قرضہ لے کر گزارا کرنا اور سودی قرضوں میں جکڑے جانا بدترین سودا ہے

طاقتور طبقات مضبوط ہو رہے ہیں،غربت اورمہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے

کرپشن روکنے،کالادھن پکڑنے، عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لانے کا کوئی امکان نہیں ہے

منی بجٹ عوام کے نام پر تاجروں اور صنعت کاروں کی خوشنودی پانے کے لیے پیش کیا گیا ہے

ٹیکس چوروں کو مراعات دے کر حکومتی ناقص پالیسیوں کا بوجھ پاکستانی عوام کو اٹھانا پڑے گا

لوٹی دولت کو واپس لانے کا عزم کمزور ہونا، پاکستان کی معاشی صورتِ حال کے لیے سنگین ہوسکتا ہے

ممتاز ماہراقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کافرائیڈے اسپیشل کے قارئین کے لیے خصوصوی تجزیہ

ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ملکی و عالمی معاشی سیاست اور اس سے جڑے اہم موضوعات پر گہری اور عمیق نظر رکھتے ہیں۔ ان کے تجزیے میں سماجی، سیاسی اور عالمی حالات کا گہرا عکس ہوتا ہے۔آپ بینکنگ کا تیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے مالیاتی اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اس وقت آپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس (کراچی) کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ انشورنس لندن، اور انٹرنیشنل بینکرز ایسوسی ایشن کے رکن ہونے کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ممبر اکیڈمک کونسل، کالج آف بزنس مینجمنٹ کے ممبر برائے ریسرچ ایڈوائزری کونسل، خیبر بینک کے شریعہ سپروائزری بورڈ کے ممبر، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (NICVD) کے فنانشل ایڈوائزر، جرنل آف دی انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر اور کارپوریٹ ماہرین کے مجلّے ’’دی کارپوریٹ سیکرٹری‘‘ کے ممبر بھی ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب ’’اسلامک بینکنگ‘‘ جیسی قابلِ قدر کتاب کی تصنیف کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں تین سو سے زائد مقالے و مضامین بھی تحریر کرچکے ہیں۔ فرائیڈے اسپیشل ان سے وقتاً فوقتاً ملکی اور بین الاقوامی خصوصی اور معاشی صورتِ حال پر اپنے قارئین کے لیے ان کا تجزیہ لیتا رہتا ہے۔آج بھی پاکستان کی معیشت مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ہم ان صفحات پر ماہرین کی آراء اور مشورے وقتاً فوقتاً رکھتے رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اپنی آمد کے بعد چھے ماہ میں دوسرا منی بجٹ پیش کردیا ہے جس کو وہ اصلاحی بجٹ کا نام بھی دے رہی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت کے ہر روز کے اقدامات سے پاکستان کے ایک عام آدمی کی زندگی میں مشکلات کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے، اور بے روزگاری بھی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں موجودہ منی بجٹ سے عام آدمی کی زندگی میں کیا فرق پڑے گا، اور کیا پاکستان کی معیشت میں کسی بہتری کے امکانات ہیں بھی یا نہیں؟ اس سے متعلق کئی سوالات ہم نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھے، جن کے جواب یقیناً ملکی معیشت کے مستقبل کی حقیقی صورتِ حال کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

****

فرائیڈے اسپیشل: منی بجٹ کیا ہوتا ہے؟ حکومت کیوں پیش کرتی ہے؟ حالیہ حکومت کے پیش کردہ منی بجٹ جسے وہ اصلاحی پیکیج کا نام دے رہی ہے، آپ اس کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: منی بجٹ مرکزی وفاقی بجٹ کے بعد ناگزیر، ہنگامی یا انقلابی صورتِ حال کے پیش نظر لایا جاتا ہے۔ کوئی بڑی تبدیلی ہوجائے، عالمی سطح پر بڑا جھٹکا لگ جائے، ایسے حالات ہوجائیں جو مرکزی بجٹ پیش کرتے وقت نہیں تھے،کسی قسم کی قدرتی آفات آجائیں، جنگ چھڑ جائے۔۔۔ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی منی بجٹ لایا جاتا ہے۔ لیکن ہماری موجودہ حکومت نے 23 جنوری 2019ء کو جو دوسرا ترمیمی بل اصلاحات کے نام پر پیش کیا ہے نہ یہ منی بجٹ ہے اور نہ کوئی اصلاحی پیکیج ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بنیادی طور پر عوام کے نام پر تاجروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان اور کارپوریٹ سیکٹر میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کرکے اُن کی خوشنودی پانے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یقیناً معاشی سرگرمیوں میں کچھ بہتری ضرور آئے گی لیکن اصل چیلنجز سے نمٹنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ تاجر برادری اور اسٹاک ایکس چینج بروکرز کی مدد حکومت کو حاصل ہوگی۔ ٹیکس چوروں اور نان فائلر کو بھی مراعات دی گئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مراعات حکومت کی بڑھی آمدنی یا ٹیکس چوری پکڑ کر نہیں، بلکہ مزید قرضے لے کر یا بجٹ خسارہ بڑھا کر دی جا رہی ہیں۔ بجٹ خسارہ اتنی خطرناک چیز ہے کہ اسے ہم اُم الخبائث کہتے ہیں۔ اس دوسرے ترمیمی بل کے نتیجے میں قرضوں اور مہنگائی کا گراف بڑھے گا۔ مالی سال2019ء اور 2020ء میں معیشت کی شرح نمو کم ہوجائے گی۔۔۔2018ء سے بھی کم۔ بلکہ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ ان دو برسوں کی اوسط شرح نمو بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے جائے گی۔ ٹیکس چوروں کو مراعات دے کر حکومتی ناقص پالیسیوں کا بوجھ پاکستانی عوام کو اٹھانا پڑے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت نے اقتدار میں آکر سو روز کے ایجنڈے میں معیشت کو اہم ترجیح دی تھی۔ اس حوالے سے حکومت آج کہاں کھڑی ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سو روز کا ایجنڈا دیا تھا، جس کا بڑا شور مچا۔ اُن پہلے سو دنوں میں معیشت کے لیے جو اعلانات خود اس حکومت نے کیے اُس کی شہہ سرخی یہ تھی ’’معیشت بحال کی جائے گی، قرضوں پر انحصار کم کیا جائے گا، اور انصاف پر مبنی کاروبار دوست ٹیکس پالیسی مرتب کی جائے گی‘‘۔ اس حکومت کے پانچ ماہ گزر گئے ہیں، میں پورے شعور کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر پانچ سال بھی گزر جائیں تب بھی اس پر عمل درآمد ممکن نہیں، کیونکہ ان کے ارکانِ اسمبلی اور کابینہ کے ارکان ہی تیار نہیں ہیں تو کیسے بہتری آئے گی؟ ساری پالیسی یہی ہے کہ طاقتور ٹیکس چوروں کو نوازا جائے۔ اگر یہ اس معاملے کو حل کرلیتے تو پاکستان کے ستّر فیصد معاشی مسائل حل ہوجاتے۔ میاں نوازشریف دور میں 2018ء میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی گئی، اُس وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ میں جب اقتدار میں آؤں گا تو ان سب کو پکڑوں گا جو اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اب اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے بیان کے بالکل الٹ کام کیا اور اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ نگراں حکومت نے اس معاملے میں گڑبڑ کرتے ہوئے غیر قانونی توسیع بھی کی ایمنسٹی اسکیم میں، جسے پارلیمنٹ میں آنا چاہیے تھا، لیکن کوئی نہیں لا سکا۔ ستم یہ ہوا کہ جن لوگوں نے اربوں روپے لوٹ کر اس ایمنسٹی اسکیم میں چند ہزار روپے جمع کرواکر خزانے کو نقصان پہنچایا، اُن سب کو پکڑنے کے بجائے اپنے وعدے کے برخلاف 22 جنوری2019ء کو وزیراعظم صاحب کے دفتر سے ایف بی آر کے نام خط جاری ہوا کہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے اور معاملہ ختم کردیا جائے۔ یہ وہی طاقتور طبقات کو نوازنے، مراعات دینے اور حمایت پانے کی پالیسی ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارے ملک میں جاری ہے۔ حد یہ بھی ہوئی کہ جولائی میں حکومت نے اشتہار جاری کرائے کہ جو لوگ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اُن پر جرمانہ کرکے اُن کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی اور بیرون ملک اُن کی جائدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔
فرائیڈے اسپیشل: موجودہ حکومت نے تو ڈنکے کی چوٹ پر چوری کی رقوم واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ آج سات ماہ بعد وہ کہاں کھڑی ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: اہم بات یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا بنیادی وعدہ اور بڑا نعرہ یہی تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لاکر تعلیم و صحت پر خرچ کرے گی۔ مگر اب حکومت حالیہ بجٹ کی روشنی میں یہ کہہ رہی ہے کہ اپنے ڈالر وہیں رکھیں، ہمیں چند روپے بھیج دیں۔ اب حکومت کا عزم کمزور ہوگیا ہے تو آگے چل کر یہ معاملہ پاکستان کے لیے بہت مشکلات کا سبب بنے گا۔ باہر سے، لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا عزم کمزور ہونا خود پاکستان کی معاشی صورت حال کے لیے سنگین ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔ یہ بھی ٹیکس ایمنسٹی ہے کہ آپ لوٹی ہوئی دولت واپس نہ لائیں۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت جو قرضے لے رہی ہے، کیا ان سے کوئی بہتری نہیں آئے گی؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: یہ عارضی بہتری کے اقدامات ہیں۔ ساری کوشش و پالیسی قرضوں پر مرکوز ہے۔ بیرونی قرضوں کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ پہلے 6 ارب سعودیہ، پھر 6ارب یو اے ای سے، پھر کچھ چین سے، اس کے بعد یہ آئی ایم ایف کے پاس بھی جائیں گے، اس کے بعد ایشین ڈویلپمنٹ بینک بھی جائیں گے۔ ابھی انٹرنیشنل بانڈز جاری کیے ہیں سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ’’پاکستان بناؤ ‘‘ کے نام سے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے میاں نوازشریف نے ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ مہم کا آغاز کیا تھا۔ اِنہوں نے نام بدل کر ’’پاکستان بناؤ‘‘ کا نام دیا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ترسیلات بھیجتے ہیں، مگر وہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہ رہے، حکومت ان کو بھاری شرح سود پر پیسہ لانے کا لالچ دے رہی ہے، جو کچھ وہاں کے بینکوں سے اُن کو مل رہا ہے اُس سے کہیں زیادہ مہنگی شرح سود پر پاکستان کی حکومت اُن سے قرضہ لینے جا رہی ہے۔ لوگ بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھائیں گے، کیونکہ منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ 20 ارب ڈالر کے معاملات طے ہوچکے ہیں۔ جو تفصیلات آرہی ہیں اُن کے مطابق ہم سرمایہ کاری کو بہتر کرنے کے بجائے تجارتی خسارہ کم کر کے آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے آج تک بیرونی قرضوں پر انحصار کرکے ترقی حاصل نہیں کی جب تک کہ اس کی ملکی سرمایہ کاری اُس سے ہم آہنگ نہ ہو۔ جی ڈی پی کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچت یا وصولی کے مطابق ہر سال ہم گیارہ ہزار ارب روپیہ کم وصول کررہے ہیں۔ اگر ہم اسے بڑھا لیں اور قرضوں سے چاہیں تو صرف علامتی چیزیں عارضی طور پر بہتر ہونگی، لیکن پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن نہیں ہوگی۔قرضہ لے کر گزارا کرنا اور سودی قرضوں میں جکڑے جانا بدترین سودا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا اب بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا امکان ہے جس کا بہت شور ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: پی ٹی آئی کا مؤقف حکومت میں آنے کے بعد بھی یہ تھا کہ اگر بیرونی ممالک سے قرضے مل گئے تو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ یہ تب ہوتا جب آپ بڑے پیمانے پر اسٹرکچرل اصلاحات کرتے، اپنے وعدے پورے کرتے، اپنے ہی منشور پر عمل کرتے، جس کا نہ آپ کا ارادہ ہے نہ آپ ایسا کریں گے، تو پھر آپ سو فیصد آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے۔ اس کے پاس جانے میں دانستہ طور پر تاخیر اس لیے کی گئی ہے کہ اس کا بوجھ اگلے سال پر ڈالا جائے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں روپے کی قدر گرگئی، شرح نمو سست ہورہی ہے، شرح سود بڑھ گئی ہے، پیٹرول، بجلی، گیس کی قیمت بڑھا دی گئی، ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی بھی کردی گئی۔ یہ سب آئی ایم ایف کی شرائط ہیں جن میں سے کچھ ہم نے پوری کردیں، لیکن بجٹ خسارہ بڑھا لیا ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ مانگتے تو وہ آپ سے کہتا کہ بجٹ خسارہ کم کریں، جس کے لیے حکومت کو عوام پر مزید بوجھ ڈالنا پڑتا۔ اب یہ معاہدہ فروری یا مارچ میں ہوگا تو اُن کی شرائط اگلے مالی سال میں جائیں گی۔ اس طرح اس سال کا بوجھ پورا ڈالنے کے بجائے اگلے سال پر ڈالا گیاہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ٹیکسوں اور قرضوں کے علاوہ کیا ذرائع ہیں بہتری کے لیے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: موجودہ حکومت ٹیکسوں کے لیے عقل پر مبنی پالیسی نہیں لا پا رہی، اور قرضوں میں جکڑی جا رہی ہے۔ ایک اور راستہ بچت بڑھانے کا ہوتا ہے، مگر افسوس کہ بچت پالیسی بھی کچھ نہیں نظر آرہی۔ تمام بینک نفع نقصان کی بنیاد پر چلتے ہیں، بینکنگ کمپنی آرڈیننس کے مطابق یہ کھلم کھلا خلاف ورزی کررہے ہیں کہ اپنے منافع میں کھاتے داروں کو شریک نہیں کرتے۔ اس پر تو سوموٹو نوٹس لینا چاہیے، کہ اس کا تعلق مفادِ عامہ سے ہے۔ لیکن اب اسٹیٹ بینک نے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اب منافع کو شرح سود سے منسلک کرلیں۔ یہ تو غیر اسلامی ہے، کھاتے داروں کے ساتھ معاہدے کے خلاف ہے، بینکنگ آرڈیننس کے بھی خلاف عمل ہے۔ اس پر شریعت کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے اور احکامات جاری کرنے چاہئیں۔ میرا اندازہ ہے کہ 2002ء سے اب تک 1400ارب روپیہ کھاتے داروں کو کم ملا ہے۔ اگر نفع میں شرکت ہو تو بچتوں کی شرح بڑھ جائے گی۔ 2002ء میں پاکستان کی داخلی بچت 18.1فیصد تھی جو کہ اب16فیصد پر آگئی ہے، اس کے نتیجے میں غربت اور مہنگائی میں اضافہ ہو ہا ہے، طاقتور طبقات مضبوط ہورہے ہیں۔
ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور نجی و سرکاری بینک اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر معیشت کو ڈبونے اور طاقتور طبقات کو فائدہ پہنچانے میں مصروف ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک وژن2025 آیا تھا، اُس کا آج کے حالات میں کیا تجزیہ ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: وژن2025 جو کہ 2014ء میں جاری ہوا، اس کے مطابق دستاویز ہے کہ: 2018ء سے معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سے زائد رہے گی۔ مگر اس سال اور اگلے سال 5 فیصد سے زائد ہونے کا امکان نہیں۔ داخلی بچتوں کو 2025ء تک 21فیصدکی شرح تک پہنچایا جائے گا۔ 2025ء تک 100فیصد بچوں کو پرائمری اسکول پہنچایا جائے گا۔ حالت یہ ہے کہ 23ملین بچے اس وقت اسکول سے محروم ہیں۔ چاروں صوبوں نے اس سال قومی تعلیمی و صحت پالیسی کے 2100 ارب روپے کم کردیئے گئے ہیں۔ 2025ء تک پاکستان فی کس آمدنی کے لحاظ سے متوسط آمدنی والے ممالک کی بالائی سطح پر آجائے گا۔ معیشت کی نمو ہو نہیں رہی ہے، تو یہ کیسے ممکن ہوگا؟ 2025ء تک پاکستانی برآمدات 150ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ اس وقت ہم 27 ارب ڈالر پر کھڑے ہیں، تو یہ عملاً 2025ء تک کیسے ممکن ہوگا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حکومت نے کیا کام کیا ہے؟ ترسیلات کے حجم کو 20 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد تک لے جائیں گے، اس سے آپ کو تجارتی خسارہ کم کرنا ہے۔ برآمدات نہیں بڑھا رہے ہیں، مصنوعی پمپ لگا رہے ہیں، جیسے میں نے کہاکہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: معاشی میدان میں جان بوجھ کر یا نااہلی کی وجہ سے حکومت قوم کو دھوکا دے رہی ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: دیگر حکومتوں کی طرح تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اپنے انتخابی منشور سے سو فیصد انحراف کیا ہے۔ نتائج یہ ہیں کہ سات مہینے میں83 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے باوجود پچھلے سال کے مقابلے میں ٹیکسوں کی وصولی197 ارب روپے کم رہی ہے۔ پراپرٹی کا مسئلہ یہ آگیا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کی پراپرٹی چالیس لاکھ میں رجسٹر ہوتی ہے۔ پراپرٹی خریدنے والا اپنا کالادھن خوب محفوظ کرلیتا ہے لیکن حکومت کی آمدنی ختم ہوجاتی ہے اور قابلِ گرفت کالا دھن چھپ جاتا ہے۔ تحریک انصاف کا2013ء کا انتخابی منشور تھا کہ وہ پراپرٹی کی قیمت مارکیٹ کے قریب کریں گے۔ پانچ سال خیبر پختون خوا میں آپ یہ نہیں کرسکے۔ ابھی کچھ بڑھائے ہیں ایف بی آر ریٹس، لیکن ڈی سی ویلیو سے اب بھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا کرپشن روکنے، کالادھن پکڑنے، عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
کرپشن کا بہت بڑا نعرہ تھا، حال یہ ہے کہ 2018ء میں انتخابات سے قبل تک 126سے117ویں نمبر پر ہمارا ملک کرپشن انڈیکس میں آگیا تھا، لیکن اگر کچھ قابو پایا گیا ہے تو یہ انڈیکس مزید نیچے آنا تھا، مگر آج بھی وہیں کھڑا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس سلسلے میں آپ معیشت کی بہتری کے لیے کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: عالمی کریڈیٹ ایجنسی اسٹینڈرڈ نے 4 فروری کو پاکستان کی کریڈیٹ ریٹنگ ’’بی‘‘ سے ’’منفی بی‘‘ کردی ہے۔ اس سے پہلے دسمبر میں ایک اور عالمی کریڈیٹ ایجنسی نے بھی پاکستان میں قرضوں کی لمبی مدت کی ریٹنگ کو بھی ’’بی‘‘ سے ’’منفی بی‘‘کردیا تھا۔ ان دونوں ایجنسیوں نے جو ریٹنگ گرائی ہے اُس کی وجوہات وہ ہیں جو میں بیان کرچکا ہوں یعنی شرح نمو کا سست ہونا اور آئندہ بھی سست رہنے کے خدشات، تجارتی خسارے کا اونچا حجم، بچت خسارے کا اونچا حجم، مہنگائی کی اونچی شرح، قرضوں کا حجم اور قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کا کمزور ہونا۔ معیشت کی بہتری کے لیے ہم قرضوں پر انحصار کررہے ہیں، لیکن معیشت کی بہتری کے لیے جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے اس سے حکومت اجتناب کررہی ہے، کیونکہ اس سے طاقتور طبقے کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی دور کے وزیر خارجہ آج تحریک انصاف کے بھی وزیر خارجہ ہیں۔ انہی موصوف نے کیری لوگر بل کا معاہدہ کیا تھا۔ اب بھی اُسی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ 12 ارب ڈالر سعودی عرب سے، اور 9 ارب ڈالر کی ترسیلات آرہی ہیں، آئل ریفائنری کی بات ہورہی ہے۔ ایران ہم سے دور ہوکر بھارت نوازی میں مصروف ہے۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ چار میں سے تین پڑوسی ناراض ہوں تو اس کے کیا اثرات ہوں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو وفاق اور صوبوں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس نافذ کرنا چاہیے، جنرل سیلزٹیکس کی شرح زیادہ سے زیادہ 7فیصد ہو، پیٹرولیم لیوی ختم کردی جائے، ٹیکس ایمنسٹی ختم ہونے کے بعد جن لوگوں نے اثاثے ظاہر نہیں کیے اُن کو پکڑا جائے اور ٹیکس قانون کے مطابق لیا جائے۔ تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 11فیصد خرچ کیا جائے۔ بیرونی پیکیج سے معیشت میں اصلاحات کی جائیں کہ ملک کرپشن اور قرضوں کی دلدل سے باہر نکلے۔ ماضی میں غلط بیانی کرکے قوم کو مختلف عالمی معاہدوں میں جس طرح پھنسایا گیا اس کی تحقیقات کی جائے، اور تحقیقات کے نتائج کو عوام کے سامنے لایا جائے۔آئی ایم ایف سے ایک سال کے اندر باہر نکلا جائے۔ لوگ کھلی منڈی سے ڈالر خریدتے ہیں، اس کو بیرونی کرنسی کے کھاتوں میں جمع کرواکر باہر بھجوا دیتے ہیں۔ صرف تعلیم وصحت کے لیے ڈالر خریدنے کی اجازت دی جائے۔ ترسیلات کو تجارتی خسارے میں استعمال کرنے کے بجائے سرمایہ کاری میں استعمال کیا جائے۔ غربت میں اُس وقت تک کمی نہیں ہوگی جب تک ہم زکوٰۃ کا نظام روزگار یعنی رزق کی فراہمی سے نہ جوڑ دیں۔ اس کے لیے مائیکرو فنانسنگ اسکیم پر عمل کیا جا سکتا ہے ڈاؤن پیمنٹ کرکے۔ سرمایہ کاری جو باہر سے آرہی ہے جس میں آمدنی روپے میں ہوتی ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے متعلقہ اداروں کی شفاف مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔
اسلامک بینکنگ کی بہت باتیں کررہے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں نظاموں کی وجہ سے اس میں بڑے پیمانے پر سود کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 38F میں کہا گیا ہے کہ جتنا جلدی ہو، ملک سے ربا (سود) کا خاتمہ کیا جائے گا۔2002 ء سے فیڈرل شریعت کورٹ مقدمہ لے کر بیٹھی ہے مگر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک پاکستان میں سودی معیشت آب و تاب سے ہوگی۔