امریکی فوج کا شام سے انخلا شروع ہوچکا ہے۔ 13 جنوری کو اپنے ایک ٹویٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے خاتمے کے ساتھ ہی شام میں امریکی فوج کا مشن مکمل ہوگیا۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ’کرد وفاداروں‘ کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر ترکی نے کردوں کے خلاف عسکری کارروائی کی تو اسے معاشی طور پر نشانِ عبرت بنادیا جائے گا۔ ترکی کو دھمکی کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے کردوں کو بھی تلقین کی کہ وہ ترکی کو اشتعال نہ دلائیں۔ امریکہ کردش ورکرز پارٹی (ترک مخفف (PKK اور اس کے عسکری ونگ عوامی تحفظ محاذ (ترک مخفف YPG) کی پشت پناہی کررہا ہے جنھوں نے شام اور ترکی کی سرحد پر مورچے قائم کررکھے ہیں۔ واضح رہے کہ PKK کو خود امریکہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
چند ہفتے پہلے صدر ٹرمپ نے شام سے اپنے فوجی واپس بلانے کا سنسنی خیز اعلان کیا تھا جس پر خود امریکی فوج کو حیرت ہوئی اور مشورے کے بغیر اس قدر اہم فیصلے پر بطور احتجاج امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس نے استعفیٰ دے دیا۔ صدر کے اعلان کے بعد ان کے مشیرِ قومی سلامتی جان بولٹن اور وزیرخارجہ مائک پومپیو کے بیانات سے ایسا لگا کہ انخلا کے بارے میں صدر ٹرمپ کا اعلان حتمی نہیں اور امریکی حکومت اس پر مزید سوچ بچار کرے گی۔ لیکن کرسمس کی تعطیلات پر عراق میں امریکی فوجیوں سے اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج ہٹانے کا دوبارہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم رضاکارانہ طور پر عالمی پولیس مین نہیں بنیں گے، اور اگر دنیا ہماری مدد کی خواہش مند ہے تو وہ اپنی جیبیں ڈھیلی کرے، مفتے کا دور اب لد گیا۔
انخلا کے اعلان پر اسرائیل نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور وزیراعظم نیتن یاہو نے اسے ایران کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیا۔ مسٹر یاہو کا کہنا تھا کہ ایران نے شام اور لبنان میں خطرناک میزائلوں کا انبار لگا رکھا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا خیال ہے کہ جلدبازی کے نتیجے میں یہاں ایران کا عسکری اثر رسوخ مزید بڑھ جائے گا اور امریکی فوج کی واپسی سے تہران کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ امریکہ کے خلیجی اتحادی بھی انخلا کے فیصلے سے خوش نہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ فوجوں کی واپسی کے نتیجے میں علاقے سے امریکہ کی دلچسپی کم ہوجائے گی اور یمن کی جنگ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اکیلے لڑنی پڑے گی۔ گزشتہ دنوں ایران نے دور مار میزائلوں کے تجربات کیے ہیں، جبکہ ایک نیا دیوقامت غیر مرئی (Stealth)تباہ کن بحری جہاز سمندر میں اتارا ہے۔
اپنے اتحادیوں کی تشفی و تسلی کے لیے صدر ٹرمپ کے مشیر خصوصی جان بولٹن گزشتہ ہفتے اسرائیل تشریف لائے اور تل ابیب میں نیتن یاہو کو یقین دلایا کہ امریکہ کے فوجی انخلا سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایران فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش کی مکمل شکست کے بعد ہی شام سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہوگی۔اسی دوران جان بولٹن یہ بھی فرماگئے کہ انخلا سے پہلے ترکی سے کرد چھاپہ ماروں کے تحفظ کی ضمانت لی جائے گی۔ اس بات پر ترکی کے صدر جناب رجب طیب ایردوان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا تحفظ امریکہ ہی کو مبارک ہو، ہم اپنی قومی سلامتی پر سودے بازی نہیں کریں گے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ امریکہ کی شام میں موجودگی ان دونوں ملکوں کا معاملہ ہے، لیکن ہم اپنی سرحدوں کے قریب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں رہنے دیں گے اور ترکی کے لیے داعش اورYPG میں کوئی فرق نہیں۔ جناب ایردوان نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کے دورے پر آئے جان بولٹن سے ملاقات سے انکار کردیا اور امریکہ کا مؤقف جاننے کے لیے اپنے ترجمان ابراہیم کالن کو ملاقات کے لیے بھیجا۔ دورے کے اختتام پر نہ صرف مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ کردی گئی بلکہ وزارتِ خارجہ نے کوئی رسمی اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا۔ جان بولٹن کی لن ترانی پر ترکی کے ردعمل کو یورپی صحافیوں نے عثمانی طمانچہ قرار دیا۔ ایردوان پر ’الزام‘ ہے کہ وہ عثمانی خلافت کی تجدید و احیا چاہتے ہیں۔
جان بولٹن کے بعد امریکہ کے وزیرخارجہ مائک پومپیو اسی ایجنڈے کے ساتھ اردن، مصر، قطر، سعودی عرب، اومان، کویت کے دورے پر آئے۔ تادم تحریر یہ دورہ جاری ہے اور مسٹر پومپیو سعودی رہنمائوں سے بات چیت میں مصروف ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جناب پومپیو ترکی بھی جانا چاہتے تھے لیکن جان بولٹن کی درگت دیکھ کر انھوں نے انقرہ جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
جان بولٹن کی طرح مائک پومپیو کے دورے کا مقصد بھی ایران کے خلاف عرب قیادت کو واشنگٹن کی مکمل حمایت کا یقین دلانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ داعش کے خاتمے اور شام میں ایرانی اثر رسوخ کے خاتمے سے پہلے فوجی انخلا نہیں ہوگا۔ عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے ایک بار پھر کرد علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ امریکہ کرد ترک تنازعے کے حل کے لیے دونوں فریقوں سے رابطے میں ہے۔ مائک پومپیو کی گل افشانی کا ترک وزارتِ خارجہ نے ترنت جواب دیا کہ ہمارا کرد بھائیوں سے کوئی تنازع نہیں، باقی رہے دہشت گرد، تو ان کا علاج ہمارے پاس موجود ہے، جناب پومپیو کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے دن ترک وزیرخارجہ مولت اوغلو نے بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا کہ اگر شام میں امریکی فوج نے کرد دہشت گردوں کی پشت پناہی جاری رکھی تو ترک فوج خود کارروائی کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ ترک فوج کی جانب سے کردوں کے قتل عام کے احمقانہ بہانے کے نام پر شام سے امریکی فوج کی واپسی میں تاخیر ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں اور ترک افواج ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔ ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکہ کے اتحادی دہشت گرد گروہ YPGکے خلاف ترک فوج اپنی کارروائی جاری رکھے گی اور امریکی فوج کے جانے یا رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اگر YPG ترک شام سرحد سے پیچھے ہٹ جائیں تو ترکی کو اعتراض نہ ہوگا۔ ہم جنگ اور بات چیت دونوں کے لیے تیار ہیں۔ ترکی کو شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی پر روزِ اوّل سے اعتراض رہا ہے۔ انقرہ کو شک ہے کہ امریکی فوج اور نیٹو کی جانب سے داعش کی سرکوبی کے نام پر YPG کو جو اسلحہ دیا جارہا ہے وہ ترک فوج پر حملے اور دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
YPG کے معاملے پر ترکی اور امریکہ کے درمیان حالیہ شدید کشیدگی کا آغازگزشتہ برس جنوری میں ہوا جب امریکہ نے داعش سے خالی کرائے گئے شامی علاقوں کی نگرانی کے لیے YPGکو مسلح کرنے کا اعلان کیا۔ ترکی نے اپنی سرحدوں پر YPG دہشت گردوں کے اڈوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ترک فوجی ذرائع نے انکشاف کیا کہ YPG کے چھاپہ مار سرحدی شہر منبج اور اس کے مشرق میں دریائے فرات کے کنارے واقع شہر عفرین میں لوگوں کو ان کے مکانوں سے بے دخل کرکے محفوظ ٹھکانے قائم کررہے ہیں۔ امریکہ نے ترکی کے خدشات کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ YPGکا ہدف داعش ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا مخلص حلیف ہے۔ جس پر ترک صدر نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی سرحدوں پر دہشت گردوں کا اجتماع کسی صورت قابلِ قبول نہیں، اور ہم تشکیل سے پہلے ہی امریکہ کے ان دلاروں کا گلا گھونٹ دیں گے۔
صدر ایردوان کی اس دھمکی پر صدر ٹرمپ کے سابق مشیر قومی سلامتی جنرل مک ماسٹر خاصے برہم ہوئے اور غضب ناک لہجے میں فرمایا کہ امریکہ کے حلیفوں پر حملے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اس دھمکی کے باوجود ترک فضائیہ نے شمالی شام میں عفرین شہر کے آس پاس YPG کے مورچوں پر حملے شروع کردیے اور صرف 48 گھنٹوں میں دہشت گردوں کے 340 ٹھکانے تباہ کردیے گئے۔ YPG نے ترک حملوں کے خلاف امریکی فضائیہ سے مدد طلب کی لیکن امریکیوں نے ترکی سے براہِ راست پنگا لینا مناسب نہ سمجھا۔ اسی کے ساتھ ترک صدر نے اپنی فوج کو عفرین میں داخل ہونے کا حکم دے دیا اور تھوڑی سی مزاحمت کے بعد ترکوں نے YPG کو تتر بتر کردیا۔ عفرین میں کارروائی کے دوران عثمانی خلافت کا شوشا بڑی شدت سے اٹھا اور یورپین میڈیا نے عفرین میں اس فوج کشی کو صدر ایردوان کی جانب سے عثمانی خلافت کی تجدید کا ایک قدم قرار دیا۔پروپیگنڈے اور جوابی حملے کی امریکی دھمکیوں کے باوجود ترک فوج نے کارروائی جاری رکھی اور YPGچھاپہ ماروں کا زور توڑکر مقامی لوگوں کی مدد سے عفرین شہر پر گرفت مضبوط کرلی۔ قبضہ مکمل ہوتے ہی دفاع سمیت تمام ذمہ داریاں شہری حکومت کو سونپ دی گئیں۔
یہاں سے فرار ہوکر YPGنے منبج کو ٹھکانہ بنالیا اور امریکہ نے YPGکی پشت پناہی جاری رکھی۔ عفرین میں استحکام پیدا ہوتے ہی رجب طیب اردوان نے اپنی فوج کو منبج کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ ترک صدر کے اس اعلان پر امریکہ کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا اور ایسا لگا کہ YPGکے دفاع کے لیے امریکی فوج کھل کر سامنے آئے گی، لیکن ترک فوج کی برق رفتار کارروائی سے امریکہ بہادر بھی دبائو میں آگئے اور واشنگٹن نے براہِ راست تصادم سے گریز کیا۔ امریکہ کا رویہ نرم ہوتا دیکھ کر ترک صدر نے جناب ٹرمپ کو پیشکش کی کہ اگر ایک ماہ کے اندر امریکہ منبج کو YPGسے خالی کرالے تو وہ اپنی فوج کو پیش قدمی روکنے کا حکم دینے کو تیار ہیں۔ ترکی کے تیور دیکھ کر امریکہ نے YPGکے چھاپہ ماروں کو غیر مسلح کرنے کے بعد ان جنگجوئوں کو منبج (Manbij)شہر سے ہٹانے پر رضامندی ظاہر کردی اور باوقار پسپائی اختیار کرتے ہوئے جنرل مک ماسٹر نے اعلان کیا کہ اگر ترکی شام میں داعش کے خلاف کارروائی کا یقین دلادے تو امریکہ YPGکو اسلحہ کی فراہمی روک دے گا۔ جواب میں ترکی کے وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے اس اعلان پر ’مخلصانہ‘ عمل درآمد کا منتظر ہے۔ 20 جنوری کو ایک ملاقات میں جنرل ڈاکٹر مک ماسٹر نے اپنے ترک ہم منصب کو یقین دلایا کہ امریکہ کالعدم کردش ڈیموکریٹک پارٹی کے عسکری ونگ YPGکو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کررہا ہے۔ ترکی نے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردوں کے لیے امریکی اسلحہ کی بندش کافی نہیں، امریکہ کو چاہیے کہ وہ YPGچھاپہ ماروں سمیت اپنی فوج کو عفرین اور منبج سے پیچھے لے جائے۔
جون کے آغاز پر امریکی وزارتِ خارجہ نے ترک وزیرخارجہ کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی جہاں ترک اور امریکی وزرائے خارجہ کے درمیان کرد چھاپہ ماروں کو ترک سرحد سے دورکردینے کا ایک لائحہ عمل یا Road mapطے پاگیا۔ معاہدے پر دستخط کے بعد ترک وزیرخارجہ نے متنبہ کیا کہ فیصلے پر مخلصانہ عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ترک فوج کی تیاری مکمل ہے اور ہم زیادہ دن انتظار نہیں کریں گے۔ ترکوں کے اس سخت اور دوٹوک رویّے پر امریکہ کے ساتھ نیٹو کے یورپی ممالک نے بھی ناراضی کا اظہار کیا۔ مغرب کو سب سے زیادہ غصہ اس بات پر تھا کہ طوعاً و کرہاً انھیں ترکوں کے مطالبات بھی ماننے پڑ رہے ہیں۔ YPG کو غیر مسلح کرنے اور منبج سے پسپائی کو امریکہ کی عسکری قیادت نے اپنی شکست قرار دیا۔
دوسری طرف صدر ایردوان نے روس سے تعلقات کو مزید بہتر بنالیا۔ان کی سب سے بڑی کامیابی گزشتہ برس ستمبر میں ادلب شہر کے خلاف روس، ایران اور شامی فوج کا خطرناک حملہ روکنا تھا۔ تیاریوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ خوفناک حملہ دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی بات ہے، لیکن صدر ایردوان نے ایرانی اور روسی صدور سے بات کرکے پہلے تو حملے کو وقتی طور پر ملتوی کروایا، جس کے بعد بحر اسود کے ساحلی شہر سوچی (Sochi)میں ترکی و روس کی چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی۔ 17 ستمبرکو ہونے والی کانفرنس میں صدر ایردوان نے اپنے روسی ہم منصب کو ایک پائیدار امن منصوبے پر راضی کرلیا، جس کے تحت باغیوں کے مضبوط ٹھکانوں کے قریب 15 سے 20 کلومیٹر چوڑا غیر عسکری علاقہ یا de-militarized zone قائم کردیا گیا اور مہینوں سے محصور شہریوں کو نقل و حرکت کی آزادی میسر آگئی۔ حملے کے لیے نصب کیا گیا بھاری اسلحہ ہٹانے کے بعد علاقے میں ترکی و روس کی فوجوں نے مشترکہ گشت شروع کردیا۔ اس معاہدے سے ایک طرف تو خوفناک لڑائی کا خطرہ ٹل گیا جس کا ایندھن ادلب کے نہتے شہریوں کو بننا تھا، تو دوسری طرف مشترکہ گشت کے نتیجے میں داعش دہشت گردوں کے لیے شہر میں ٹھکانے بنانا بھی اب ممکن نہیں رہا، اور اسی کے ساتھ YPGکے چھاپہ ماروں کا راستہ بھی کھوٹا کردیا گیا۔
جارحانہ عسکری اور سفارتی اقدامات سے ترکوں نے شامی سرحد پر اپنی گرفت خاصی مضبوط کرلی ہے۔ خاص طور سے شمال مغرب میں عفرین اور منبج سے YPG کے ٹھکانے تقریباً ختم ہی ہوگئے۔ تاہم ترک خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ اب بھی YPGکی پشت پناہی کررہے ہیں، چنانچہ ترکی کی خواہش تھی کہ شام میں تعینات امریکی فوجیں یہاں سے واپس چلی جائیں، دوسری طرف صدر ٹرمپ بھی وہاں موجود فوج کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے تنگ تھے۔ معلوم نہیں یہ ترکی کا دبائو تھا یا بڑھتا ہوا عسکری خرچ کہ صدر ٹرمپ نے انخلا کی کڑوی گولی نگلنے کا فیصلہ کرلیا اور ملاقات و مشورے کے تکلف میں پڑے بغیر شام سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کردیا گیا۔ وزیردفاع کے استعفے اور وزیر دفاع و مشیر سلامتی کے متنازع بیان سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آیا، لیکن 11 جنوری کو شام میں امریکی فوج کے ترجمان کرنل شان ریان (Col Sean Ryan) نے امریکی فوج کے انخلا کی تصدیق کردی۔کرنل صاحب نے کہا کہ حفاظت کے پیش نظر نظام الاوقات اور واپسی کا راستہ خفیہ رکھا جارہا ہے۔ تاہم عسکری نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی شام کے الحسکہ شہر میں قائم رمیلان کے فوجی اڈے سے پسپائی کا آغاز ہوا ہے اور پہلے مرحلے میں 10 بکتربند گاڑیوں کے ایک قافلے کو مشرق میں عراقی کردستان کے شہر سنجر کی طرف جاتے دیکھا گیا۔
امریکی فوج کی شام سے واپسی پر ترکی سب سے زیادہ خوش ہے، لیکن اب کہا جارہا ہے کہ سنجر میں عارضی پڑائو کے بعد پسپا ہوتی امریکی سپاہ کی منزل شمال مشرق کی جانب دریائے دجلہ کے دوسری طرف عراق و ترکی کا سرحدی شہر زاخو ہے۔ زاخو اور عقرہ شہروں میں YPG کے تربیتی مراکز ہیں۔ یعنی اب ترکوں کو عفرین اور منبج کے بجائے مشرق میں زاخو پر نظر رکھنی پڑے گی۔ گزشتہ ماہ عراقی کردستان کے وزیراعظم نوشیروان ادریس برزانی نے ترک وزیرخارجہ کو یقین دلایا تھا کہ کردستان اپنی سرزمین کو ترکی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ترکوں کو امید ہے کہ کردستان اپنے وعدے کی پاسداری کرے گا۔
صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز و ناخوشگوار ٹویٹ سے جہاں صدر ایردوان ایک بار پھر بدمزہ ہوگئے ہیں، وہیں شام سے امریکی فوج کی عراق آمد پر بغداد میں بھی گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ کرسمس کے موقع پر صدر ٹرمپ نے بغداد کے مضافات میں قائم امریکی فوجی اڈے کا دورہ کیا تھا۔ حزبِ اختلاف کا دعویٰ ہے کہ امریکی صدر نے یہاں آنے سے پہلے اجازت تو دور کی بات، اپنے عراقی ہم منصب کو آگاہ تک نہیں کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے دورے کے بعد سے عراق میں امریکی فوج کی موجودگی شدید تنقیدکا نشانہ بنی ہوئی ہے اور شیعانِ عراق کے رہنما مقتدیٰ الصدر نے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں داعش کے خاتمے کے بعد یہاں امریکی فوج کی کوئی ضرورت نہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے عراق سے امریکی فوج کے انخلا پر صدر اوباما کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انھوں نے کئی بار کہاکہ ہمیں عراق کے تیل کے ذخائر کو مالِ غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لینا چاہیے تھا۔ اس قسم کے بیانات کے حوالے سے عراقیوں کے لیے اپنے ملک میں امریکی فوج کی موجودگی پر تحفظات کی معقول وجہ موجود ہے۔امریکہ عراق کی وفاقی حکومت اورکردستان کے درمیان غیر محسوس کشیدگی سے فائدہ اٹھاکر شام سے واپس آنے والی فوج کو کردستان میں تعینات کررہا ہے اور کرد قیادت کو بظاہر اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
صدر ایردوان کے طرزِ سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ترکی YPGکے حوالے سے صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز ٹویٹ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا نظر نہیں آتا، اور اگر ان دہشت گردوں نے چچا سام کی حمایت کے زعم میں کوئی شوخی دکھائی تو منہ توڑ عثمانی طمانچہ خارج از امکان نہیں، کہ صدر ایردوان قومی سلامتی و وقار کے معاملے میں کسی مداہنت یا نرمی کے روادار نہیں۔
نوٹ:
قارئین اب مسعودابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔