یکجہتی اور اتحاد کے تقاضے

بھارت کی جانب سے رات کی تاریکی میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور بمباری کے دعوے نے خطے کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ اس کا اندیشہ اسی وقت ہو گیا تھا جب پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے جنگی ماحول گرما دیا تھا ۔پاکستان کے عسکری ذرائع کے مطابق بھارت کے جنگی طیاروں نے پیر اور منگل کی رات 2 بج کر 50 منٹ پر مظفر آباد میں سرحدی خلاف ورزی کی اور بالا کوٹ کے قریب بمباری کی کوشش کی لیکن پاک فضائیہ کے حرکت میں آنے ، جوابی کارروائی نے بھارت کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا ۔ حملے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر ساڑھے تین سو افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا ، جوجھوٹ پر مبنی تھا اور جس کے ثبوت انڈیا تاحال نہیں دے سکا ہے لیکن اس دعوے کو افواج پاکستان کے ترجمان نے چیلنج کرتے ہوئے ’’سرپرائز‘‘ دینے کا اعلان کیا ۔ اپنے دعوے پر عمل کرتے ہوئے ،بھارتی جارحیت کو ناکام بناتے ہوئے دو حملہ آور طیاروں کو نشانہ بنایا اور ایک جنگی پائلٹ کو گرفتاربھی کر لیا ۔ بھارت کی جارحیت کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے لیکن بعد میں جنگ بے قابو ہو سکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت تنہا کیا اتنی بڑی جنگی مہم جوئی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ابھی تک کی اطلاعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے ایک نمائشی کارروائی کی ہے ، لیکن وزیر اعظم بھارت نریندر مودی اور اس کے ذرائع ابلاغ نے جنگی ماحول گرم کر دیا ہے ۔ بھارت کی جانب سے سیکڑوں ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کرنے کے دعوے نے خطے کی صورت حال میں سنسنی خیز تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے بھارت کے جنگی دبائو کے مقابلے میں موثر اور مناسب جواب دے دیا ہے جس کا قوم تقاضا کر رہی تھی ۔ بھارت کی اشتعال انگیزی اور پاکستان کے جوابی اقدام کے بعد کیا دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان براہ راست جنگ ہو سکتی ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ البتہ بھارت کی اشتعال انگیزی نے پاکستان میں ایک بار پھر یکجہتی اور اتحاد کی فضا پیدا کر دی ہے ۔ اگر اس خطے میں دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان براہ راست جنگ ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری بھارت کے اوپر عاید ہوتی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک بھارت کی قیادت نے اس خطے میں امن قائم رہنے کے لیے ابھی تک ذمہ دارانہ روش اختیار نہیں کی ۔ کیا بھارت کی جانب سے تازہ جنگی ماحول گرم کرنے کا اقدام بدلتی عالمی صورت حال سے ہے ۔ یہ بات ہر پاکستانی کے علم میں ہے کہ امریکا اس خطے میں بھارت کو اپنا پولیس مین بنانا چاہتا ہے، جس طرح اس نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اسرائیل کو خطے کا پولیس مین بنایا ہوا ہے ۔ امریکا17 برس سے افغانستان پر قابض ہے جہاں وہ بھارت کو خصوصی عسکری کردار دے کر واپس جانا چاہتا تھا ،لیکن امریکا ہی افغانستان سے ’’ با عزت‘‘واپسی کے لیے ’’دہشت گرد‘‘ افغان طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہو چکا ہے ۔ افغان طالبان اور امریکا مذاکرات میں پیش رفت ہو چکی ہے ۔ اس پیش رفت نے امریکی طرزِ عمل کو تبدیل کر دیا ہے ۔ افغانستان میں امریکی جنگ کی ناکامی نے خطے کی سیاست میں بعض بنیادی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں، جس میں چین اورروس کا اُبھار بھی ہے ۔ یہ دونوں ممالک افغان مسئلے کے بنیادی کردار بن چکے ہیں ، بدلتے عالمی حالات ، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی قیات کو بھی تبدیل کر رہے ہیں جس کا ایک مظہر سی پیک کا منصوبہ ہے جس کے خلاف کام کرنے کے عزم کا کھل کر امریکا اور بھارت اظہار کر چکے ہیں، اس پس منظر میں امریکا اور چین دونوں نے بھارت اور پاکستان کو تحمل اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے، بھارتی اشتعال انگیزی کے جواب میں پاکستان مسلسل صبر اور تحمل سے کام لے رہا ہے ۔ ابھی تک یہ سوال موجود ہے کہ بھارت کے اقدامات نمائشی ہیں یا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکانے پرتلا ہوا ہے ۔ البتہ بھارت کے غیر دانشمندانہ اقدامات نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو خدشے میں مبتلا کر دیا ہے، اس صورتحال نے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اور پوری قوم کو بھی امتحان میں کھڑا کر دیا ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارے حکمرانوں کی تاریخ شکوک و شبہات سے بھری ہوئی ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کے اقدامات قوم کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کر دیتے ہیں ۔ بھارت کے جارحانہ اور منفی رویے نے قوم کے اندر یکجہتی اور اتحاد کی فضا پیدا کر دی ہے ۔ لیکن یہ ایک منفی جذبہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے مثبت بنیادوں پر قوم کو متحد اور یکجان کرنے کی کوشش سے گریز کیا ۔ بھارت کی جارحیت کا خوف اور اس کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا جذبہ ہمیشہ کام کرتا رہا ہے ۔ لیکن منفی جذبہ ہمیشہ کام نہیں آتا ۔ ایسی صورت حال نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے کی حقانیت اور صداقت کو تازہ کر دیتی ہے ، لیکن پاکستان کے حکمران یکجہتی اور اتحاد کی اصل بنیاد کو مضبوط کرنے سے ہمیشہ در گزر کرتے ہیں ۔ پاکستان کی یکجہتی اور اتحاد کی بنیاد اسلام ہے ۔ اسلام ہی وہ واحد قوت ہے جو صوبائی ، نسلی ، لسانی اور طبقاتی اختلاف کو یکجہتی اور اتحاد کی لڑی میں پروتا ہے ۔ پاکستان ارضی قومی سلطنت نہیں ہے بلکہ زمین اور نسل کے اختلافات کو ختم کر کے ایمان اور اسلام کی بنیاد پر قومیت کا تصور پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے اسی تصور نے معاشی طور پر تباہ حال پاکستان کو جوہری قوت بنایا ہے ۔ یہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ محض دشمن کا خوف ہمیں زیادہ دیر تک متحد اور یک جان نہیں رکھ سکتا ۔ اس کے لیے نظریہ اسلام کی بنیاد پر عادلانہ اور منصفانہ نظام کا قیام ضروری شرط ہے ۔ اسلام سے وفا داری کے بغیر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام نہیں بنایا جا سکتا۔