طاقت اور صرف طاقت کے استعمال نے کشمیرکو بھارت کے لیےدلدل بنا دیا ہے
کشمیریوں کو روز تکلیف اور دکھ دینے والا بھارت آج اپنے 42 فوجیوں کی ہلاکت پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ نہتے اور ٹین ایجر لڑکوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے آج خود اپنی آگ میں جل رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے ایک مقامی کشمیری نوجوان عادل ڈار کی کارروائی کو پاکستان کے سر منڈھ دیا ہے۔ عادل ڈار کے والدین کہتے ہیں کہ ایک سال قبل بھارتی فوجیوں نے اسکول سے آتے ہوئے اسے دوسرے لڑکوں کے ساتھ مرغا بنایا اور ناک رگڑوائی۔ اس تضحیک نے عادل کو ایک امن پسند طالب علم سے عسکریت پسند بنادیا اور گزشتہ مارچ سے وہ گھر سے لاپتا ہوگیا۔ عادل ہی نہیں، یہ کشمیر کے ہر حریت پسند اور ہر سنگ باز کی کہانی ہے۔ برہان وانی اور ان کے بھائیوں کو بھی عسکریت کا راستہ اسی ناروا اور عزتِ نفس مجروح کرنے والے سلوک نے بنایا تھا۔ آج کشمیری بچوں کو جس طرح بھارتی فوجی ذلت آمیز سلوک کا شکار بنائے ہوئے ہیں اس کی سنگینی اِس قدر ہے کہ پھر یہ نوجوان اپنی باقی زندگی کو بے مقصد اور بوجھ سمجھتے ہیں، اور اس زندگی کو کسی عظیم مقصد کی خاطر قربان کرنے کی طلب میں عسکریت کا راستہ اپناتے ہیں۔ ردعمل کا جذبہ اس میں مزید رنگ بھرتا ہے، اور یوں کشمیر میں ایک کے بعد دوسرا المناک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ بھارتی حکومت اور ساڑھے آٹھ لاکھ فوجی اپنی حرکتوں اور پالیسیوں کے بجائے اس پوری تحریک کو پاکستان کی حمایت کی عینک سے دیکھتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ بھارت اس مسئلے کے حل تک پہنچنے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید دور ہوتا چلا جارہا ہے۔ انہی نوجوانوں کے بارے میں کسی پاکستانی اور مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کے اپنے وزیر خارجہ یشونت سنہا کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’کشمیر میں بھارتی فوج کا سامنا موت کے خوف سے آزاد و بے نیاز نسل سے ہے جو موت سے گھبرانے کے بجائے اس کی جانب لپکتی جارہی ہے، یہ سب سے خوفناک بات ہے‘‘۔ یشونت سنہا نے یہ کہہ کر بھارت کے لیے خطرے کی ایک گھنٹی بجادی تھی۔ اس تبصرے میں بھارت کے پالیسی سازوں کے سیکھنے کے لیے بہت سبق تھا، مگر بھارت کی حکومت طاقت کے نشے میں بدمست ہے۔ بھارت نے کشمیر کی صورتِ حال کا ایک جہتی حل ذہن میں سجائے اور بسائے رکھا، وہ حل تھا طاقت کا اندھا دھند استعمال۔ اس پالیسی نے کشمیری سماج کو قبروں اور لاشوں کے علاوہ پیلٹ گن کے باعث بے نور نوجوانوں کی ایک فوج کا تحفہ تو دیا مگر بھارت اپنے مقصد کی جانب ایک انچ بھی پیش قدمی نہ کرسکا۔ حق بات تو یہ تھی کہ بھارت کشمیر میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے کشمیری حریت پسندوں اور پاکستان کے ساتھ سہ فریقی یا تکونی مذاکرات پر آمادہ ہوتا، جیسا کہ واجپائی اور من موہن سنگھ کے ادوار میں ہوا تھا، تاکہ مسئلے کے حل کی ایک امید پیدا ہوتی۔ مگر طاقت اور صرف طاقت کے استعمال کی پالیسی نے کشمیر کو بھارت کے لیے دلدل بنائے رکھا۔ مودی حال ہی میں کشمیر گئے تو بھی اُن کے لبوں پر کشمیری نوجوانوں کے لیے دھمکیاں ہی تھیں۔ بھارت کی اس پالیسی کا لاوہ عادل ڈار کی کارروائی کی صورت میں پھٹ پڑا جسے تین عشروں سے جاری مسلح تحریک کی سب سے بڑی کارروائی کہا جارہا ہے۔
بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات میں ایک ماہ کا عرصہ باقی ہے اور مودی پانچ ریاستوں میں شکست کے بعد ایک بڑی شکست کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ اس واقعے نے مودی کی ڈولتی ہوئی کشتی کو استحکام دیا۔ بھارت غصے اور ردعمل میں آگ بگولا ہورہا ہے۔ بھارتی رائے عامہ حکومت سے بدلے کا مطالبہ کررہی ہے۔ بدلہ کس سے؟ کشمیری پہلے ہی جرم بے گناہی کا شکار ہیں۔ پاکستان سے بھی بھارت بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بدلہ لے رہا ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے بدلے کے لیے بھارت کے ممکنہ آپشنزکا جائزہ لیا ہے، جن میں پہلا آپشن زمینی حملہ ہے جس میں سرجیکل اسٹرائیکس اور پیرا اسپیشل فورسز کا کنٹرول لائن پر استعمال ہے۔ اخبار کے مطابق یہ طریقہ اوڑی حملے کے بعد مبینہ سرجیکل اسٹرائیکس کے ذریعے اپنایا جا چکا ہے۔ دوسرا آپشن طویل فاصلے تک مار کرنے والے براہموس اور سپرسانک میزائلوں کا استعمال، تیسرا آپشن میراج دوہزار جیگوارکو گلائیڈ بموں سے لیس کرکے کنٹرول لائن کی دوسری جانب حملہ ہے۔ چوتھا آپشن انٹیلی جنس کا استعمال کرکے پراکسیز کے ذریعے بلوچستان، سندھ اور دوسرے علاقوں میں مشکلات پیدا کرنا بتایا گیا ہے۔ بھارت کے ان تمام آپشنز کا جواب وزیراعظم عمران خان نے وڈیو پیغام میں دیا ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے بارے میں سوچے گا نہیں بلکہ جواب دے گا۔ خوابوں اور خواہشات کی بات الگ ہے، حقیقت میں بھارت کا چوتھا آپشن ہی اصل اور واحد آپشن ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان میں بے چینی کو ہوا دے کر اسے مسلح دہشت گردی میں بدلنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ بھارت پہلے ہی یہ کارڈ استعمال کررہا ہے۔ کشمیریوں کے خلاف طاقت کے استعمال اور پاکستان میں دہشت گردی کی دھمکیوں میں کچھ نیا نہیں، یہ دونوں کام بھارت پہلے ہی کررہا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک خط میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس سے پاک بھارت کشیدگی میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پلوامہ حملہ کشمیر کے ایک باشندے نے کیا ہے مگر بھارت نے کسی تحقیقات سے پہلے اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا۔ اب انتخابی ضرورت کے تحت بھارت میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دی جارہی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے سے یک طرفہ دست برداری کا اعلان کیا ہے، ایسا کرنا فاش غلطی ہوگی۔ شاہ محمود قریشی کے اس خط کے جواب میں اقوام متحدہ کیا کردار ادا کرتا ہے، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ پلوامہ حملہ نریندر مودی کی ڈولتی ہوئی نیّا کے لیے استحکام کا پیغام ثابت ہوا۔ مودی کے اکھڑتے ہوئے پائوں دوبارہ انتخابی میدان میں جمنے لگے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بھی اب پلوامہ حملے کی ٹائمنگ کے حوالے سے دبے لفظوں میں سوال اُٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ کانگریس اور اپوزیشن کو ہوش اُس وقت آئے گا جب اُن کے ساتھ انتخابی ہاتھ ہوچکا ہوگا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ملکوں نے پلوامہ حملے کی مذمت کی ہے۔ اس کے باوجود کہ پلوامہ حملہ عام شہریوں یا بھارتی سیاحوں پر نہیں ہوا بلکہ اُس فوج پر ہوا جو کشمیریوں کے اوپر خوفناک جنگ مسلط کیے ہوئے ہے، جو کشمیری نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کررہی ہے۔ ہزاروں قتل ہوچکے ہیں، ہزارروں زخمی اور بے نور کردئیے گئے ہیں، اور ہزاروں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند پڑے ہیں۔ خواتین کی عزت وآبرو بھی محفوظ نہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی نوجوان قتل کیے جارہے ہیں۔ بھارتی جنرل نے ایک بار پھر انہی نوجوانوں کو دھمکی دی ہے کہ بندوق اُٹھانے والے ہر نوجوان کو قتل کردیا جائے گا۔ اگر اب انہی نوجوانوں میں سے ایک نے اپنی جان کی قیمت پر بھارتی فوجیوں پر حملہ کیا تو اس میں اچنبھے والی کون سی بات ہے؟ اس کے باوجود پاکستان نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ اس کے دوسرے روز ہی بلوچستان میں دو واقعات میں سیکورٹی فورسزکے چھے جوان شہید ہوئے۔ بلوچستان میں ان کارروائیوں کا محرک بھارت اور پاکستان کے پڑوسی ملک ہیں، مگر بھارت نے جواب میں دہشت گردی کے اس واقعے کی مذمت نہیں کی۔ بھارت جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے باعث سری نگر مظفرآباد بس سروس بھی معطل ہوگئی ہے۔ اس کشیدہ ماحول میں بھارتی حکمرانوں کی معمولی سی غلطی جنوبی ایشیا کو نشانِ عبرت بنا سکتی ہے۔ پاکستان کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے تیار ہے۔