گزشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ ایران کے اسلامی انقلاب کی چالیس سالہ تقریبات میں شرکت کے سلسلے میں ایران جانے کا موقع ملا۔ہمیں اس دورے کی دعوت پشاور میں ایرانی قونصل جنرل جناب باقر بیگی کی جانب سے دی گئی تھی، جو نہ صرف ایک نفیس اور بہترین انسان ہیں بلکہ پاکستانیوں اور بالخصوص اہلِ قلم سے عقیدت کی حد تک محبت رکھتے ہیں۔ ہمارا وفد 6 افراد پر مشتمل تھا جس کی قیادت خیبر پختون خوا کے سینئر کالم نگار اور اباسین کالم رائٹرز ایسوسی ایشن کے صدر جناب ضیاء الحق سرحدی نے کی، جب کہ وفد کے دیگر شرکاء میں سینئر صحافی اور کالم نگار جناب شمیم شاہد کے علاوہ روشن خٹک، وسیم شاہد، عابد اختر حسن اور راقم الحروف شامل تھے۔ جناب شمیم شاہد کا ایران کا یہ تیسرا، جبکہ راقم الحروف کا دوسرا دورہ تھا۔ شروع میں ہمارا یہ دورہ 14 دنوں پر مشتمل تھا جس میں ہمیں مشہد، قم، تہران، اصفہان اور نیشاپور جانا تھا، لیکن بعد میں بعض دوستوں کی خواہش پر اس دورے کو دس دنوں پر محیط کرتے ہوئے اصفہان اور نیشاپور کو ڈراپ کرکے مشہد، قم اور تہران تک محدود کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ ہماری پہلی منزل مشہد شہر تھا جہاں ہم لاہور سے ماہان ایئرلائن کے ذریعے ساڑھے تین گھنٹوں کی مسافت طے کرکے رات تقریباً 8 بجے مشہد ایئرپورٹ پر اترے۔ ایئرپورٹ سے کلیئرنس اور تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد 9 بجے ہوٹل پہنچے۔ اگلے تین دن ہم نے مشہد میں گزارے جہاں حسین زادے نے جو انتہائی ملنسار لیکن کم گو انسان تھے، ہماری میزبانی اور رہبری کی، جبکہ مشہد میں زیر تعلیم میانوالی سے تعلق رکھنے والے عون محمد نقوی نے جنہیں فارسی پر مکمل عبور تھا، ترجمانی کے فرائض انجام دیئے۔ مشہد میں تین روزہ قیام کے دوران کئی مذہبی، تاریخی، ثقافتی اور سیاحتی مقامات کی سیر کے علاوہ ہمارے دورے کی خاص بات یہاں روضہ امام رضا کمپلیکس کے کئی اہم سیکشنز جن میں امور غیر ملکی زائرین کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ہاشمی نژاد جو کہ انقلابِ اسلامی کے بانی شہید آیت اللہ عبدالکریم ہاشمی نژاد کے برخوردار ہیں، سے تفصیلی نشست کے علاوہ اسلامک ایجوکیشن ریسرچ آرگنائزیشن کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان رحیمی، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مرکز امام رضا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محی الدین، اورادارہ برائے مطالعہ وسط ایشیا و افغانستان کے سربراہ فیاض عباس اور ان کی ٹیم سے تفصیلی تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ مشہد کے تاریخی عجائب گھر اور انٹرنیشنل سینٹرل لائبریری کا دورہ اور بریفنگ میں شرکت خصوصی اہمیت کی حامل مصروفیات تھیں۔واضح رہے کہ مشہد ایران کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہے، جس کی مجموعی آبادی تقریباً تیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ سیکڑوں سال پر مشتمل مشہد کی تاریخ کو اصل اہمیت یہاں مدفون اہلِِ تشیع کے آٹھویں امام حضرت علی ابن موسیٰ رضا کے روضہ اقدس کی وجہ سے حاصل ہے۔ مشہد تاریخی شہر طوس کے قرب میں واقع ہے جو زمانۂ ماضی میں مملکتِ خراسان کا پایۂ تخت رہ چکا ہے۔ موجودہ مشہد شہر ایران کے شمال مشرقی صوبے رضوی خراسان کا دارالحکومت ہے۔ مملکت خراسان ماضی میں ایران کے موجودہ تین صوبوں شمالی خراسان، جنوبی خراسان اور رضوی خراسان کے علاوہ افغانستان کے بعض شمال مغربی علاقوں ہرات، فرح، غزنی، غور، نمروز اور ہلمند کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کی موجودہ ریاستوں ترکمانستان اور تاجکستان کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی، البتہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے وسط میں موجودہ افغانستان کے وجود میں آنے اور اسی صدی کے نصف آخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں وسطی ایشیائی ریاستوں بشمول خراسان کے روسی تسلط میں جانے کے بعد نہ صرف یہ تمام علاقے بلکہ خراسان بھی کچھ عرصے کے لیے روس کے زیراثر چلے گئے تھے۔ 2004ء میں ایران کی انقلابی حکومت نے خراسان کو تین صوبوں شمالی، جنوبی اور رضوی خراسان میں تقسیم کرکے مشہد کو وسطی خراسان جسے روضہ امام رضا کی مناسبت سے رضوی خراسان کا نام دیا گیا، کا دارالحکومت بنایا گیا۔ یاد رہے کہ مشہد کی تاریخی، مذہبی اور ثقافتی اہمیت کے تناظر ہی میں 2012ء میں اُس وقت کے ایرانی صدر احمدی نژاد نے مشہد کو عالم اسلام کا تیسرا بڑا روحانی مرکز قرار دیا تھا۔
مشہد شہر کے شمال میں قائم حضرت امام رضا کا مزار جو عملاً ایک بڑے وسیع وعریض کمپلیکس پر مشتمل ہے، نہ صرف حضرت امام رضا کے لاکھوں، کروڑوں عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے بلکہ اس کمپلیکس کو بڑے پیمانے پر اتحادِ امت، مذہبی یک جہتی و یگانگت، اخوت وبھائی چارے اور انسانیت کی خدمت کے لیے جس احسن انداز میں بروئے کار لایا جارہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ امام رضا کے روضے کی وجہ سے مشہد شہر مذہبی کے ساتھ ساتھ سیاحتی نقطہ نظر سے بھی پوری دنیا میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ پچیس تیس لاکھ ایرانی زائرین کے علاوہ دنیا بھر سے بیس پچیس لاکھ غیر ملکی زائرین اور سیاح بھی زیارت اور سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں تہران کے بعد ہوٹلوں اور سرائے کی تعداد ایران بھر میں سب سے زیادہ ہے جسے حکومت کی جانب سے کئی مراعات کی شکل میں باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا گیا ہے۔ مشہد میں حال ہی میں نوجوانوں کے لیے ایک ثقافتی اور تربیتی مرکز جوکہ 180 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے، طرقبہ کے پُرفضا مضافاتی علاقے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پارک سے پہلے بہت کم استفادہ ہوتا تھا، لیکن اس تربیتی کیمپ کو جو ایک باغ میں قائم کیاگیا ہے، نوجوانوں کے لیے اب ایک ثقافتی و تربیتی کیمپ کے طور پر مخصوص کردیا گیا ہے، جس کے ذریعے نوجوانوں کو جسمانی ورزش اور کھیل کود کی جدید سہولیات دستیاب ہوں گی۔ رضوی اسپتال مشہد کا سب سے بڑا اور جدید اسپتال ہے جہاں سابقہ طبی سہولیات کے علاوہ حال ہی میں سیریس مریضوں کی خصوصی نگہداشت اور دیکھ بھال کا دوسرا سیکشن(ICU2)، دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کی خصوصی دیکھ بھال کا چوتھا سیکشن(CCU4)، ہیلتھ سیاحت کے شعبے میں مریضوں کی خصوصی دیکھ بھال کا سیکشن (CCU IPD) اور اس کے علاوہ پتھری ختم کرنے کا سیکشن قائم کیا گیا ہے۔ ان سیکشنز کو سو ارب ریال سے زائد کی خطیر لاگت سے تیار کیا گیا ہے۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران اس اسپتال میں علاج معالجہ کے لیے آنے والے زائرین اور سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، فقط پچھلے نو مہینوں میں دس ہزار سے زائد سیاحوں نے علاج معالجہ کے لیے اس طبی مرکز کی خدمات حاصل کی ہیں۔
مشہد میں کئی جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے علم و تحقیق کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان درجن سے زائد جامعات میں سائنس و ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، زراعت، سماجی وسیاسی علوم سے لے کر دینی اور طبی علوم کی اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم دی جا رہی ہے۔ ان جامعات کی پالیسی اور ہدف یہ ہے کہ ان علوم میں ماہر اور ذمہ دار افراد کی ایسی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے جس سے ایرانی معاشرے کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کی مشکلات حل اور ضروریات پوری کی جا سکیں۔ ان جامعات میں ہزاروں ایرانی طلبہ کے ساتھ ساتھ سیکڑوں غیر ملکی طلبہ بھی حصولِ تعلیم میں مصروف ہیں، جن میں پاکستان اور افغانستان کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ امام رضا بین الاقوامی یونیورسٹی یہاں قائم اُن چند یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کو جداگانہ تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی طرح آستان قدس رضوی کے میوزیم ایران کے بڑے میوزیم میں شمار ہوتے ہیں،جہاں سالانہ حاضری دینے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ حضرت امام رضا کے روضہ کے پہلو میں واقع اس میوزیم میں موجود تاریخی و ہنری آثار کی نسبت دستیاب معلومات بآسانی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس تاریخی میوزیم کی عمارت صحن کوثر میں واقع ہے جو نو مختلف حصوں پر محیط ہے، جس میں حرم مطہر رضوی کا تاریخی خزانہ، ڈاک ٹکٹ اور قدیمی نوٹس، گھڑی، گھڑیال اور علم نجوم، قدیم و جدید اسلحہ، قدیم و جدید برتن، مجسمے، دریائی ذخائر جیسے صدف، سکے اور تمغے وغیرہ شامل ہیں۔
مرکزی میوزیم کے ساتھ ہی قالینوںکے میوزیم کی تین منزلہ عمارت ہے، جس میں مشینوں کے ساتھ ساتھ ہاتھ کے مخصوص کھڈیوں پر بنے ہوئے چھوٹے بڑے مختلف اقسام، ڈیزائنوں اور رنگوں کے بیش بہا قالین سجائے گئے ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کے نفیس و نایاب نسخوں کا میوزیم بھی ان ہی میوزیم کے قریب واقع ہے جس میں دنیاکے مختلف خطوں کے عظیم و نایاب نسخے رکھے گئے ہیں۔ ان میوزیموں کا ایک حصہ بعض دیگر قیمتی اشیاء کے لیے مخصوص ہے جس میں دنیا بھر سے نایاب اشیاء کے علاوہ مختلف ممالک کے سربراہان کی جانب سے ایرانی راہنمائوں کو تحفہ کی جانے والی قیمتی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ ان میوزیمز میں ایران کے عالمی شہرت یافتہ مصور اور فنِ خطاطی کے ماہر استاد محمود فرشچیان کے ہاتھ کی بنائی گئی خوبصورت اور نایاب پینٹگیں بھی رکھی گئی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ پینٹگیںفنِ مصوری اور بے شمار رنگوں کا ایک ایسا خوبصورت شاہکار ہیں جن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ یہاں80 ہزار مربع میٹر رقبے پر ایک نیا میوزیم تعمیر کیا جارہا ہے جس کی تکمیل کے بعد تمام وہ چیزیں جن کی تعداد آٹھ ہزار ہوگی، کو سات مختلف موضوعات کے تحت اس میوزیم میں رکھا جائے گا۔
امام رضا کمپلیکس کی مرکزی لائبریری مشہد کا ایک اور ایسا ثقافتی مرکزہے جس کی نظیر پورے مشرق وسطیٰ میں نہیں ملتی۔ یہ عظیم لائبریری ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد قائم کی گئی ہے جس کی وسعت میں روز بروز مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس مرکزی لائبریری کے ساتھ مشہد شہر میں بیس، جبکہ ملکی سطح پر بائیس لائبریریں منسلک ہیں۔ یہ لائبریری جسے مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اور جامع لائبریری ہونے کا اعزاز حاصل ہے، 14 سال کی محنتِ شاقہ کے نتیجے میں قائم کی گئی ہے، جس میں 92 زبانوں پر مشتمل 40لاکھ کتب ذخیرہ کی گئی ہیں۔ اس لائبریری کے عمومی اوقاتِ کار بلاتعطل صبح سات سے شام سات بجے تک ہیں، البتہ محققین اس لائبریری سے رات بارہ بجے تک استفادہ کرسکتے ہیں۔ یہاں مختلف شعبوں میں تین شفٹوں کے تحت کام کرنے والے ملازمین کی تعداد چھے سو کے لگ بھگ ہے۔ اس لائبریری کی ایک اور خاص بات یہاں ایک لاکھ الیکٹرانک کتب کی دستیابی کے علاوہ مختلف شعبوں میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالرزکے لیے ایک خصوصی حصے کا مختص کیا جانا ہے، جہاں ایک وقت میں کئی اسکالر آرام دہ اور پُرسکون ماحول میں لائبریری سے بیک وقت بیس تا چالیس کتب کا اجراء کراکے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس لائبریری کی ایک اور خاص بات جہاں بچوں،خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ حصوں کا مختص کیاجانا ہے وہیں کتب کے مختلف امراض کی تشخیص اور علاج کے لیے ایک کتب اسپتال کا قیام بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جہاں دودرجن سے زائدماہرین کتب کے مختلف امراض کی تشخیص،تحقیق اور علاج پر مامور ہیں،جبکہ یہاں کتب کی ترسیل اور دستیابی کا ایک جدید الیکٹرانک سسٹم بھی نصب کیاگیا ہے جس کے تحت کسی بھی کتاب کی طلب پر مطلوبہ کتاب دس سے پندرہ منٹ کے وقفے سے بآسانی مل جاتی ہے، جب کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسی نظام کے تحت کتب کی دستیابی کا عمومی دورانیہ چار سے پانچ گھنٹے ہے جس سے مشہد کی اس تاریخی اور جدید لائبریری کی افادیت اور اس کی فعالیت میں متعلقہ اداروں اور شخصیات کی توجہ اور دلچسپی کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے جو ایرانی قوم اور قیادت کی علم دوستی اور وسعتِ نظر کا واضح اورمنہ بولتا ثبوت ہے۔