مذاکرات کی کامیابی اہم طالبان رہنماؤں اور افغان شخصیات کا ایک چھت تلے جمع ہونا ہے
ماسکو میں ہونے والی دوروزہ افغان امن بات چیت سے بظاہر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، لیکن افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس بات چیت کوکئی حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ ان مذاکرات کی اوّلین اہم بات ان مذاکرات کا چند ماہ کے اندر اندر دوسری بار ماسکو میں انعقاد اور ان میں سابق افغان صدر حامد کرزئی سمیت کئی دیگر اہم افغان شخصیات کی شرکت ہے۔ اس بات چیت کا ماسکو میں منعقد ہونا اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ان دنوں امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی نہ صرف مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں بلکہ ان مذاکرات کے بارے میں یہاں تک رپورٹ ہوچکا ہے کہ یہ بات چیت اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ اس میں مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے بھی کئی امور پر ابتدائی گفتگو ہوچکی ہے، جنہیں آئندہ ادوار میں عملی شکل دینے کے حوالے سے دونوں جانب سے لچک کا واضح مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ روس نے۔۔۔ جو سوویت یونین کے انہدام کے وقت سے افغان معاملات سے لاتعلق ہوچکا تھا، یا اُسے امریکہ نے افغانستان سے لاتعلق کردیا تھا۔۔۔ پہلی بار افغان معاملات میں نہ صرف دبنگ انٹری دی ہے بلکہ وہ اعلانیہ طور پر طالبان اور افغانستان کے انتہائی اہم ایسے اسٹیک ہولڈرز کو بھی ماسکو بات چیت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے جو کل تک روس کے خلاف اور امریکہ کے ہمنوا تھے۔ واضح رہے کہ ماسکو بات چیت میں افغان جہاد کے دوران سوویت یونین کے خلاف برسرپیکار رہنے والے سابق مجاہدین دھڑوں جمعیتِ اسلامی، حزبِ وحدت، محاذِ ملی اور اسلامک فرنٹ کے قائدین کمانڈر اسماعیل خان، استاد عطا محمد نور، استاد محقق، یونس قانونی، احمد ضیاء مسعود، پیر حامد گیلانی اور کئی دیگر راہنماؤں کے علاوہ سابق افغان صدر حامدکرزئی قابل ذکر ہیں، جب کہ ان راہنماؤں کے علاوہ ماسکو بات چیت میں حنیف اتمر کی شرکت کو بھی خاصا معنی خیز سمجھا جارہا ہے جو کل تک تو موجودہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے قومی سلامتی کے مشیر تھے لیکن گزشتہ سال مستعفی ہوکر اب صدارتی الیکشن کی دوڑ میں نہ صرف ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آچکے ہیں، بلکہ یوں لگ رہا ہے کہ روس اُن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ ماسکو مذاکرات کی کامیابی کی تیسری اہم وجہ طالبان کے دوحہ دفتر کے سیاسی ترجمان شیر محمد عباس اور مُلّا عبدالسلام ضعیف جیسے اہم طالبان راہنماؤں اور سابق افغان صدر حامد کرزئی سمیت دیگر طالبان مخالف قوتوں کی ایک چھت تلے ایک میز پرموجودگی تھی جس پر سب سے زیادہ تلملاہٹ یقیناً امریکہ کو ہوئی ہوگی، جس پر اگر ایک طرف افغانستان سے انخلا کے حوالے سے دباؤ ہے تو دوسری جانب وہ اس اہم خطے میں مسلسل تنہا ہوتا جارہا ہے، اور اس صورت حال میں اسے سنبھالا دینے کے لیے نہ تو اس کا پرانا اتحادی پاکستان کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے، اور نہ ہی امریکہ کا اس خطے میں نیا اتحادی بھارت اس کو ریسکیو کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ طالبان کی خوداعتمادی اور مستقبل کے حوالے سے اُن کے عزائم کا اندازہ ماسکو کانفرنس کے اختتام پر طالبان کے ترجمان شیر محمد عباس ستانکزئی کی میڈیا سے کی جانے والی گفتگو سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کابل حکومت کا آئین غیر موزوں ہے جسے مغربی ملک سے حاصل کیا گیا ہے، اور یہ آئین امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ ہم اسلامی آئین چاہتے ہیں اور نیا منشور اسلامی اسکالرز تشکیل دیں گے۔ واضح رہے کہ طالبان افغانستان کے صدر ڈاکٹراشرف غنی اور اُن کی انتظامیہ کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔ شیر محمد عباس نے طالبان دورِ حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے افغانستان میں 1996ء سے 2001ء کے دوران شرعی قانون کی پابندی کی وہ طاقت کی اجارہ داری نہیں چاہتے لیکن وہ اسلامی نظام کے خواہاں ضرور ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان وعدہ کرتے ہیں کہ افغانستان سے افیون کی کاشت کا خاتمہ کردیں گے اور جان لیوا جھگڑوں کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔ افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے طالبان کے مؤقف میں پیدا ہونے والی لچک اور اس ضمن میں طاقت کے بجائے افہام وتفہیم سے سیاسی بات چیت کے ذریعے نئے آئین کی تشکیل، اور ملک میں اسلامی نظام حکومت کے قیام کے عزم کے اعادے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ طالبان زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو اُن سے زیادہ خود افغان ملّت کے لیے امن اور استحکامِ افغانستان کا ایک اہم پیغام ہے۔ ماسکو امن مذاکرات میں طالبان کے روبرو دو خواتین کی پہلی بار شرکت بذاتِ خود جہاں طالبان کے ماضی کے رویّے میں ایک بڑی تبدیلی کی عکاس ہے، وہیں ان مذاکرات میں دو خواتین کی نمائندگی اور ان کا خواتین کے مسائل اور حقوق سے متعلق دوٹوک مؤقف کا اظہار کرنا اس بات کا غماز ہے کہ طالبان ماضی کی بعض اجتہادی غلطیاں دہرانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ماسکو بات چیت کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواتین شرکاء نے امکان ظاہر کیا ہے کہ طالبان شریعت کے مطابق طالبات کو تعلیم کے مواقع دیں گے۔ میزبان گروپ کے سربراہ محمد غلام جلال نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ تمام فریقین سمجھوتے کے لیے آمادہ ہیں اور یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ واضح رہے کہ طالبان امریکہ امن مذاکرات سے متعلق دوسرا اہم دور 25 فروری کو قطر میں منعقد ہوگا۔
دوسری جانب سینئر افغان حکام بشمول افغان صدر اشرف غنی نے خبردار کیا ہے کہ طالبان عسکریت پسند اور سابق صدر حامد کرزئی سمیت اپوزیشن سیاست دانوں کے درمیان مذاکرات افغانستان کے بہترین مفاد اور جمہوری اصولوں سے دھوکا دہی ہے۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ماسکو نے طالبان کی نمائندگی یقینی بنانے کے لیے افغان حکومتی حکام کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ طالبان پہلے ہی مغربی حمایت یافتہ صدر اشرف غنی کے نمائندوں سے مذاکرات سے انکار کرچکے ہیں جبکہ وہ انہیں امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔ ادھر اشرف غنی کے چیف ایڈوائزر فاضل فضلی نے ماسکو کانفرنس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاست دان جو پہلے افغانستان کی جمہوری تبدیلی کی قیادت کرتے تھے وہ اب اپنے مفادات کے لیے طالبان سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یہ ان اصولوں کو بائی پاس کرنے کے لیے تیار ہیں اور طاقت سے دور ہونے کی وجہ سے ان اصولوں کی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا ماسکو مذاکرات کے متعلق کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا سے طالبان اپنے مقاصد کو حاصل کرلیں گے، اس لیے مذاکرات کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
دریں اثناء افغانستان سے آمدہ تازہ اطلاعات کے مطابق شمالی صوبے قندوز اور بغلان میں طالبان اور افغان فورسز کے مابین شدید جھڑپوں اور حملوں میں 39 سیکورٹی اہلکار ہلاک اور25 دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ صوبائی کونسل کے نائب سربراہ سیف اللہ امیر ی کے حوالے سے افغان میڈیا نے بتایا ہے کہ صوبائی صدر مقام قندوز کے مضافات خواجہ پاک اور تلواکہ میں طالبان نے افغان سیکورٹی کی چیک پوسٹوں پر شدید حملے کیے ہیں جس میں افغان سیکورٹی کے 28 اہلکار ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے ہیں۔ امیری کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 25 افغان آرمی اور 5 پولیس اہلکار شامل ہیں۔ ادھر ایک اور میڈیا رپورٹ کے مطابق شمالی صوبہ بغلان کے مرکزی ضلع میں طالبان نے ایک افغان پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں 11پولیس اہلکار ہلاک اور 5 دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ صوبائی کونسل کے سربراہ صفدر محسنی کے مطابق دو گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ میں طالبان نے پولیس کا اسلحہ بھی چھین لیا ہے اور چیک پوسٹ پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ ادھر افغان وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں صوبہ قندوز میں حملے اور جھڑپ میں ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے مزید تفصیلات دینے سے گریز کیا ہے، جبکہ دعویٰ کیا ہے کہ ان جھڑپوں میں 22 طالبان ہلاک اور 18 زخمی ہوگئے ہیں۔
افغانستان سے پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر ملے عرصہ ہوگیا ہے، اور خاص کر جب سے افغان امن مذاکرات کا سلسلہ ابوظہبی اور دوحہ سے ہوتے ہوئے ماسکو تک پھیلا ہے، تب سے پاکستان اس سارے قضیے سے بطور ایک اہم فریق عملاً باہرہوتا ہوا محسوس ہورہا تھا، لیکن گزشتہ دنوں 5 فروری کو دنیا بھر میں منائے جانے والے یومِ یک جہتیِ کشمیر کے سلسلے میں افغان دارالحکومت کابل میں افغان خواتین کی جانب سے نکالی جانے والی یک جہتی ریلی پر بعض لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ریلی سے لگتا ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے سفارتی کامیابیاں رنگ لے آئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تاریخ میں پہلی بار افغانستان میں 5 فروری کو یومِ کشمیر منایا گیا ہے۔ اس کو پاکستان کی سفارتی سطح پر بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دن کابل میں افغان خواتین گھروں سے باہر نکل آئیں، انہوں نے پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیری عوام کے حق میں، جبکہ بھارتی مظالم کے خلاف نعرے درج تھے۔ احتجاجی خواتین نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حق میں اور بھارتی فورسز کے خلاف نعرے لگائے۔افغانستان کی تازہ صورت حال اور بالخصوص طالبان امریکہ مذاکرات، اور ماسکو امن بات چیت کے حوالے سے پاکستان کے کردار کے متعلق افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے خیبر پختون خوا کے سینئر صحافی شمیم شاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی ناقص پالیسیوں کے باعث افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت میں بادشاہ گر کی اپنی ماضی کی حیثیت سے محروم ہوچکا ہے، کیونکہ پورے افغانستان میں اب ایسا کوئی طبقہ باقی نہیں بچا جس کو پاکستان نے اپنی ناقابلِ فہم پالیسیوں اور اقدامات سے ناراض نہ کیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کے کمیونسٹ اور سیکولر عناصر تو پہلے ہی سے پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، جبکہ اب وہ عناصر بھی پاکستان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے جن پر کل تک پاکستان مہربان تھا اور انہیں پاکستان کے پراکسی سمجھا جاتا تھا، ان میں سب سے نمایاں نام انجینئر گلبدین حکمت یار اور ان کی تنظیم حزبِ اسلامی کا ہے جو اَب پاکستان سے بدظن ہیں۔ طالبان کے بارے میں شمیم شاہد کا کہنا ہے کہ ان پر بھی پاکستان کا کنٹرول باقی نہیں رہا، بقول اُن کے ماضی میں طالبان حکومت کے خاتمے اور خاص کر اسلام آباد میں متعین ان کے سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کے ساتھ پاکستان نے جو سلوک کیا تھا اس سے قطع نظر پاکستان نے ایک اہم طالبان راہنما اور حال ہی میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مقرر کیے جانے والے مُلّا عبدالغنی برادر کی گرفتاری کی صورت میں طالبان راہنماؤں کے ساتھ جو سلوک کیاہے اس کو دیکھتے ہوئے اس بات پر شاید ہی کوئی یقین کرنے کے لیے تیار ہوگا کہ طالبان اب بھی پاکستان کے زیراثر ہیں۔ شمیم شاہدکا کہنا ہے کہ اگر اس بات میں صداقت ہوتی تو طالبان پاکستان کے کہنے پر نہ صرف ریاض سعودی عرب میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھنے سے انکار نہ کرتے بلکہ پاکستان کے اعلان، نیز امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کی مذاکرات کی غرض سے تین دن تک اسلام آباد میں موجودگی کے باوجود طالبان کا اعلان شدہ اسلام آباد مذاکرات میں نہ آنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ طالبان ماضی کے برعکس اب اپنے فیصلوں میں مکمل خودمختار ہیں، اور وہ پاکستان سمیت کسی بھی قوت کا براہِ راست اثر قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔
دوسری جانب افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے طالبان کے مؤقف میں پیدا ہونے والی لچک اور اس ضمن میں طاقت کے بجائے افہام وتفہیم اور سیاسی بات چیت کے ذریعے نئے آئین کی تشکیل، اور ملک میں اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے عزم کے اعادے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ طالبان زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو اُن سے زیادہ خود افغان ملّت کے لیے امن اور استحکامِ افغانستان کا ایک اہم پیغام ہے۔ ماسکو مذاکرات کے حوالے سے اس بات کو بھی طالبان کے ماضی کے سخت گیر مؤقف میں لچک پر محمول کیا جاسکتا ہے کہ ان مذاکرات میں طالبان نمائندوں کے دوبدو دوافغان خواتین نے بھی نہ صرف شرکت کی ہے بلکہ ان خواتین نے افغان خواتین کا حقِ نمائندگی ادا کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا ہے کہ طالبان شریعت کے مطابق طالبات کو تعلیم کے مواقع دیں گے۔ ماسکو امن بات چیت پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ امن مذاکرات سے متعلق طالبان امریکہ مذاکرات کا ایک دوسرا اور اہم دور 25 فروری کو قطر میں منعقد ہوگا جس میں ان امور کو زیر بحث لایا جائے گا جن کا تعلق مستقبل کی نقشہ گری سے ہے، بالخصوص طالبان کی حکومت میں شراکت اور موجودہ حکومتی سیٹ اَپ اور ایک متفقہ آئین کی تشکیل وہ ایشوز ہوں گے جنہیں نہ صرف زیر بحث لایا جانا ضروری ہے، بلکہ ان مسائل کے کسی متفقہ حل پر فریقین کا پہنچنا بھی ازبس ضروری ہے۔