی الرجی سے بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ جن جن چیزوں سے آپ کو یہ تکلیف ہوتی ہے ان پر نظر رکھیں اور ان سے پرہیز کریں۔
پانچ چیزوں سے بچیں:اسپرین، کونین نکوٹین (سگریٹ نوشی)، الکوحل (شراب) اور کیفین (کافی) بھی کان بجنے کا باعث ہوسکتی ہیں، خصوصاً اسپرین، کونین کی بھاری خوراکوں سے کان بجنے لگتے ہیں۔ آپ جو چیز بطور علاج استعمال کرتے ہیں اُس کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کریں۔ دوسری چیزوں کے استعمال کو درجہ بدرجہ کم کرکے اگر ختم کرسکتے ہیں تو ختم کردیں۔
ہائی بلڈ پریشر:
ہائی بلڈ پریشر میں بعض اوقات آپ کو اپنے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے، اس لیے اس سے بھی کان بجنے کی تکلیف شروع ہوسکتی ہے۔ کم چکنائی اور کم نمک والی غذا کھائیں، روزانہ ورزش بھی کریں۔ ان اقدامات سے کان بجنے کی بعض قسمیں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔
آلۂ سماعت کا استعمال:
ماہرین کا خیال ہے کہ آلۂ سماعت کے استعمال سے کان بجنا قدرے کم ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں کان کے ماہرِ خصوصی سے مشورہ کریں۔ اگر کان کا بجنا کسی قدر کم ہوجائے تو یہ بھی اچھی پیش رفت ہے۔
پستی اور جذباتیت کا علاج:
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اضمحلال (ڈپریشن) بھی کان بجنے کا باعث ہوسکتا ہے، یا کوئی اور پریشانی اور محرومی بھی یہ تکلیف پیدا کرسکتی ہے۔ ان تکالیف کا بھی اپنے معالج سے ذکر کریں تاکہ وہ ان کا علاج تجویز کرسکے۔
ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی صحت کی ذمے داری خود قبول کرکے علاج کے لیے کوشاں رہے۔ اپنی ذمے داری کو کسی اور پر یا معالج پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ تکلیف کے آغاز میں بہت سی تکلیفوں کا جلد علاج ہوسکتا ہے۔ جب خاصا وقت گزر جائے تو وہ جڑ پکڑ لیتی ہے اور علاج مشکل ہوجاتا ہے۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ مئی 2011ء)