نذیر الحسن
کبھی کبھی زندگی انسان کو ایسے موڑ پر لاکھڑا کرتی ہے کہ وہ حیرانی و پریشانی کی گہری جھیل میں غوطے کھانے لگتا ہے، جہاں نہ زندگی کا کوئی لطف رہتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی معنویت نظر آتی ہے۔ چمکتی صبح ہو… روپہلی دوپہر…یا… ملگجی شام کا دلربا منظر… چاندنی رات کی لطافتیں ہوں… یا…برستی بارشوں میں پانیوں کا شور… کوئل کی کوک ہو …یا…پپیہے کی پی… یا… صبح کے تڑکے درختوں پر بیٹھے خوش الحانی سے جھوم جھوم کر اللہ رب العزت کی عظمت کے ترانے گاتے پرندے…حالات اور زندگی کی آزمائش کی زد میں آئے ہوئے شخص کے لیے دنیا میں چہار سو پھیلے رنگ، نور اور روشنی بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔
ہر انسان کو گزارنے، برتنے اور بسر کرنے کے لیے فقط ایک ہی زندگی ملی ہے، اور اسی زندگی میں اگر انسان کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوجائے، اسے اپنی زندگی میں کوئی کشش نظر نہ آئے اور محسوس ہو کہ وہ زندگی کی کھلی شاہراہ کے بجائے کسی بند گلی میں آکر پھنس گیا ہے، تو اس صورتِ حال میں انسان مایوسی، بے بسی، بے کسی اور حسرت ویاس کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ لیکن زندگی کی ان تمام تلخ حقیقتوں کے باوجود ہماری دنیا میں کچھ ایسے بھی باہمت افراد موجود ہیں جو نامساعد حالات کا رونا نہیں روتے اور نہ ہی زندگی میں در آنے والی تلخیوں پر واویلا مچاتے ہیں، بلکہ اپنے عزم و ہمت سے اپنے لیے ایک نئی دنیا کا پیکر تراشتے اور صبح درخشاں کے نئے خدوخال وضع کرتے ہیں۔ ان ہی باہمت افراد میں تھیلے سیمیا میجر کے مرض میں مبتلا ڈاکٹرماریہ عشرت بھی ہیں، جو حیات کے دشت سے اپنے لیے قطرہ قطرہ زندگی کشید کررہی ہیں، ان کے پاس نہ شکوے کی پوٹلی ہے، نہ شکایت کی پٹاری، اور نہ ہی زندگی اور زندگی کے خالق سے کوئی شکایت۔
انسان انسان ہوتا ہے خواہ وہ مریض ہو یا صحت مند… اگر اس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے تو وہ جذبات بھی رکھتا ہے، اور بالی عمر کے جذبات دونوں میں یکساں ہوتے ہیں، جس شخص نے بھی جوانی کی دہلیز پار کی ہے وہ ان جذبات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے… وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس عمر میں دل میں کیسی کیسی خواہشیں سر اٹھاتی ہیں… جذبات کے کیسے کیسے طوفان امڈتے ہیں… خواہشوں کے کیسے کیسے جھکڑ چلتے ہیں… دل کیسے کیسے دھڑکتا ہے اور…کیسے کیسے خوابوں کی دنیائیں آباد ہوتی ہیں…!!
ماریہ عشرت سے میری پہلی ملاقات اپنے دفتر میں ہوئی۔ ان کی گفتگو اور خیالات جان کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی… تب میں نے ان سے انٹرویو کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ رضا مند ہوگئیں۔ پھر ملاقات کا ایک دن طے ہوا اور حسبِ وعدہ وہ میرے دفتر پہنچ گئیں۔ ماریہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں، ان کی ایک بہن اور دو بھائی ہیں، والد صاحب بزنس کرتے ہیں۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی ان کے والدین پر منکشف ہوا کہ یہ تھیلے سیمیا میجر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ تھیلے سیمیا خون کی ایک ایسی بیماری ہے، جس میں خون بننے کا عمل بری طرح متاثر ہوجاتا ہے، نتیجتاً مریض کو ہر پندرہ سے بیس دن بعد خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماریہ کو بھی اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لیے ہر پندرہ دن بعد خون لگوانا پڑتا ہے۔ وہ اپنے مرض کے ساتھ نہ صرف روزمرہ کے معمولات سرانجام دیتی ہیں بلکہ دو جاب بھی کرتی ہیں، ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی اور سماجی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میٹرک، انٹر اور گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے محمد علی جناح یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا، اکنامکس مارکیٹنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ اس سے بھی علم کی پیاس نہ بجھی تو وہ جامعہ کراچی پہنچ گئیں تھیلے سیمیا کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے۔ اب وہ معروف ماہر ِ امراضِ خون ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری کی سرپرستی میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔
زندگی میں کچھ کرنے کے حوالے سے ان کا وژن صاف اور واضح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند روزہ زندگی کا لطف اُسی وقت ہے جب اِس زندگی کو دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کردیا جائے۔ ماریہ نے معاشرے میں تھیلے سیمیا سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم دنیا سے جائیں تو لوگ اچھے لفظوں سے یاد رکھیں اور آنے والی نسل کو تھیلے سیمیا جیسی بیماری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تعلیم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جاہل اور تعلیم یافتہ فرد کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے، دونوں کی سرگرمیوں میں واضح فرق ہوتا ہے۔ زندگی کو سنوارنے میں تعلیم کا اہم کردار ہے۔ تھیلے سیمیا کے مرض میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ وہ یہ نہ دیکھیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، ان کی جسمانی حالت کیا ہے۔ میںسٹی اسکول میں کوآرڈی نیٹر ہوں اور والدین کی کائونسلنگ کرتی ہوں، میرے پاس چھے چھے فٹ جسامت کے افراد بھی آتے ہیں جنہیں میری کائونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔میں نے کینیڈا کے وزیراعظم تک سے ٹیلی فون پر بات کی ہے، تھیلے سیمیا کے مسئلے پر میں نے معروف سیاست دان شیخ رشید تک سے رابطہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی کی سوچ کو نہیں بدل سکتے جب تک کہ وہ خود اپنی سوچ بدلنے پر آمادہ نہ ہو۔ تعلیم انسان کی سوچ بدلتی ہے۔ مسائل اور مرض کو خود پر حاوی نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا اور نہ ہی دل میں یہ خیال لے کر آئی کہ میں ایک مرض کا شکار ہوں اور کچھ نہیں کرسکتی، بلکہ میں نے ہمیشہ یہ یقین رکھا کہ میں وہ سب کچھ کرسکتی ہوں جو کہ ایک صحت مند انسان کرسکتا ہے۔ ہم انسان ہیں، ہم سے دنیا چل رہی ہے، ہم اچھے ہیں تو دنیا بھی اچھی ہے۔ انسان کی سوچ، اس کا لباس اور اس کی پوری شخصیت اچھی ہونی چاہیے۔ اگر آپ اچھے دِکھیں گے تب ہی اچھا محسوس کریں گے۔
اللہ سے شکایت پیدا ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ اللہ سے شکایت تھی مگر ایک واقعے نے یہ شکایت دور کردی۔ ’’ایسا کیا ہوا؟‘‘میرے اس سوال کو وہ نظرانداز کرتے ہوئے گفتگو کا رخ موڑنا چاہتی تھیں مگر میری سوئی میرے سوال کے جواب پر اٹکی ہوئی تھی۔ بے حد اصرار پر کہنے لگیں کہ اسے آپ راز ہی رہنے دیتے تو بہتر تھا۔ پھر کہنے لگیں: ہوا کچھ یوں کہ جولائی2012ء میں مجھے اپنے والدین کے ساتھ حرم شریف جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہاں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں حطیم میں موجود ہوں اور میرے اردگرد لمبے لمبے سائے ہیں، اور ان سائیوں کے درمیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، وہؐ مجھ سے ہم کلام ہوئے۔ بس اس خواب کا آنا تھا کہ سارے شکوے اور شکایتیں دور ہوگئیں، جو رب مجھے خواب میں اپنے محبوبؐ کی زیارت کرادے وہ مجھ سے کتنی محبت کرتا ہوگا، یہ میں نے اس دن جانا۔ یہ سعادت ہر کسی کے حصے میں کہاں!! خواب کے بعد میں خوشی سے سرشار ہوگئی۔
میری لوگوں سے گزارش ہے کہ خدارا تھیلے سیمیا کے بچوں کو بھی انسان سمجھیں اور انہیں نارمل ٹریٹ کریں،ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے انہیں جینے کا حوصلہ دیں۔تھیلے سیمیا کے بچے بھی خود کو کسی سے کم محسوس نہ کریں ،تھیلے سیمیا کے بچے بھی اعلیٰ کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔میں زندگی کے مشکل لمحات میں ساتھ دینے پر اپنے والدین ،اساتذہ،بہن بھائیوں،پھوپھیوں ،برہانی بلڈ بینک کی ڈاکٹر دریہ اعجاز،عمیر ثناء فائونڈیشن کے ڈاکٹر ثاقب انصاری اور ایک مخلص دوست جس نے محبت کرنا سکھائی،سب کی تہہ دل سے شکر گراز ہوں۔