جیل میں کارروائی کے بعد حالات پُرسکون ہوگئے تھے۔ آدم خان نے بتلا دیا تھا کہ ونگ لیڈر لکھمیر مارا گیا۔ لکھمیر کی کہانی عبرت ناک ہے، جب قدرت انتقام لیتی ہے تو اس کے لیے وقت کا انتظار ہوتا ہے اور اسٹیج تیار کیا جاتا ہے۔ لکھمیر 18یا 19 سال کا نوجوان تھا، اور وہ اپنے ہمسایہ کی ایک لڑکی کو دل دے بیٹھا تھا۔ یہ یک طرفہ معاملہ تھا، اُسے اس لڑکی سے محبت ہوگئی تھی۔ لیکن لڑکی کے والدین نے لڑکی کی شادی کی تاریخ طے کردی اور دونوں گھروں میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ اُس کی رُخصتی سے ایک دن پہلے لکھمیر نے دولہا کو چاقو کے وار کرکے گھر کے سامنے قتل کردیا۔ اس طرح خوشی کے لمحات ماتمِ مرگ میں تبدیل ہوگئے ۔ دونوں گھروں میں ماتم کا سماں تھا اور اہلِ محلہ بھی سوگوار تھے۔ ڈھول اور شہنائی روک دی گئی۔ قاتل گرفتار ہوگیا اور اس نے جرم قبول کرلیا۔ اسے 14 سال کی سزا ہوگئی۔ کوئٹہ جیل سے اسے مچھ جیل میں بھیج دیا گیا۔ عمرقید کی سزا پانے والے کو مچھ جیل بھیج دیا جاتا تھا۔ اس جیل میں پھانسی گھاٹ موجود ہے۔ جون 1973ء میں لکھمیر اپنی قید کاٹ چکا تھا، اس کی رہائی کے لمحات قریب آگئے تھے۔ لکھمیر کے والدین نے اس کی شادی کی تاریخ طے کردی۔ اس کے گھر میں شادی کا جشن برپا تھا، والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ڈھول اور شہنائی بج رہی تھی۔ والدین مچھ کی جانب روانہ ہوگئے تاکہ لکھمیر کو جلد ازجلد گھر پہنچا کر اسے دولہا بنایا جائے۔ لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے مچھ جیل میں بغاوت ہوئی اور لکھمیر مارا گیا۔ اب اس کے والد اور عزیز واقارب اس کی خون آلود لاش لے جارہے تھے۔ خوشی کے لمحات غم انگیز لمحوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ لکھمیر نے بھی شادی سے ایک دن پہلے نوجوان دولہا کو قتل کیا تھا، اور اب قدرت کا نظام اور قانون حرکت میں تھا اور شادی سے ایک دن قبل لکھمیر کی خون آلود لاش گھر آرہی تھی۔ اس اسٹیج کے لیے 14 سال لگے ۔
اور بھی بے شمار واقعات میرے علم میں ہیں، ان کو چھوڑتے ہوئے اپنی داستان کی طرف لوٹتا ہوں۔ اس واقعہ کے دو دن بعد صبح 10بجے کا وقت تھا، ہم قیدی ناشتا کرچکے تھے۔ میرا ساتھی سید حسام الدین غسل خانہ میں غسل کررہا تھا، اور میں ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہوئے احاطہ کے لان میں بیٹھا تھا اور ذہن مختلف پہلوئوں سے سوچ رہا تھا۔ اتنے میں آدم خان آیا، سلام کیا اور میرے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد اُس نے کہا کہ آپ لوگوں کا تبادلہ کوئٹہ کردیا ہے، چونکہ آپ لوگ سیاسی ہیں اس لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس کے بعد وہ چلا گیا۔ حسام الدین غسل کرکے نکلا تو پوچھا کہ آدم خان آیا تھا، کیا کہہ رہا تھا؟ مجھے مذاق سوجھا، میں نے اس سے کہا کہ آدم خان نے اطلاع دی اور بتلایا کہ آپ دونوں کا تبادلہ پنجاب کردیا ہے، اور آپ لوگ اپنا بوریا بستر تیار کرلیں۔ یہ سنتے ہی 6 فٹ کا نوجوان تھرتھر کانپنا شروع ہوگیا، اس کا رنگ یک دم زرد پڑ گیا، اس کی آواز تھرتھرانے لگی۔ یہ حالت دیکھ کر میں خوف زدہ ہوگیا کہ کہیں اس کا ہارٹ فیل نہ ہوجائے، میں نے جلدی سے کہا کہ نہیں، میں مذاق کررہا تھا، ہمارا تبادلہ کوئٹہ جیل کیا گیا ہے۔ لیکن اس کو یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ تھوڑا سا پُرسکون ہوگیا مگر مضطرب تھا۔ جیل کے عملے نے ہمارا سامان اٹھا لیا اور احاطہ سے باہر چلے گئے۔ ہم دونوں اپنے جیل کے ساتھیوں سے گلے ملے اور رخصت ہوگئے۔ کچھ ہم بھی اداس ہوگئے تھے اور وہ بھی۔ ہم جیل سپرنٹنڈنٹ سے ملے اور جیل سے باہر آگئے جہاں ایف ایس ایف کے جوانوں پر مشتمل ایک ٹرک تیار تھا۔ ٹرک پر سوار ہوتے وقت تک حسام کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم کوئٹہ جارہے ہیں۔ اس نے مسلح جوانوں سے پوچھا کہ ٹرک کہاں جارہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم کوئٹہ جارہے ہیں۔ اس پر حسام کا چہرہ کھل اٹھا اور ایک مسکراہٹ اُس کے چہرے پر پھیل گئی۔ چند گھنٹوں کے بعد ہم کوئٹہ جیل میں داخل ہوگئے۔ عملے نے ہمارا سامان مختلف احاطوں میں پہنچا دیا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہا: چونکہ آپ سیاسی قیدی ہیں اور آپ کو بی کلاس دی گئی ہے اس لیے آپ کوWhite houseالاٹ ہوا ہے ۔ جب اس احاطے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ بہت خوبصورت اور کشادہ ہے۔ عملے نے سامان کمرے میں رکھ دیا۔ اس کے بعد میں نے سفید عمارت کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس کمرے میں 5 افراد کی گنجائش موجود تھی۔ کمرے میں ایک بیڈ تھا، اس لیے کہ اُس وقت تک صرف میں اس کا مہمانِ خصوصی تھا۔ کمرے کے ساتھ ایک کچن تھا، اس کے ساتھ باتھ روم تھا، کموڈ سسٹم بھی تھا۔ ایک خوبصورت لان تھا اور اس کے احاطے میں ایک چھوٹی سی جگہ کو گھیر کر مسجد کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ احاطہ کی دیوار کے ساتھ کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر بعد چکر جمعدار آیا اور وارڈن بھی ساتھ تھا، اس نے کہا کہ آپ کو ایک مشقتی دیا جائے گا، وہ دن بھر یہاں ہوگا اور شام کو اپنی بیرک میں واپس چلا جائے گا ۔ عصر کے بعد جیل کے عملے نے دروازے پر تالا لگا دیا اور اس کے بعد کھانا آیا۔ کھانا کھانے کے بعد میں دروازے کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اکیلا تھا اس لیے کچھ کچھ اداس ہوگیا۔ قیدِ تنہائی واقعی ایک عذاب سے کم نہ ہوتی ہوگی ، میری تنہائی تو صبح تک کے لیے تھی۔ جیل میں روزانہ کے واقعات ایک کاپی میں لکھتا تھا۔ اب وہ کاپی تلاش کررہا ہوں تو مل نہیں رہی ہے۔ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اپنی یادداشت کے سہارے لکھ رہا ہوں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں کہ گزرا ہوا زمانہ کل کی طرح یاد ہے۔
کوچہ میں تھی بہار ابھی کل کی بات ہے
کمرے کی سلاخوں کے قریب آکر بیٹھ گیا اور گزرے ہوئے لمحات لکھنا شروع کردیے۔ نیند کوسوں دور تھی۔ اس دوران مجازؔ کے کچھ اشعار یاد آرہے تھے، اور جب میں ایوب خان کے دور میں زخمی ہوکر سول اسپتال کوئٹہ میں زیر علاج تھا تو ضیاء الدین ضیائی، رشید بیگ، ماجد فوز مرحوم، عبدالصمد خلجی مغرب کے بعد آتے اور اسپتال کے ساتھ واقع ایک خوبصورت لان میں محفل جمتی۔ ضیاء الدین ضیائی کی آواز بڑی اچھی تھی۔ وہ ایئرمارشل اصغر خان کا سیکریٹری تھا۔ اس سے فرمائش کرتا کہ مجازؔ کی غزل سنائو تو وہ ترنم سے سناتا تھا:
اے غمِ دل کیا کروں
اے وحشتِ دل کیا کروں
جی میں آتا ہے یہ چاند تارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا، سارے ستارے نوچ لوں
اِس کنارے نوچ لوں اور اُس کنارے نوچ لوں
وہ اپنی غزل بھی سناتا تھا۔ میں اس سے مذاق کرتا کہ یار کسی اور کی غزل ہوگی، اور وہ قسم کھاتا کہ یہ میری اپنی غزل ہے۔ اس سے مذاق چلتا رہتا تھا۔کتابیں ساتھ تھیں، اب یاد نہیں کہ کون کون سی تھیں۔
اس جیل میں نیند رات بھر نہیں آئی۔ صبح اُٹھا، نماز پڑھی، تلاوت کی، اخبار پڑھا، ناشتا کیا۔ احاطہ کھولا گیا تو بلوچ اسٹوڈنٹس کے نوجوان میرے احاطے میں آگئے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ یوں رات کی تھکان دور ہوگئی اور ان کے ساتھ خوب گپ شپ ہوئی۔ انہوں نے بتلایا کہ اس جیل میں کون کون سے قیدی ہیں۔
سید حسام الدین بھی اسی جیل میں تھا اور وہ کسی دوسرے احاطے میں تھا۔
سید حسام الدین کی کہانی بھی بڑی دلچسپ اور المناک ہے۔ یہ گورنمنٹ کالج کی یونین کا جنرل سیکریٹری رہ چکا تھا، جیل سے نکلنے کے بعد مجھ سے ملا اور کہا کہ آپ کے تعلقات نواب بگٹی سے قریبی ہیں اور میرا ایک بہت اہم کام ہے، میں نواب سے ملنا چاہتا ہوں۔ نواب صاحب اُن دنوں بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔ نواب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کہو کہ آجائے ۔ حسام میرے گھر آیا اور ہم دونوں نواب صاحب کے پاس گئے۔ حکومت نے حسام کو ایک بڑا پلاٹ الاٹ کیا تھا، اور وہ اس پر کولڈ اسٹوریج بنانا چاہتا تھا، اس نے پلانٹ کا آرڈر بھی دے دیا تھا، لیکن لوگ اس پلاٹ پر قابض ہوگئے تھے جسے وہ واگزار کرانا چاہتا تھا۔ نواب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ فائل لے آئیں، میں دیکھ لوں گا۔ اس کے بعد سید حسام الدین نے کہا کہ دو دن کے بعد آپ کے گھر آجائوں گا اور ہم اکٹھے جائیں گے۔ مقررہ وقت پر اس کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آیا۔ جب نواب بگٹی کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ پختون زلمے کا کمانڈر حسام الدین کہاں ہے؟ ان سے آنے کا کہا تھا، نہیں آیا۔ یوں دن، مہینے اور سال گزر گئے وہ نہیں آیا ۔اس کی بیوی، بچے اس کے منتظر تھے، دوست منتظر تھے، لیکن وہ نہیں آیا۔ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی! وہ پلاٹ کروڑوں کا تھا، اب اس پلاٹ پر ایک بڑی مارکیٹ کھڑی ہے، جس کا نام بڑیچ مارکیٹ ہے، اور اس میں ایران کی تمام مصنوعات مل جاتی ہیں۔ اس کو ایرانی مارکیٹ بھی کہتے ہیں۔ لیکن میرا جیل فیلو اور دوست نہ جانے کہاں کھو گیا۔ اب اس کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔
جون 1973ء میں کوئٹہ جیل میں، جیل کی ڈائری اپنے کمرے میں لکھ رہا تھا، آج 2019ء میں ایک بہت سرد موسم میں اپنی جیل کی یادداشتیں ضبطِ تحریر میں لارہا ہوں۔ کمرے میں گیس ہیٹر جل رہا ہے اور میرا قلم داستان لکھ رہا ہے۔ نہ ابوالکلام کی طرح سبز جیسمین چائے ہے اور نہ دودھ والی۔ میرے گھر والے کراچی میں ہیں اس لیے چائے کا بندوبست نہیں ہے۔ جیل کے جس احاطے میں تھا وہ کوئی عام عمارت نہ تھی، بلکہ یہ تو اسکندر مرزا نے سابق وزیراعظم جناب سہروردی کے لیے تیار کی تھی، لیکن انہیں کوئٹہ لانے کے بجائے بیروت جلا وطن کردیا گیا۔
اور نیرنگیٔ دوراں دیکھیے کہ ایوب خان نے جب حکومت کا تختہ اُلٹا تو اسکندر مرزا کو کوئٹہ میں بھیجنے کا پروگرام تھا، بعد میں انہوں نے ارادہ بدل دیا اور اسکندر مرزا کو بیرون ملک بھیج دیا ۔ اس طرح White House دونوں کا منتظر ہی رہ گیا اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہوگیا کہ قید کے لمحات یہاں گزارے۔
(جاری ہے)