پاکستان بنیادی طور پر ایک ایسے نئے نظام کی تلاش میں ہے جو عملی طور پر ریاست اور حکمرانی کے اس بحران کو حل کرکے ہمیں ترقی اور خوشحالی کی جانب لے جاسکے۔ جب نئے نظام کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد نظام میں کوئی بڑا طوفان مچانا نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسے نظام کی طرف بڑھنا ہوتا ہے جہاں سب کے دائرۂ کار واضح بھی ہوں اور سب میں نظام کو اجتماعی بنیادوں پر چلانے پر اتفاقِ رائے بھی موجود ہو۔کیونکہ کوئی بھی نظام بغیر کسی اتفاق کے آگے نہیں بڑھ سکتا، اور اس کی بنیاد مشاورت پر مبنی نظام ہوتا ہے جہاں ہر فریق کی بات کو سن اور سمجھ کر اپنی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے میں حکمرانی کا نظام اپنے سیاسی، سماجی، جمہوری، آئینی اور انتظامی ارتقائی عمل اور عوامی اور ریاستی مفاد کو سامنے رکھ کر خود کو زیادہ مؤثر بناتا اور شفافیت و جوابدہی کے ماتحت کرتا ہے۔ اسی سوچ اور فکر کے ساتھ سیاسی اور جمہوری نظام عوام میں اپنی سیاسی، اخلاقی، آئینی ساکھ قائم کرتا ہے۔ عوام، حکومت اور ریاست کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس خلیج نے عملی طور پر ریاست، عوام اور حکومت کے درمیان ایک ایسی بداعتمادی کی فضا قائم کی ہوئی ہے کہ تمام فریقین ٹکراؤ کی سیاست کا شکار ہیں۔ ہر ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ناکامی کی وجہ وہ خود نہیں بلکہ دیگر ادارے ہیں جو اپنی سیاسی اور آئینی حدود سے تجاوز کرکے نظام میں مداخلت کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سوچ اور فکر عملی طور پر ریاستی و حکومتی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔
کوئی بھی نظام جامد نہیں ہوتا۔ اس میں حالات و واقعات اور دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی مدد سے تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے جب بھی نظام میں بہتری کے لیے کوئی نئی بحث سامنے آتی ہے، یا کوئی فرد یا ادارہ نئی تجویز مباحثے کے لیے پیش کرتا ہے تو اس پر فوری طور پر دروازہ بند کرنے کے بجائے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ مکالمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نئی بحث یا نئی فکر پر مکالمے کے بجائے اس میں سازش تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ عمومی طور پر نظام میں بہتری اور نئی بحثوں کی گنجائش کو محدود کرتا ہے۔ مکالمے کا بنیادی جز کھلا ذہن ہوتا ہے، اور جب تک ہم نئی بحثوں کے لیے اپنے دلوں کو کشادہ نہیں کریں گے، نئے علم اور حکمرانی کے نظام میں نئی طرز کی تبدیلیوں کو بھی قبول نہیں کرسکیں گے۔ بلاوجہ ہم یہ دلیل دیتے ہیں کہ نئے نظام کی بات عام لوگ نہیں بلکہ طاقتور اور پسِ پردہ قوتیں کرتی ہیں، اور اس کی مدد سے سازشی تھیوریوں کو تلاش کرکے نئے نظام کی بحث کو مزید متنازع بنایا جاتا ہے، تاکہ ایک روایتی نظام ہی کو چلایا جائے جو مخصوص طبقے کے مفادات کو طاقت فراہم کرسکے۔
نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے موجودہ حالات میں بگاڑ کے تناظر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں پارلیمانی، عدالتی، انتظامی قیادت، بشمول فوج اور ایجنسیوں کے درمیان ریاستی و حکومتی امور چلانے کے لیے عملی پالیسی فریم ورک بنانے، باہمی اعتماد پیدا کرنے، آئین کی حکمرانی و جمہوریت کی مضبوطی کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کرنے اور فریقین کے درمیان مکالمے کی جو تجویز دی ہے وہ ایک غیر معمولی قدم ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے ریاستی اداروں اور حکومتی نظام میں ٹکراؤ کی جو کیفیت یا بری حکمرانی کی جو شکلیں ہیں، اِس تجویز سے ان کی واضح اور صاف عکاسی ہوتی ہے۔ اس سے قبل یہ تجویز سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی دے چکے ہیں، لیکن اُن کی تجویز کی کوئی بڑی پذیرائی جمہوری قوتوں میں نہیں دیکھی جاسکی۔
جب بھی اہلِ دانش یا حکومتی یا دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات اس طرز کی تجویز سامنے لاتی ہیں تو ایک طبقہ اس بحث میں الجھ جاتا ہے کہ ہم بلاوجہ عدلیہ اور فوج کو سیاسی معاملات میں یا تو الجھا رہے ہیں یا ان کو سیاسی نظام میں فریق کے طور پر شامل کررہے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ کسی ایک فریق کی دوسرے فریق پر سیاسی برتری کا نہیں، بلکہ عملی طور پر ریاستی و حکومتی نظام کو شفافیت کی طرف لانا ہے۔ کیونکہ آج پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذ پر جن بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا مقابلہ روایتی طرز سے نہیں بلکہ غیر معمولی اقدامات کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ اس ریاستی نظام میں موجودہ بحران اور مشکلات کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا، اور اس حکمت عملی سے گریز کرنا ہوگا کہ ہم کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ ڈسپرین کی گولی سے کریں۔ پاکستان عملاً جس طرز کے بحران کا شکار ہے اس کے لیے ہمارے تمام ریاستی فریقین، اہلِ دانش اور پارلیمان کو کھلے ذہن کے ساتھ کچھ نئی سوچ اور فکر کو تقویت دینی ہوگی۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب تمام فریقین ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت کریں۔
سیاسی نظام میں پارلیمنٹ ایسا فورم ہوتا ہے جو اس طرح کے مباحث کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ ایک بڑے پارلیمانی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ پارلیمنٹ عملی طور پرغیر فعال ہے اور سیاسی فریقین نے اس فورم کو نظام کی بہتری کے بجائے اس میں بگاڑ کے ماحول اور لڑائی کا فورم بنادیا ہے۔ قائدِ ایوان سمیت کئی ارکانِ پارلیمنٹ اور وزرا پارلیمنٹ میں آنا بھی پسند نہیں کرتے، اور ان کی عدم دلچسپی نے پارلیمانی نظام کو غیر مؤثر کردیا ہے۔ اس طرح کے سیاسی خلا میں بعض اہم باتیں پارلیمنٹ یا سیاسی قوتوں سے نہیں بلکہ غیر سیاسی لوگوں یا دیگر فریقین کی جانب سے آتی ہیں۔ سیاسی فریقین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جب وہ اپنی حکمرانی کے نظام کی مدد سے کچھ بہتر بنانے کے بجائے ایک بڑا سیاسی خلا پیدا کرتے ہیں تو پھر ان کی اہمیت پر بھی سوالیہ نشان لگتے ہیں۔
ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے سیاسی بالادستی کے لیے میثاقِ جمہوریت کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے دونوں جماعتوں نے اس میثاق کو اپنے اقتدار کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اگر واقعی یہ دونوں بڑی جماعتیں خلوص کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کو آگے بڑھاتیں اور دیگر سیاسی فریقین کو بھی اس کا حصہ بناتیں تو آج ہماری جمہوری سیاست خاصی بہتر ہوتی۔ جب سیاسی جماعتیں پر جمہوریت اور سیاست کو محض اپنے اقتدار کے کھیل کا حصہ بنائیں گی تو جمہوری نظام کو مؤثر بنانے کے لیے اصلاحات کا جو عمل درکار ہوتا ہے وہ غیر مؤثر ہوجاتا ہے۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھتا ہے، مگر ہم نے اول تو اصلاحات کی ہی نہیں، اور اگر کی ہیں تو اس میں سیاسی کمٹمنٹ کا فقدان اور نمائشی عمل زیادہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اہم بات کی ہے کہ سول بالادستی اور جمہوری استحکام کے لیے احتساب کا عمل لازم ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں احتساب کے لیے کوئی تیار نہیں۔ بداعتمادی کی حالت یہ ہے کہ جن لوگوں کو احتساب کے عمل سے گزرنا پڑرہا ہے وہ اس عمل کو عدلیہ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گٹھ جوڑ سے تعبیر کرتے ہیں۔ احتساب کو شفاف بنانے کے لیے سیاسی نظام میں جو مؤثر قانون سازی یا ترامیم درکار ہوتی ہیں، ان سے سیاسی قیادت گریز کرتی ہے۔ بلاتفریق احتساب کیسے ممکن ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینے والے کردار نظام کو اور زیادہ آلودہ کررہے ہیں۔ جمہوریت کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی کرپشن اور بدعنوانی کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ملک کو اس وقت سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر واقعی جمہوریت کی بنیاد پر نظام کو چلانا ہے تو اصلاحات کا عمل تیز بھی کرنا ہوگا اور اسے مؤثر اور شفاف بھی بنانا ہوگا۔ اس لیے اگر موجودہ نظام میں بگاڑ کے تناظر میں ایک نئے مکالمے یا نئے مباحثے کی ضرورت ہے تو اس سے کسی بھی طور پر گریز نہیں کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درست کہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں اداروں میں اعتماد کا فقدان ہے، اور ہر ادارے کی اپنی وجوہ ہیں، اور اب یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ اسی طرح ان کے بقول حکومتی معاملات میں فوج اور ایجنسیوں کے کردار پر بات چیت بھی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے درست نشاندہی کی ہے۔ کیونکہ ہمارے سیاسی نظام میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ سے مسئلہ رہے ہیں، اور اس مسئلے سے سیاسی نظام میں تعطل بھی پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں جمہوری عمل مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے۔ ہمارے بہت سے دانش ور اور سیاسی طبقات یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ یہ مسئلہ ہے۔ حالانکہ اسی مسئلے کی وجہ سے اداروں میں بداعتمادی اور ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جس سے عملی طور پر ہمارے دشمن بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جو ہمیں کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔
مسئلہ محض بڑے بڑے سیاسی، آئینی اور انتظامی مسائل ہی نہیں، بلکہ حکمرانی کے پورے نظام میں بڑا بگاڑ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ نظام عام آدمی سے زیادہ طاقتور افراد کے ماتحت ہے اور ان کے حقوق کو یقینی بناتا ہے، جبکہ عام آدمی کے استحصال سے جڑا ہے۔ جب کوئی نظام طاقتور طبقات کے مفادات سے جڑ کر حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھاتا ہے تو اس کا نتیجہ سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ ہماری بیوروکریسی سے لے کر پولیس اور انصاف کے تمام ادارے اس وقت ایک بڑی سرجری چاہتے ہیں، اور پرانے مرض کا علاج جدید تقاضوں کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ نظام کوئی بھی حتمی نہیں ہوتا بلکہ اس کو ہر وقت بدلا اور اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔
جو تجویز چیف جسٹس صاحب نے دی ہے اس پر واقعی تمام فریقین میں ایک بڑے مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس کی ابتدا حکومت کو ہی کرنی ہے، اور اگر وزیراعظم عمران خان اور صدر ڈاکٹر عارف علوی اس مکالمے کو تمام فریقین کی مدد سے آگے بڑھائیں تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ایک باہمی اتفاقِ رائے درکا ہے، اور تمام فریقین کے درمیان حکمرانی کے نظام میں ایک نئی جہت اور نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔ ہر فریق کو دوسرے فریق کے مؤقف کو سمجھ کر نئی حکمت عملی بنانی چاہیے، اور ایسی حکمت عملی جس پر سب ایک آواز ہوسکیں، یہی قومی مفاد ہوگا اور اسے ہی مقدم ہونا چاہیے۔کیونکہ یہ بات اب بہت حد تک واضح ہوچکی ہے کہ ہمیں ایک نئے نظام کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔ کیونکہ موجودہ نظام اپنی سیاسی اور انتظامی افادیت کھوچکا ہے۔ سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکمرانی کا جو نظام موجود ہے اس سے لوگوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے۔ بالخصوص حکمرانی کے جو طورطریقے یہاں اختیار کیے گئے ہیں ان سے اس نظام کی ساکھ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس لیے اگر ہم نئے نظام کی بحث کو آگے بڑھائیں تو اس کے نتیجے میں ایسے نظام کی طرف پیش قدمی کی جاسکتی ہے جو آج قومی ضرورت کے عملی تقاضوں کو پورا کرسکے۔ اس بحث سے کسی ڈر اور خوف میں مبتلا ہونے اور کسی سازشی تھیوری کو تلاش کرنے کے بجائے اس کی اہمیت کا احساس کرکے آگے بڑھنا چاہیے، یہی سب کے مفاد میں ہوگا۔