ممتاز ادیب، شاعر، محقق، ڈائریکٹر قائداعظم اکادمی خواجہ رضی حیدر سے مکالمہ
گزری جو رہ گزر میں اسے درگزر کیا
اور پھر یہ تذکرہ کبھی جا کر نہ گھر کیا
کے خالق خواجہ رضی حیدر عصر حاضر کے ممتاز ادیب، شاعر اور محقق ہیں۔ آپ سے انٹرویو کئی سال پہلے ہوجانا چاہیے تھا، نہ ہونے کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں، لیکن گزشتہ چند ماہ سے میری خواہش میں شدت پیدا ہوئی اور ایک دن میں نے انہیں فون کر ہی ڈالا۔ پھر وقت اور دن طے ہوا اور میں ان کے عارضی مسکن نارتھ ناظم آباد بلاک ایل میں کرائے کے مکان کے دروازے پر کھڑا تھا۔ دروازہ خود کھولا اور ڈرائنگ روم تک رہنمائی کی۔ ہمیں بٹھا کر وہ اندر گئے، اور جب ہم نے کمرے پر طائرانہ نظر ڈالی تو ایک دیوار پر قائداعظم کی تصویر آویزاں تھی اور سائڈ ٹیبل پر رکھے خوبصورت فریم میں ایک تہنیتی پیغام لکھا تھا، خواجہ صاحب کمرے میں داخل ہوئے، چائے کا پوچھا، پھر گفتگو شروع ہوئی اور پھر ہوتی رہی، اور جب میں ان کے گھر سے باہر نکل رہا تھا تو اندازہ ہوا تقریباً چار گھنٹے ہوگئے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ خواجہ صاحب علم، تاریخ، تحقیق کے ساتھ گفتگو کے آدمی ہیں۔ احمد جاوید صاحب سے بات ہورہی تھی تو خواجہ صاحب کے تذکرے پر آپ نے کیا خوب کہا کہ ’’خواجہ رضی حیدر اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن کے یہاں تخلیق اور تحقیق ایک ہوگئی ہے۔ آپ محقق اور شاعر بیک وقت ہیں۔‘‘
خواجہ رضی حیدر متحدہ ہندوستان کے صوبے یوپی کے شہر پیلی بھیت میں 1946ء میں پیدا ہوئے، جب ڈھائی سال کے تھے تو خاندان نے کراچی ہجرت کی۔ ابتدائی دس سال کھارادر میں رہے، جہاں چوتھی جماعت تک گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھا، پھر والد صاحب نے وہاں سے نکال کر میٹھادر میں قائم ایک ایرانین ٹیکنیکل اسکول میں داخل کرادیا۔ وہاں آٹھویں تک تعلیم حاصل کی۔ 1958ء میں ناظم آباد آگئے، جہاں حسینی ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’میں پڑھنے لکھنے میں غبی قسم کا طالب علم تھا۔ شرارتیں، ہنگامہ آرائی،کھیل کود یہ سب مجھے زیادہ عزیز تھے۔ کرکٹ کی طرف بہت زیادہ رجحان رہا، جو آج بھی برقرار ہے، آج بھی میں دو بجے رات تک بیٹھ کر کرکٹ کے میچز دیکھتا رہتا ہوں۔‘‘ میٹرک کے بعد جناح کالج کراچی میں داخلہ لے لیا، جس کے بعد ہی آپ کی طبیعت میں لکھنے پڑھنے کی طرف زیادہ رغبت پیدا ہوئی۔ جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’وہاں ایک دو اساتذہ جن میں پروفیسر اطہر صدیقی صاحب شامل تھے بہت شفیق تھے، ان اساتذہ نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔ میں جو کچھ لکھتا تھا اس کی بڑی تعریف کردیتے تھے، حوصلہ افزائی کرتے تھے، جس کے باعث رغبت پڑھنے لکھنے کی طرف بڑھ گئی‘‘۔کہتے ہیں ’’کالج میں طالب علموں کا ایک ایسا گروپ بن گیا جو ادبی انداز کا گروپ تھا، اس میں نیر سوز تھے جو اب بھی شاعر ہیں، نصیر ترابی تھے، پرویز بشیر افسانہ نگار تھے، پروفیسرخلیق علوی تھے جو بعد میں شپ آنر کالج کے پرنسپل بھی ہوئے، سرفراز اعظمی تھے، وہ آج بھی کام کرتے ہیں، لکھتے ہیں۔ اور اس طرح کے کئی طالب علم تھے۔ اس طرح طبیعت میں ایک جماؤ پیدا ہوا اور لکھنے پڑھنے کی طرف زیادہ راغب ہوگیا‘‘۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ آپ صاحب تحریر و تصنیف علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پردادا مولانا وصی احمد محدث سورتی اپنے وقت کے بڑے محدث تھے۔ انہوں نے کوئی ستائیس کے قریب کتابوں پر حواشی لکھے، جو آج بھی طبع شدہ موجود ہیں۔ دادا نے بھی لکھنے پڑھنے کا کام کیا، پھر والد مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی نے بھی یہی کام کیا اور ان کی بھی کوئی ستائیس اٹھائیس کے قریب کتابیں کراچی سے شائع ہوئیں۔ والد صاحب عیدگاہ پر قائم ادارہ قرآن محل سے 1954ء میں وابستہ ہوئے۔ وہاں سے ایک رسالہ’’پیام حق‘‘نکلتا تھا جس کے وہ ایڈیٹر بھی تھے۔ انہوں نے جتنی کتابیں لکھیں وہ سب قرآن محل سے شائع ہوئیں۔ اس میں ایک کتاب بڑی اہم ہے جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ’’تاریخِ مسلمانانِ عالم‘‘۔ پہلا حصہ تاریخِ انبیاء ہے، دوسرا حصہ تاریخِ مصطفی ہے، تیسرا تاریخِ خلفاء راشدین ہے،چوتھا تاریخ بنو امیہ ہے۔ پھر تاریخِ بنو عباس ہے اور آخری جلد تاریخِ پاک و ہند کے حوالے سے لکھی ہے جو چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ گھر میں سب بہن بھائی پڑھنے لکھنے کی طرف راغب تھے، چھوٹی بہن کے مضامین روزنامہ جنگ اور روزنامہ انجام میں خواتین کے صفحہ پرچھپاکرتے تھے۔ بتاتے ہیں ’’اکثر و بیشتر میرے والدصاحب طعنہ بھی دیا کرتے تھے کہ ’’دیکھ! یہ بہن تیری اتنا لکھتی ہے، چھَپتی ہے، تُو کیوں نہیں اس طرح سے لکھتا‘‘۔ دورانِ تعلیم 1966ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی سے بطور سب ایڈیٹر کیا۔ وہاں مولانا حسن مثنیٰ ندوی کی سرپرستی حاصل رہی۔ انہوں نے میری تربیت میں بڑا حصہ لیا،افسانہ نگار افسرآزر بھی استاد رہے، جو کچھ بھی لکھتے وہ اس کی اصلاح فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے بتایا کہ ’’افسانہ نگاری کی طرف راغب ہوا اور انہیں کہانیاں لکھ کر دیتا تھا تو وہ کہانیاں پھاڑ دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایسی کہانی لکھو جو رہ جائے‘‘۔
پھرتحریکِ پاکستان کی تاریخ اور قائداعظم محمد علی جناح کی سوانح میں دلچسپی ہوگئی۔ 1976ء میں ’’قائداعظم کے 72 سال‘‘ شائع ہوئی جس کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ خواجہ رضی حیدر کی دیگر تصانیف میں ’’تذکرۂ ہجرت سورتی، 1981ء۔ قائداعظم خطوط کے آئینے میں، 1985ء۔ قراردادِ پاکستان، 2014ء۔ تاریخ و تجزیہ رتی جناح: قائدِاعظم کی رفیقۂ حیات، 1995ء۔ سید شمس الحسن، تحریک پاکستان کا ایک اہم کردار،2003ء۔ کانپور نزدیک سے دور تک، 2003ء۔ راجا صاحب محمود آباد: حیات و خدمات، 2005ء۔ بابائے صحافت سرحد اﷲ بخش یوسفی، 2006ء۔ محترمہ فاطمہ جناح: رفقا کی نظر میں شامل ہیں۔ رَتی جناح کا انگریزی ایڈیشن 2004ء میں پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی سے، اور 2010ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوا۔
ادب میں آپ کا مکتبہ فکر وہی ہے جو معروف شاعر اور نقاد سلیم احمد کا تھا۔ دبستان روایت سے وابستہ ہیں، اور اس روایت کے تحت جو چیزیں آتی ہیں ان پر بحث بھی کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ 2012ء میں سلیم احمد پر آپ کی تاثراتی کتاب شائع ہوئی، جب کہ 2013ء میں آپ نے جدید نظم کے اہم ترین شاعر مجید امجد کے بارے میں ایک ضخیم کتاب ’’مجید امجد: ایک منفرد آواز‘‘ مرتب کی۔ 2014ء میں آپ نے اپنے والد اور ممتاز عالم دین اور مؤرخ مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی کی حیات و خدمات پر مبنی ایک تاثراتی سوانح تصنیف کی۔ 2015ء میں ان کی کتاب ’’اﷲ بخش یوسفی: قائداعظم کی سیاسی فکر کے ترجمان‘‘ شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ خواجہ رضی حیدر نے محترمہ فاطمہ جناح، پروفیسر شریف المجاہد، لطیف احمد شیروانی، خواجہ سرور حسن، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر ریاض احمد کی کتابوں کے اردو تراجم بھی کیے ہیں۔ شاعری کی طرف رغبت کا احوال بتاتے ہیں کہ ’’عبدالرؤف عروجؔ صاحب اور دیگر کچھ اہلِ ذوق دوستوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے شاعری کا ذوق پیدا ہوا، عبدالرؤف عروج ایک طرح سے شاعری میں بھی استاد تھے، جن سے اصلاح وغیرہ بھی لیتے رہے۔ دو شعری مجموعے ’’بے دیار شام‘‘ 1995ء، اور ’’گماں گشت‘‘ 2007ء شائع ہوئے، اس کے علاوہ نظموں کا ایک مجموعہ ابھی حال ہی میں ’’لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے ‘‘ شائع ہوا ہے۔ معروف شاعر اور نقاد سلیم احمد کا ذکر پُرجوش انداز میں کرتے ہیں۔ 2012ء میں سلیم احمد پر اُن کی تاثراتی کتاب شائع ہوئی۔ کتاب لکھنے کے پس منظر پر بات کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ ’’ایک ملاقات میں احمد جاوید صاحب سے میں نے یہ بات کہی کہ آپ کوئی ایسی کتاب لکھیں کہ جس سے سلیم احمد صاحب کی شخصیت اور ادبی حوالے سے جو خدمات ہیں وہ ساری کی ساری سامنے آسکیں۔ چونکہ وہ میرے دوست ہیں انہوں نے پلٹ کے مجھ سے کہا کہ خواجہ صاحب یہ کام آپ کیوں نہیں کرتے! کیونکہ انہیں بھی اس بات کا علم تھا کہ میں بہت قریب سے سلیم احمد صاحب کو جانتا تھا۔ جب انہوں نے کہا تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں شاید نہ کرسکوں کیونکہ میری علمی استطاعت وہ نہیں جو اس کام کے لیے درکار ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں یہ کام آپ ہی کریں گے۔ پھر میں نے اس کام کا آغاز کیا اور الحمدللہ ایک سال کے اندر اندر کتاب بھی شائع ہوگئی اور اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اب تک اس کتاب کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں‘‘۔ سلیم احمد سے تعلق کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’کالج سے فراغت کے بعد میں سلیم احمد صاحب کے ہاں جانے لگا جہاں علمی صحبتوں کا انعقاد رہا، وہاں میری تراش خراش ہوئی‘‘۔ ان کے گھر کے ماحول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’سلیم احمد صاحب کا گھر تو ایک طرح سے اکیڈمیا (Academia) تھا، وہاں تو ہر قسم کے لوگ آتے تھے، یہ بھی نہیں تھا کہ لیفٹ اور رائٹ کی بھی تخصیص ہو، سبھی لوگ آتے تھے۔ اُس زمانے میں پروفیسر مجتبیٰ حسین صاحب تھے، پروفیسر ممتاز حسین تھے، احمد ہمدانی تھے، یہ بائیں بازو کے ادیب تھے، لیکن بہت پابندی سے سلیم صاحب کے ہاں ہر روز شام کو پہنچ جاتے تھے اور گفتگو ہوتی تھی۔‘‘
ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے دو سو سے زائد اسکرپٹ لکھے۔ خصوصاً پاکستان ٹیلی وژن کی ڈراما سیریل ’’جناح سے قائد‘‘ کااسکرپٹ ان کی ہی تحقیقی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ 1981ء میں حریت کی ملازمت ترک کرکے سینئر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے قائداعظم اکادمی سے وابستگی اختیار کی، اور 27 سال تک اس ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اور ایک طویل وقفے کے بعد اب پھر قائداعظم اکادمی سے منسلک ہیں۔ آپ آرٹس کونسل آف پاکستان کے تاحیات رکن اور قائدِاعظم رائٹرز گلڈ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ خواہش ہے قائداعظم اکیڈمی میں جو اتنا تاریخی مواد موجود ہے اس سے لوگ استفادہ کریں۔
جب دسمبر 2016ء میں قائداعظم اکیڈمی پہنچے تو واقعی اُس وقت اکیڈمی کی صورت حال انتہائی ابتر تھی۔ وہاں پر کوئی نئی کتابیں نہیں آرہی تھیں، لیکچرز نہیں ہوتے تھے، کتابیں نہیں شائع ہورہی تھیں۔گزشتہ دو سال کے دوران آپ نے سات کتابیں شائع کیں جب کہ کوئی ریسرچ آفیسر بھی نہیں ہے۔ اب بھی دو کتابوں پر کام کررہے ہیں جو جلد شائع ہوجائیں گی۔ ڈیجیٹلائزیشن سے متعلق دو پروجیکٹ منسٹری کو بھیجے ہوئے ہیں، جس کے بعد قائداعظم کی تمام تقاریر ڈیجیٹلائز ہوجائیں گی۔ قائداعظم کی تقاریر کی وائس ریکارڈنگ کا بھی ارادہ ہے۔ خواجہ رضی حیدر سے تحریک پاکستان اور قائداعظم پر ہونے والی طویل گفتگو نذر قارئین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یوں تو آپ ادب اور شاعری میں بھی اپنا نام رکھتے ہیں، لیکن تحریکِ پاکستان اور قائداعظم آپ کی خاص شناخت ہے۔ تحریکِ پاکستان سے دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟
خواجہ رضی حیدر: میرا تعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے جس کا تحریکِ پاکستان سے بڑا تعلق رہا ہے۔ میرے والد سٹی مسلم لیگ پیلی بھیت کے صدر تھے، جب 1939ء میں مسلم لیگ نے یومِ نجات منانے کا اعلان کیا تو میرے والد صاحب نے اس میں زبردست قسم کا جلوس نکالا اور احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں وہ گرفتار بھی ہوئے۔ تحریک پاکستان سے دلچسپی تھی، پاکستان سے محبت ہمارے لہو میں شامل ہے۔ اصل موڑ آیا 1971ء میں جب سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا، اور وہ پاکستان ٹوٹ گیا جو بڑی قربانیوں سے بنا تھا۔ اس صدمے کا قلب و ذہن پر بہت اثر ہوا۔ اسی زمانے میں فرہاد زیدی میرے ایڈیٹر تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تحریک پاکستان کے جو بھی رہنما زندہ ہیں ان تمام کے انٹرویوز کریں اور حریت میں شائع کریں۔ اُس میں ان سے پوچھیں کہ ’’وہ کیسا دیکھتے ہیں پاکستان کو ٹوٹنے کے بعد‘‘۔ اور خاص طور پر جب 1972ء میں 23 مارچ آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سوال اٹھائیں کہ ’’ قراردادِ پاکستان کی اب کیا حیثیت ہے‘‘؟ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد میں نے مختلف لوگوں کے انٹرویوز کیے۔ اس میں قائداعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید تھے، چودھری خلیق الزماں تھے، سید حسین امام تھے، علامہ ابن حسن جارچوی تھے، سید حاتم علوی تھے، خود مولانا حسن مثنیٰ ندوی تھے، پروفیسر شریف المجاہد تھے جو اس زمانے میں جامعہ کراچی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہواکرتے تھے، سید ہاشم رضا تھے، اور اس طرح کے بہت سارے لوگ تھے جن کے انٹرویوز کیے، جس کے نتیجے میں مجھے تحریک پاکستان کی تاریخ سے دلچسپی پیدا ہوتی چلی گئی۔ خاص طور پر مطلوب الحسن سید جو قائداعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے اور بائیو گرافر بھی، انہوں نے 1945ء میں قائداعظم پر بڑی ضخیم کتاب بھی لکھی تھی، انہوں نے مجھے کتابیں دینا شروع کردیں۔ وہاں سے میں تحریک پاکستان اور قائداعظم پر مضامین لکھنے لگا۔ اس دوران میں یہ ہوا کہ روزنامہ حریت میں میرے ایک بڑے سینئر ساتھی عبدالرؤف عروج جو شاعر تھے، محقق تھے انہوں نے مجھ سے 1974ء میں یہ بات کہی کہ ’’رضی حیدر یہ جو اتنا لکھتے ہو، ہر ہفتے پندرہ دن بعد تمہارا مضمون چھپ جاتا ہے، تو اسے چینلائز کرو‘‘۔ میں نے کہا کہ کیسے کروں؟ تو انہوں نے کہا کہ قائداعظم کی طرف کو آجاؤ! کیونکہ 1976ء میں قائداعظم کا صد سالہ جشن ہوگا۔ سو سال ان کی پیدائش کو ہوجائیں گے۔ اتنا کام کرو کہ اس موقع پر تمہاری ایک کتاب آجائے، اور یہ ایک اہم کام ہوگا۔ میں نے ایک کتاب کی تیاری شروع کردی جو ’’قائداعظم کے 72 سال‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کا نام بھی عبدالرؤف عروج نے رکھا، اور کہا کہ قائداعظم کی زندگی کا ہر سال الگ کردیں۔ تو میں نے اس کے 72ابواب کرلیے۔ اس میں قائداعظم کی زندگی کے ساتھ ساتھ ہر سال ہندوستان میں ہونے والے حالات بھی جمع کیے۔ اس کتاب کو الحمدللہ پذیرائی بھی بہت ملی۔ جب قائداعظم انٹرنیشنل کانگریس، اسلام آباد میں ہوئی تو پروفیسر شریف المجاہد نے مجھے بھی نامزد کردیا اور میں وہاں گیا، اور میری دو سوکتابیں تقریب میں تقسیم ہوئیں۔
حریت میں رہتے ہوئے میں نے قائداعظم محمد علی جناح پر کئی مضامین لکھے، اور اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ڈاکٹر انیس خورشید صاحب کراچی یونیورسٹی میں شعبہ لائبریری سائنس کے سربراہ تھے، بہت پڑھے لکھے انسان تھے،انہوں نے قائداعظم پر ایک ببلیوگرافی مرتب کی جوانگلش اور اردو دونوں زبانوں میں 1977ء میں قائداعظم اکیڈمی سے شائع ہوئی۔ اس ببلیوگرافی میں انہوں نے میرے 13 مضامین شامل کیے۔ شریف المجاہد صاحب بھی قائداعظم اکیڈمی کے قیام کے بعد مجھ سے کئی بار کہہ چکے تھے کہ آپ ریسرچ کے آدمی ہیں، آپ اِدھر کیوں نہیں آجاتے ؟ یعنی قائداعظم اکیڈمی۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اخبار کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے۔ انسان کا کھلا ڈھلا مزاج بن جاتا ہے۔ آپ کسی سے بھی مل سکتے ہیں، جبکہ میرا ذہن تھا کہ اگر میں سرکاری ملازم ہوگیا تو ایک سیکشن آفیسر کو بھی ’’سر‘‘کہہ کر بات کرنی پڑے گی، لہٰذا مجھے یہ گوارا نہ تھا۔ لیکن 1981ء میں شریف المجاہد صاحب نے بہت زور دیا، بے پناہ اصرار کیا تو میں حریت کی ملازمت ترک کرکے قائداعظم اکیڈمی سے منسلک ہوگیا۔ جب میں قائداعظم اکیڈمی آیا تو تحقیق کے بنیادی طریقہ کار سے ناواقف تھا، مگر شریف المجاہد صاحب کے ساتھ رہ کر میرے اندر وہ تمام خوبیاں پیدا ہوئیں۔ یعنی ایک ٹیکنیکل انداز کی جو ریسرچ ہوتی ہے اس پیمانے پر کام کرنا شروع کردیا۔ آج کل تو دو سالہ کورس کرواتے ہیں وہ بھی نہیں کیا تھا۔
1985ء میں میری دوسری کتاب ’’قائداعظم، خطوط کے آئینے میں‘‘ شائع ہوئی جو تقریباً ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل تھی۔ جس کا پیش لفظ پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے لکھا تھا۔ اور یہ اردو کی پہلی کتاب ہے جو قائداعظم کے خطوط پر مشتمل ہے۔ چونکہ قائداعظم کے تمام خطوط انگریزی میں تھے اور ان کے جوابات بھی تمام انگریزی ہی میں تھے، اس لیے تمام خطوط کا ترجمہ کرنا وہ بھی اصل کے عین مطابق، اس کی زبان و بیان کو دیکھنا، الحمدللہ وہ کام بھی بخوبی انجام دے سکا۔
1995ء میں ایک کتاب جو کہ قائداعظم کی اہلیہ رتی جناح کی پہلی بائیو گرافی تھی وہ میں نے لکھی، جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ پھر اسی کتاب کا انگریزی میں بھی ترجمہ میں نے کیا جو پاکستان اسٹڈی سینٹرکراچی یونیورسٹی سے شائع ہوا۔ اس کی اشاعت کے ایک ڈیڑھ سال بعد آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس کتاب کو ہم شائع کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہمیں دے دیں۔ انہوں نے اس میں کچھ ترمیم کے ساتھ اپنے ہاں سے شائع کی۔ اور یوں یہ سلسلہ جاری رہا۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ’’قراردادِ پاکستان کی اب کیا حیثیت ہے‘‘؟ پر خصوصی انٹرویوز کیے، جس میں بڑے اور اہم نام شامل ہیں۔ تو اس حوالے سے ان لوگوں کا کیا کہنا تھا؟
خواجہ رضی حیدر: ان میں سے کچھ انٹرویوز میں نے اپنی کتاب ’’قراردادِ پاکستان، تاریخ و تجزیہ‘‘میں شامل کیے ہیں جو 1990ء میں قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع شائع ہوئی تھی۔ تمام اہم انٹرویوز اس میں ایک مضمون کی صورت میں شامل ہیں۔ اور جس وقت یہ انٹرویوز کیے گئے وہ ایسا لمحہ تھا کہ لوگوں میں خاصی مایوسی تھی۔ دوسرے اس وقت کچھ لوگ سوچتے تھے کہ اگر اس وقت ہم نے مایوسی کا اظہار کیا تو جو نئی نسل آرہی ہے یہ بہت زیادہ مایوس ہوجائے گی۔ سب نے مجھ سے انٹرویو میں کہا کہ قراردادِ پاکستان کی حیثیت مجروح نہیں ہوئی ہے بلکہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کا ایک سبب جو خاص طور پر مطلوب الحسن صاحب نے بھی بیان کیا وہ یہ تھا کہ ’’یہ قراردادِ پاکستان جس وقت منظور ہوئی تھی یہ ضرور ہے کہ ایک بنگالی مولوی فضل الحق نے اسے پیش کیا تھا، لیکن اس قراردادِ پاکستان میں جو علاقے دیئے گئے تھے ان میں بنگال نہیں تھا‘‘۔ تو اس کا مطلب یہ کہ قراردادِ پاکستان سقوطِ مشرقی پاکستان سے متاثر نہیں ہوئی، وہ اب بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے انٹرویو میں اظہار خیال فرمایا۔ اور میں بھی اس حوالے سے ہر لحاظ سے مطمئن ہوں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
اور یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لااِلٰہ الاللہ‘‘ یہ نعرہ تحریک پاکستان کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کبھی بھی نہیں لگا تھا۔ ایک بات سمجھ لیں کہ تحریک پاکستان میں وہی کچھ ہوا جو آل انڈیا مسلم لیگ چاہتی تھی۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جو بات ہوئی وہ اپنی جگہ پر تحریک پاکستان کا حصہ ہے، اور جو اس کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر ہوئی وہ عوامی جذبات تو ہوسکتے ہیں لیکن اسے آپ تحریک پاکستان سے منسلک نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر چودھری رحمت علی جو کہ خالقِ اسم پاکستان ہیں، انہوں نے پاکستان کا لفظ دیا، انہوں نے 1933ء میں اپنی تجویزNow or Never پیش کی لیکن وہ کبھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر نہیں آئے۔ 1940ء میں قائداعظم نے چودھری رحمت علی کوایک خط بھی لکھا کہ آپ مسلم لیگ میں آئیں اور مسلم لیگ کی تحریک کا حصہ بنیں، لیکن وہ نہیں آئے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج چودھری رحمت علی خالقِ اسم پاکستان ہونے کے باوجود اس ملک میں جس کا نام انہوں نے تجویز کیا تھا، غیر معروف ہیں۔ تو یہ نعرہ کبھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نہیں لگا، لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں میں ’’نعرۂ تکبیر،اللہ اکبر‘‘ اور ’’اسلام زندہ باد‘‘کا نعرہ لگا کرتا تھا۔ بھئی اگر پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنایا جارہا تھا تو لوگ یہ نعرہ کیوں لگارہے تھے؟ یہ تو تاریخ کی حقیقت ہے، اس کو آپ کس طرح سے جھٹلا سکتے ہیں!
فرائیڈے اسپیشل: خواجہ صاحب! بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی الگ ریاست کا خیال اقبال سے پہلے کچھ اور لوگوں نے پیش کیا، مثلاً مولانا حسرت موہانی اور مسلم لیگ کے معروف لیڈر نواب ذوالفقار علی کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ بظاہر نظر آتا ہے اقبال کے 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد سے پہلے پاکستان کی علیحدہ ریاست کے مطالبے کی بہت واضح صورت موجود نہیں تھی۔آخر یہ بات کس تناظر میں کہی جاتی ہے اور اس کے کیا محرکات ہیں؟
خواجہ رضی حیدر: بنیادی بات تو میں آپ سے یہ عرض کردوں کہ میں نے اپنی کتاب ’’قراردادِ پاکستان تاریخ و تجزیہ‘‘ میں برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے ایک انڈیکس بنایا ہے جس میں بنیادی بات برصغیر کی تقسیم ہی ہے۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری تک اس حوالے سے تقریباً ایک سو چوالیس تجاویز ریکارڈ پر آچکی تھیں۔ اس میں سے بیشتر ایسی تھیں جو مسلم اور ہندو بنیادوں پر تھیں کہ وہ علاقے جو ہندو اکثریتی علاقے ہیں انہیں الگ کردیا جائے، اور جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں ان کو الگ کردیا جائے۔ یہ تو ایک طویل عمل تھا۔ البتہ ایک انگریز جان برائٹ جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن تھا، اس نے 1858ء میں یہ بات کہہ دی تھی کہ یہ اتنا بڑا ملک ہے اور ہم اس کو نہیں چلاسکتے۔ ہمیں اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ اس کا ذکر قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔ برصغیر کی تقسیم کے مسائل تو 1858ء سے چل رہے تھے اور اُس وقت مولانا عبدالحلیم شرر، خیری برادران، مولانا محمد علی جوہر اس کا حصہ تھے۔ سرسید احمد خان نے بعض جگہ ایسی باتیں کہی ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی ہندوستان کی تقسیم کے حق میں تھے۔ 144افراد ہیں جنہوں نے یہ باتیں کہی ہیں۔ یہ سوچ آہستہ آہستہ بڑھتی رہی۔۔۔ کیوں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مغلیہ سلطنت کے زوال اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط میں آنے کے بعد یہ بات تو طے ہوگئی تھی کہ مسلمان حکومت کے جائز وارث ہیں کہ مغلیہ سلطنت ان کی تھی، وہ اتنے برسوں تک ہندوستان پر حکومت کرتے رہے تھے۔ دوسری طرف یہ بات ہندوؤں کے ذہن میں طے ہوگئی تھی کہ اگر دوبارہ مسلمانوں کو عروج مل گیا تو پھر یہ حکمران ہوجائیں گے اور ہم اتنے برس اور ان کی ماتحتی میں اپنی زندگی گزارتے چلے آئے ہیں، جبکہ ہم دھرتی کے بیٹے (son of soil) ہیں۔ دوسری طرف انگریز یہ سوچتا تھا کہ مسلمان جائز وارث ہیں۔ ہندو جتنا بھی مسلمانوں کے خلاف کام کرسکتے تھے، مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کی کوششیں کرسکتے تھے، سازشیں کرسکتے تھے، وہ انہوں نے کیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوتا چلا گیا کہ ہمیں اس ملک میں اپنا تشخص پیدا کرنا ہے اور اسی حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے یہ بات لکھی ہے کہ تحریک پاکستان بازیافت کی تحریک تھی، مسلمان اپنے آپ کو دریافت کرنا چاہتے تھے،کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے ہیں؟ اور ہمیں وہی ہونا ہے جو ہم تھے۔ اور جو ہم تھے وہ بغیر کسی ملک کے، بغیر کسی حکومت کے ہو نہیں سکتے تھے۔ ماتحت زندگی ہم نہیں گزار سکتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک پروان چڑھتی چلی گئی کہ ایک علیحدہ ملک ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال نے بلاشبہ یہ تجویز ایک سیاسی پلیٹ فارم سے پہلی دفعہ پیش کی تھی اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ تھا جس میں انہوں نے خطبہ دیا تھا، اور انہوں نے جو بات کہی تھی وہ مشروط تھی ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومتِ خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک تنظیم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔‘‘ یہ انہوں نے کہا تھا۔ لیکن بعد میں قراردادِ پاکستان میں آکر یہ بات اتنی واضح ہوگئی یا چودھری رحمت علی کے ہاں 1933ء میں اتنی واضح ہوگئی کہ ہندوستان تقسیم ہونا چاہیے اور مسلمانوں کا ایک علیحدہ خودمختار ملک ہونا چاہیے۔ اور یہ دیکھیے کہ قائداعظم کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں پر خاص طور پر کہ انہوں نے اس لمحے جب بات ہورہی تھی ہندوستان میں کہ مسلمان اقلیت ہیں اور ہندو اکثریت ہیں، قائداعظم نے 1940ء میں کہا کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں بلکہ وہ ایک علیحدہ قوم ہیں۔ تو یہ جو قوم کا تصور دے دیا ہے انہوں نے مسلمانوں کو، یہ وہ تصور تھا جس نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور ان کو یہ راہ دکھائی کہ ان کا ایک علیحدہ ملک ہونا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: قائداعظم اور اقبال کے تعلقات کے بارے میں کچھ بتائیے۔
خواجہ رضی حیدر: علامہ اقبال جزوی طور پر تو برصغیر کی سیاست سے منسلک تھے لیکن پنجاب میں جو سیاست تھی وہ ایک شخص کے گرد گھوم رہی تھی، جس کا نام تھا میاں فضل حسین، اور ایک لمحہ ایسا آیا کہ اقبال کو خیال آیا کہ اس مدار سے باہر نکلنا ہے۔ اور وہ اس مدار سے باہر نکل آئے تھے۔ اس لمحے میں قائداعظم نے یہ طے کیا کہ اب چونکہ گول میز کانفرنس انگلینڈ میں شروع ہورہی ہے اور اس میں برصغیر سے مندوبین جائیں گے مختلف سیاسی پارٹیوں کے، تو پنجاب سے جتنے بھی مندوبین جائیں گے وہ سب میاں فضل حسین نامزد کریں گے، کیونکہ ان کی پارٹی وہاں پر اکثریتی جماعت تھی۔ مسلم لیگ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو پتا چلے گا کہ 1929ء میں قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل میں یہ فیصلہ کیا کہ اب جو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوگا اس کی صدارت علامہ اقبال کریں گے۔ اُس وقت یہ ہوتا تھا کہ جو بھی مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتا تھا وہی مسلم لیگ کا صدر ہوتا تھا۔ جب علامہ اقبال مسلم لیگ کے صدر ہوجائیں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ پنجاب سے گول میز کانفرنس میں مندوب کی حیثیت سے جائیں گے، اس طرح سے میاں فضل حسین کا زور ختم ہوسکے گا۔ اسی طرح سید شمس الحسن نے جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری تھے، اُن کے نام قائداعظم کا ایک خط ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ جو ہم نے کونسل میں قرارداد منظور کی ہے علامہ اقبال کے حوالے سے، اس کی اطلاع اقبال کو میں دوں گا مسلم لیگ کے آفس سے، آپ نہ دیں! اس کا مطلب کیا تھا؟ کیا قائداعظم چاہتے تھے کہ علامہ اقبال قریبی رابطے میں آجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ گول میز کانفرنس کے دوران علامہ اقبال اور قائداعظم میں ایک بہت قریبی رابطہ رہا۔ چونکہ قائداعظم نے گول میز کانفرنس کے مذاکرات سے مایوس ہوکر لندن میں رہائش اختیار کرلی تھی، آل انڈیا مسلم لیگ ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی، اس کے تین چار ٹکڑے ہوگئے تھے، اس وقت مرکزی مسلم لیگ جو تھی اس نے یہ قرارداد منظور کی کہ قائداعظم کو دعوت دی جائے کہ وہ آکر آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت ازسرنو سنبھالیں اور برصغیر واپس آجائیں۔ یہ جو قرارداد مسلم لیگ کونسل نے منظور کی تھی اس سیشن میں علامہ اقبال بھی موجود تھے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کے تعلقات بہت گہرے تھے۔ ہندوستان میں جب مسلمان بہت منتشر تھے، مسلم لیگ منتشر ہوچکی تھی، کوئی آگے راہ نظر نہیں آرہی تھی اُس وقت ان دونوں رہنماؤں (اقبال اور قائداعظم)کی آپس کی ہم آہنگی نے مسلمانوں کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ روشن کیا۔ پھر 1936ء سے لے کر 1938ء تک علامہ اقبال کی قائداعظم سے خط کتابت موجود ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اقبال کس طرح سے قائداعظم کو چیزیں واضح کرتے رہے اور کس طرح انہیں بتاتے رہے کہ ہمیں آگے کس طرح سے چلنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: جب نہرو نے کہا کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری ہندو، تو اقبال نے قائداعظم کو خط لکھا؟
خواجہ رضی حیدر: جی، جب نہرو نے 1937ء میں یہ بات کہی کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہیں، ایک انگریز اور دوسری کانگریس۔ کانگریس کا مطلب یہ تھا کہ دوسری قوت ہندو ہیں، تو علامہ اقبال نے قائداعظم کو ایک خط لکھا کہ ایسا نہیں ہے، اور آپ یہاں اعلان کریں کہ تین قوتیں ہیں۔ تو قائداعظم کا اس کے بعد بیان آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں تین قوتیں ہیں ایک انگریز، دوسری کانگریس اور تیسری مسلم لیگ، یعنی مسلمان ہیں۔ کیوں کہ اس وقت تک مسلم لیگ کو قائداعظم مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بنا چکے تھے۔ اور اس طرح ان دونوں رہنماؤں کے باہمی تعلق کی وجہ سے بہت ساری دشواریوں اور پریشانیوں کے باوجود آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیمی حیثیت پنجاب میں مضبوط ہوئی۔
فرائیڈے اسپیشل: جس روز محمد علی جناح نے’’ وندے ماترم‘‘ کو کافرانہ ترانہ قرار دیا اُس روز بقول نذیر نیازی، علامہ اقبال بہت خوش ہوئے؟
خواجہ رضی حیدر: وندے ماترم اُس وقت ایک ایسا نعرہ تھا کہ اس وقت جن سات صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں 36-37ء کے انتخابات کے نتیجے میں، تو وہ لوگ اسکولوں میں مسلمان بچوں کو مجبور کرتے تھے کہ یہ ترانہ پڑھیں، تو مسلمان بچے پڑھ رہے تھے۔ جیسا کہ اس زمانے میں مسلم لیگ نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کے سربراہ پیرپور ریاست کے نواب تھے۔ جو کچھ ان کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا، جو مظالم روا رکھے، وہ سب اس پیرپور کمیٹی رپورٹ میں درج کیے گئے تھے، اسی کے نتیجے میں بعد میں قائداعظم نے جب کانگریس کی حکومتیں ختم ہوئیں اور مسلم لیگ کی جانب سے شدید احتجاج ہوتا تھا، یومِ نجات منانے کا اعلان کیا۔ اور اسی صورت حال کی وجہ سے 1940ء میں تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آگئے تھے۔ جب قراردادِ پاکستان منظور ہوئی ہے لاہور میں تو اُس وقت مسلمانوں میں کوئی افتراق اور انتشار نہیں تھا، سب ایک جگہ پر موجود تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: ولی خان، ڈاکٹر مبارک علی اور ان کی طرح کے بہت سارے لوگ یہ بات آج بھی کہتے ہیں، بائیں بازو کے لوگ بھی ان کے اس خیال کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تقسیم بنیادی طور پر برٹش ایمپائر کا آئیڈیا تھا، اور ایسا نہ ہوتا تو پاکستان نہ بنتا۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
خواجہ رضی حیدر: نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ جو آئیڈیا ہے ایک انگریز جان برائٹ نے دیا تھا جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ 1858ء میں اس نے یہ بات کہی تھی کہ پانچ یا چھ صوبے بالآخر مکمل اختیارات کے ساتھ آزاد مملکت بن جائیں گے۔ جس کے بارے میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ہندوستان کو تقسیم کردیا جائے تاکہ انتظامی امور بخوبی انجام دیے جاسکیں وہ بالکل ایک الگ چیز تھی، لیکن یہ جو تقسیم پاکستان اور ہندوستان کی ہوئی یہ خالص نظریاتی بنیادوں پر ہوئی، دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی۔ اور اس کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی انگریز کے آئیڈیے کے نتیجے میں ایسی تقسیم ہوئی۔
فرائیڈے اسپیشل: دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ 1940ء میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لنلتھ گو نے وائسرائے کونسل کے رکن سر ظفر اللہ خان سے تقسیم ہند پر نوٹ تیار کرنے کو کہا۔ لارڈ لنلتھ گو نے وہی نوٹ قائداعظم کو دے دیا اور قائداعظم نے اسے 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کروا لیا۔ بعدازاں اسے قراردادِ پاکستان کا نام دے دیا گیا؟
خواجہ رضی حیدر: دراصل یہ سارے لوگ ٹکڑوں میں تاریخ پڑھنے کے عادی رہے ہیں، جہاں سے انہیں اپنے مطلب کی بات نظر آتی ہے وہاں سے اٹھالیتے ہیں۔ یہ سوچیے، 1940ء میں جو قراردادِ پاکستان پیش ہوئی ہے، لاہور میں اس کے لیے 1937ء میں پوری ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی، پیرعلی محمد راشدی بھی اس کمیٹی میں تھے، اور جو تجاویز سامنے آئی تھیں ان کو سامنے رکھ کر یہ قرارداد مرتب کی گئی تھی۔ یہ تو تاریخ کا حصہ ہے اور کتابوں میں سب کچھ موجود ہے۔ مبارک علی صاحب ہوں یا اور کوئی۔۔۔ یہ اپنے مطلب کی بات کہتے ہیں کہ یہ انگریز کی تجویز تھی۔ حالانکہ لارڈ لنلتھ گو سے قائداعظم کی مسلسل خط کتابت مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے رہی ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے، اور تاریخی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ یہ بات اپنی جگہ پر غلط ہے۔ اور سر ظفر اللہ خاں کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں سر ظفر اللہ خاں نے یہ قرارداد نہیں لکھی تھی تو ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ مولانا ظفر علی خاں تھے جن سے قائداعظم نے اس قرارداد کے لیے کہا کہ آپ اس کا ترجمہ کیجیے، تو انہوں نے ممدوٹ ہاؤس لاہور میں بیٹھ کر ترجمہ کیا۔ اور اس پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ظفر علی خاں کی جگہ پر سر ظفر اللہ خاں ڈال دیا گیا ہے، جبکہ ظفر علی خاں بنیادی آدمی تھے اُس وقت جو وہاں پر کام کررہے تھے۔ یہ سب گھڑی ہوئی کہانی ہے اور تمام واقعات کو اس طرح سے آپس میں جوڑ لیا گیا ہے۔
’’ یہاں یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ خان عبدالغفار خان کے پشتونستان کے نعرے پر بھی گفتگو کرلی جائے۔ تحریک پاکستان کے دوران بھی اور اپنی آخری سانس تک خان عبدالغفار خان ایک ہی بات دہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ مسلم لیگ کو انگریزوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اس کے برخلاف خود ان کی سیاست انگریزوں کے تابع تھی، اس بات کا ثبوت گورنر سرحد سراولف کیرو کے اس خط سے ملتا ہے جو انہوں نے بمبئی کے گورنر سرجے کول ولی کے نام 22 مئی 1947ء کو گورنر کیمپ پارا چنار سے لکھا تھا۔ اس خط کا انگریزی میں عکس ٹرانسفر آف پاور پیپر سے یہاں شامل کیا جارہا ہے تاکہ کسی قسم کا مغالطہ اور ابہام باقی نہ رہے‘‘۔ انگریز گورنر سرحد اس میں کہتا ہے ’’سیاسی میدان میں دلچسپ مقامی تبدیلی یہ ہے کہ خان عبدالغفار خان اور میری وزارت نے اس موضوع کا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے جس کا مشورہ میں نے ان کو چند ماہ پہلے دیا تھا، مشورہ یہ تھا کہ اگر ممکن ہو تو اتحاد کی بنیاد پر ایک پٹھان قومی صوبہ قائم ہوجائے۔ جب میں نے یہ تجویز ان کے سامنے رکھی تو اس پر انہوں نے بڑے جوش و جذبے کا اظہار کیا۔ یہ بڑی حد تک ایک اچھا موضوع ہے اور یہ ’اسلام خطرے میں ہے‘ کے نعرے کے مقابلے میں زیادہ تعمیری اور مؤثر ہے، اگرچہ اس کی شروعات کافی تاخیر سے ہوئی لیکن میرے اندازے کے مطابق یہ کمزور نہیں بلکہ پُراز قوت ہے۔ پٹھانستان اپنے وجود کو معاشی طور پر قائم نہیں رکھ سکتا، یا اپنے پیروں پر کھڑا نہیں رہ سکتا، بلکہ اس کی اصل کمزوری تو یہ ہے کہ پٹھان ہنوز اس لحاظ سے غیر متحد رہے ہیں کہ وہ ایک مضبوط ریاست قائم کرسکیں، اور جہاں کہیں بھی ان کی حکمرانی قائم ہوسکی تو غیر اقوام پر ہوسکی ہے، لیکن وہ اپنے آپ ہمیشہ ایک طوائف الملوکی کا شکار رہے ہیں تاآں کہ ہم نے آکر ان کے معاملات درست کیے (یعنی انگریز نے) درحقیقت افغانستان بھی ہنوز ایک پٹھان ریاست نہیں ہے‘‘۔
ابوالکلام آزاد کی ایک تقریر مختلف چینلز پر چلی اور سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی جس میں انہوں نے مسلمانوں سے خطاب کیا ہے کہ کہاں جارہے ہو؟ اور کیا کررہے ہو؟ یہ دیکھیے کہ ابوالکلام آزاد پر سب سے بڑا محقق اگر پاکستان میں کوئی ہے تو وہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری ہیں۔ ان کا انٹرویو پچھلے دنوں شائع ہوا جس میں انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ یہ تقریر جھوٹی ہے۔ انٹرویو کرنے والے نے ان سے سوال کیا کہ مشہور ٹی وی چینل پر مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تقریر نشر کی گئی اور آپ چونکہ مولانا آزاد پر اتھارٹی ہیں اس لیے آپ بہتر بتاسکتے ہیں کہ یہ تقریر کہاں سے حاصل کی گئی، تو انہوں نے جواب میں فرمایا ’’جنابِ والا مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ تقریر محض فراڈ ہے، میرے ایک شاگرد قاری یوسف نے مختلف تقریروں کے ٹکڑے جوڑ کر خود اپنی آواز میں ریکارڈنگ کرائی، کہیں کلکتہ،کہیں دہلی اور کہیں کانگریس سے جستہ جستہ چمن میں بکھری داستان کے ورق اٹھا کر تقریر بناڈالی ہے، مجھ سے کہا تھا کہ آپ ایک مبسوط تقریر مولانا کی بنالیں، مگر میں نے صریح انکار کردیا کہ یہ قوم کے ساتھ مذاق ہے اور مولانا کی بھی تضحیک ہے۔ میں اس علمی فراڈ میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اسے بھی روکا مگر وہ نہ مانا، اور اب تو ایک چینل نے نشر بھی کردی ہے‘‘۔ یہ ان کے الفاظ ہیں جوپاکستان میں اتھارٹی ہیں مولانا ابوالکلام آزاد پر۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ابوالکلام آزاد کی مختلف تقریروں سے ٹکڑے جوڑ لیے۔ اصل میں یہ سازش تھی کہ وہ جو ہمارے یہاں پاکستان میں ایم کیو ایم کی وجہ سے ایک مہاجر کا تصور بہت زیادہ سامنے آگیا تھا، اس تصور کو مزید تقویت دینے کے لیے یہ تقریر چلوائی گئی تھی۔
فرائیڈے اسپیشل: مسلم لیگ 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ میں قائم نہیں ہوئی۔ بنگال کی سرزمین میں ایسی کیا بات تھی جس کی وجہ سے مسلم لیگ وہاں پر قائم ہوئی اور جداگانہ تشخص کی سیاست کا آغاز ہوا؟
خواجہ رضی حیدر: بات یہ ہے کہ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا ڈھاکہ میں اجلاس تھا۔ اُس وقت مختلف علاقوں میں اس کے اجلاس ہوا کرتے تھے، اُس دفعہ اجلاس بنگال میں ہونا تھا اور اس اجلاس کی سرمایہ کاری اور اس کا پورا انتظام نواب سر سلیم اللہ خاں نے کیا تھا جو ڈھاکہ کے نواب تھے۔ لہٰذا یہ اجلاس وہاں پر منعقد ہوا تھا۔ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس ختم ہوا تو اس کے جو مسلمان مندوبین وہاں موجود تھے انہوں نے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کی ایک علیحدہ سیاسی جماعت قائم کی جائے اور موقع سے فائدہ اٹھاکر اس کا اجلاس کرلیا جائے۔ لہٰذا وہ اجلاس وہاں پر ہوا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی علاقائی یا قومیتی بنیاد پر کوئی اجلاس ہوا ہو، بلکہ بدستور مختلف علاقوں میں منعقد ہونے والی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں سے ایک کانفرنس تھی جو ڈھاکہ میں منعقد ہوئی اور تمام ہندوستان کے اکابرین وہاں پر جمع ہوئے تھے، اور جب یہ اجلاس ہوا تو اس وقت شملہ ڈیپوٹیشن مل چکا تھا، وائسرے لارڈ منٹو کے سامنے مسلمانوں کے مطالبات رکھے جاچکے تھے، لہٰذا وہاں پر موجود لوگوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈال دی۔ اور ایسا نہیں تھا کہ پہلی بار مسلمانوں کی کوئی سیاسی جماعت بن رہی تھی، بلکہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں کی دو سیاسی جماعتیں بن چکی تھیں۔ ایک نواب محسن الملک نے بنائی تھی ’’محمڈن پولیٹکل آرگنائزیشن‘‘، اور یہ جو ’’اردو ڈیفنس‘‘ تھی یہ بھی ایک طرح کی سیاسی جماعت تھی، مگر چونکہ پورے ہندوستان کے بڑے اکابرین ڈھاکہ میں موجود تھے، لہٰذا مسلم لیگ کی بنیاد پڑگئی۔
فرائیڈے اسپیشل: تحریک پاکستان میں بنگال کی زمین اور بنگالی قوم کتنی متحرک تھی، کیسا اس کا جذبہ تھا؟
خواجہ رضی حیدر: صرف اس بنیاد پر آج ہم بنگالیوں کی اس وفاداری کو نظرانداز کردیں جو انہوں نے تحریک پاکستان سے کی تھی، یا جو انہوں نے بحیثیت مسلمان جدوجہد کی۔ بنگال میں بہت ساری تحریکیں چلتی رہیں۔ دوسری طرف آپ سے ایک بات اور عرض کردوں کہ جب اپریل1946ء میں مسلم لیجسلیچر کنونشن ہوا تو حسین شہید سہروردی نے ایک قرارداد پیش کی تھی، اُس وقت تک لوگ قراردادِ پاکستان میں اسٹیٹ کے لفظ سے واقف تھے، انہوں نے کہا تھا کہ اسے ہم ایک کرلیتے ہیں۔ یعنی بنگال مشرقی حصہ اور مغربی حصہ دونوں کی تحریک ایک کردی جائے، اور اس طرح وہ ایک قرارداد پیش کی تھی۔ اور مسلم لیجسلیچرکنونشن ایسے موقع پر ہوا جب ہم انتخابات جیت چکے تھے اور یہ طے ہوچکا تھا کہ اب پاکستان بن جائے گا، کیونکہ بہت واضح اکثریت سے مسلمانوں نے انتخابات جیتے۔ اس وقت جب یہ قرارداد پیش کی گئی تو ایک عجیب بات ہوئی، وہ یہ کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی نے سہروردی کی قرارداد کو تسلیم کیا، جبکہ بعد میں وہ بنگلہ دیش کی تحریک میں شامل رہے۔ اس کو کیا کہا جاسکتا ہے؟ جبکہ اُس وقت تک تو وہ پاکستان کے حق میں تھے، بعد میں ان میں تبدیلی آئی۔
فرائیڈے اسپیشل: جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بن گیا، اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ کیوں نہیں رہ سکا؟
خواجہ رضی حیدر: حقیقت یہ ہے کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا آج بھی وہ دو قومی نظریہ موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ ختم ہوگیا ہے۔ کیا یہ دو قومی نظریے کی پائیداری کا ثبوت نہیں ہے کہ جب بیت المکرم مسجد (کراچی) میں اذان ہوتی ہے تو وہاں ڈھاکہ میں بھی بیت المکرم میں اذان ہوتی ہے، وہاں کوئی بھجن تو نہیں گایا جاتا۔ تو اسلامیت تو اپنی جگہ پر موجود ہے دونوں جگہ۔ وہ اب اپنے علاقے میں یہ تصور کرسکتے ہیں یا تصور کرتے ہوں گے کہ وہاں پر ہندوؤں کی اتنی اکثریت ہے اور وہاں پر بھی دو قومی نظریے کے تحت ہی زندگی گزار رہے ہیں، کہ ہندو الگ ہیں اور ہم الگ ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: بعض لوگ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے 1948ء میں پاکستان کی قومی زبان اردو کو بنانے کی بات کی، جس کی بنا پر اردو بنگالی تنازع برپا ہوا اور اس ردعمل کا آغاز ہوا جو بالآخر پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ کیا قائداعظم کو واقعی اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی؟
خواجہ رضی حیدر: اس میں ایک بات ہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ یہ بات قائداعظم نے1938ء میں بھی کہی کہ مسلمانوں کی قومی زبان اردو ہے، اور پھر 1940ء کے بعد انہوں نے باقاعدہ یہ بات کہی ہے اور بار بار کہی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، اور اسی کی بنیاد پر ایک محقق نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے جس کی اب تک مجھ سے تصدیق نہیں ہوسکی کہ اصل میں فروری 1948ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں جو ایک قرارداد پیش ہوئی جس میں کہا گیا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی اور وہ منظور کی گئی، تو قائداعظم نے جب ڈھاکہ میں یہ بات کہی تو وہ اپنا فیصلہ نہیں سنا رہے تھے۔ اس اسمبلی کے فیصلے کی روشنی میں انہوں نے وہ بات وہاں کہی تھی۔ تو یہ بات تو ہمیشہ سے ہوتی رہی۔ اب آپ دیکھیں کہ سندھ میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ سندھی قومی زبان ہوگی تو پنجاب کہاں جائے گا؟ بلوچستان کہاں جائے گا؟ سرحد کہاں جائے گا؟ تو سندھی تو قومی زبان نہیں ہوسکتی۔ سندھی ایک صوبے کی زبان ہوسکتی ہے۔ تو بنگالی اُس وقت ایک صوبے کی زبان تو ہوسکتی تھی لیکن قومی زبان نہیں ہوسکتی تھی۔ تو قائداعظم نے اگر یہ بات کہی تھی تو انہوں نے کوئی غلط نہیں کہا تھا۔ چونکہ وہاں ایک ایسا عنصر موجود تھا یعنی ہندو۔۔۔ اُس نے یہ بات وہاں کے مسلمانوں کو غلط انداز میں باور کرائی اور اس بات سے مسلمانوں کو متنفر کیا اور وہاں ہنگامے شروع ہوگئے۔ پھر آپ پورا دورِ ایوبی دیکھ لیجیے، کیا اس دور میں ریڈیو پاکستان سے بنگالی اور اردو میں خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں؟ پابندی کے ساتھ ہوتی تھیں، حتیٰ کہ مولانا حسن مثنیٰ ندوی حریت میں ہوتے تھے اور جب دفتر میں آتے اور اداریہ لکھنا ہوتا تھا تو بنگالی میں ہی خبریں سنتے تھے حالانکہ اُن کا بنگالی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو ہماری سماعتیں بنگالی سے اتنی آشنا ہوچکی تھیں اُس وقت تک۔ اور ظاہر ہے کہ بنگالی زبان کو ہم قومی زبان کے طور پر تو تسلیم نہیں کرسکتے تھے، لیکن ایک علاقائی زبان تھی، ایک بڑے صوبے کی زبان تھی اس کو ہم نے اہمیت دی۔ ریڈیو کے علاوہ ٹی وی جب شروع ہوا تو اس پر بھی بنگالی پروگرام نشر ہوا کرتے تھے۔ ہم نے بنگالیوں کو اپنے قومی ترانوں میں شریک کیا۔ یہ جیوے جیوے پاکستان کس کا پڑھا ہوا ہے؟ ایک بنگالی گلوکارہ کا۔ لیکن ان کے اندر اتنی نفرتیں بٹھا دی گئی تھیں کہ وہ کسی صورت بھی دور نہیں ہوسکتی تھیں، اور مجھے پتا نہیں کہنا چاہیے یا نہیں کہ بھٹو صاحب نے منتخب ہوکر ان نفرتوں کو زیادہ ہوا دی، کیونکہ ان کی مشرقی پاکستان میں کوئی سیٹ نہیں تھی وہاں مجیب الرحمن کی اکثریت ہوگئی، یہاں ان کی اکثریت ہوگئی۔ اور جب مجیب الرحمن نے کہا کہ مرکزی حکومت میں ہم ہوں گے، دارالخلافہ ہمارا ہوگا تو بھٹو صاحب نے ہی تو یہ بات کہی کہ ادھر تم اِدھر ہم!
(جاری ہے)
کبھی مکاں میں کبھی رہ گزر میں رہتے تھے
یہ روز و شب تو ہمیشہ نظر میں رہتے تھے
ہوا کی راہ میں اڑتی تھی زندگی اپنی
مثال موج کبھی ہم بھنور میں رہتے تھے
محبتوں میں بہت دل دھڑکتا رہتا تھا
عجیب لوگ دل معتبر میں رہتے تھے
ہمیں بھی شوق تھا کچھ تتلیاں پکڑنے کا
تمام رنگ مگر چشم تر میں رہتے تھے
خزاں سے پہلے یہاں کا عجیب موسم تھا
ثمر کی طرح پرندے شجر میں رہتے تھے
گریز پائی کا شکوہ کریں تو کس سے کریں
سفر میں رہ کے بھی ہم لوگ گھر میں رہتے تھے
ہوا کے ساتھ زمانہ بدل گیا ہے رضی
ہمیں تھے وہ جو کبھی اس نظر میں رہتے تھے
خواجہ رضی حیدر