گلگت بلتستان ا ور آزادکشمیر… سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور اس کے آزادکشمیر کے ساتھ ربط وتعلق کا معاملہ عرصہ دراز سے گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ تاریخی اعتبار سے گلگت بلتستان کا علاقہ کشمیر کی غیر منقسم ریاست کا حصہ رہا ہے، مگر گلگت بلتستان کی سیاسی جماعتیں اب آزادکشمیر کے ساتھ کسی سیاسی اور انتظامی تعلق کو برقرار رکھنے کی مخالفت کرتی چلی آرہی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ملک کے فیصلہ سازوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو مسئلہ کشمیر کے نام پر جمہوریت اور ووٹ کے حق سے محروم رکھا۔ حقیقت میں اس کی وجہ مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ علاقے کی جغرافیائی حیثیت ہوسکتی ہے، کیونکہ آزادکشمیر کے عوام کو مسئلہ کشمیر کے باوجود مدتوں پہلے جمہوریت اور ایک نیم خودمختار قسم کی حیثیت حاصل ہوئی جس میں صدر اور وزیراعظم کے انتظامی عہدوں کے علاوہ اپنی سپریم کورٹ کا حق بھی حاصل ہوا۔
میاں نوازشریف کی حکومت نے سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کرکے گلگت بلتستان کے انتظامی اور آئینی مستقبل کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کمیٹی نے گلگت بلتستان کو ملک کا عبوری صوبہ بنانے کی سفارشات مرتب کی تھیں، جس کے بعد گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کررکھا تھا، جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی موجودہ آئینی حیثیت کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ اپنے منصب سے فارغ ہونے سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے 7 جنوری کو محفوظ کیا جانے والا فیصلہ سنایا، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے زیرانتظام علاقوں کو حقوق دینے کے پابند ہیں۔ عدالت نے اس کی مثال کے طور پر 1999ء کے الجہاد ٹرسٹ کیس میں عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ گلگت بلتستان کو آئینی حقو ق دینے کا حکم دے چکی ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات گلگت بلتستان میں نافذالعمل ہیں، عدالت کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ گلگت بلتستان کا کوئی بھی قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے سے پہلے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی ایک قرارداد کے ذریعے ان علاقوں کو آزاد کشمیر طرز کا نیم خودمختار ڈھانچہ دینے کا مطالبہ کرچکی تھی۔ یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ آزادکشمیر کے عوام گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے عمل کو پسند نہیں کرتے۔ آزادکشمیر اسمبلی نے گلگت بلتستان کے عوام کے جمہوری حقوق کے حصول میں تساہل برتنے پر ان سے معذرت بھی کی تھی۔ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں گلگت بلتستان کے آئینی مستقبل کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہورہا تھا کہ اس فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کو بااختیار بنانے کا سفر مزید رکاوٹوں کا شکار ہوسکتا ہے، جبکہ آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کے خیال میں اس سے گلگت بلتستان کو آزادکشمیر طرز کا نظام دینے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ اسلام آباد کے فیصلہ ساز حلقوں کے لیے مشعل ِراہ ہے کہ وہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی موجودہ متنازع حیثیت کو تبدیل کیے بغیر حقوق کے معاملے میں ’’اسکائی از دی لِمٹ‘‘ کا اصول اپنا سکتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام ایک مدت تک مسئلہ کشمیر کے نام پر جمہوری اور آئینی حقوق سے محروم رہے ہیں۔ اس طویل بے یقینی اور تذبذب نے وہاں کے عوام میں احساسِ محرومی اور ناراضی پیدا کیے رکھی۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا کوئی طبقہ خود کو مسئلہ کشمیر سے الگ کرنے کی کوشش بھی کرے تو زمینی حقائق کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ گلگت بلتستان کے علاقے کا جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی حصہ لداخ اور کرگل کی صورت میں بھارت کے قبضے میں ہے۔ اسی طرح مظفرآباد، وادی کشمیر اور میرپور سمیت دوسرے علاقے صوبہ جموں کا کٹا ہوا حصہ ہیں۔ قدرتی راستوں کی بندش، خونیں رشتوں کی دوری، مشترکہ تہذیب وثقافت یہ بتاتی ہے کہ یہ علاقے کسی بڑے تنازعے کا حصہ ہیں۔ اس طرح خطے کی متنازع حیثیت سے نظریں چرانا حقائق سے انحراف ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے سے یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر وسیع تر تنازع کشمیر کا حصہ ہیں۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ ان علاقوں کو حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں اب اسلام آباد کے فیصلہ سازوں کو گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے عوام کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ گلگت بلتستان کا خطہ ملک اور مراکز سے کٹا ہوا ہے۔ اس خطے کے عوام کو ضرورت کے تحت مراکز تک پہنچنے کے لیے طویل اور مہنگا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس تکلیف دہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت کو گلگت بلتستان کے عوام کو ہر سہولت اُن کی دہلیز پر فراہم کرنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ انہیں ملک کے دوسرے علاقوں کے برابر حقوق دینا ہوں گے اور گلگت بلتستان کے کسی باشندے کے لیے اپنے علاقے میں رہتے ہوئے ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر بنانا ہوگا۔ ایسا کیوں ہے کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے لوگ صرف اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرکے ہی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں! سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ مسئلہ کشمیر گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کا اسٹیٹس بلند کرنے اور انہیں ملک کے دوسرے علاقوں کے برابر لانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ اصل رکاوٹ پالیسی سازوں کی نیتوں کا فتور، کہولت اور کاہلی کا روایتی رویہ ہے۔