وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خاتمے کے لیے دائر مقدمات کی سماعت کی۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ یو بی ایل کی دائر کی جانے والی ایک درخواست پر شروع ہوا، اور عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا۔ تاہم وفاقی حکومت نے (اُس وقت نوازشریف وزیراعظم تھے) اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی، لہٰذا یہ مقدمہ ابھی تک التواء میں چلا آرہا ہے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں اس مقدمے کی ایک طویل سماعت ہوئی تھی۔ اُس وقت جسٹس وجیہ الدین احمد اور جسٹس تقی عثمانی بھی بینچ میں شامل تھے۔ اُس وقت کے اٹارنی جنرل چودھری فاروق نے تفصیل کے ساتھ دلائل دیے۔ عالمی اسلامی بینک کے سربراہ کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ اسلامی معیشت کے ماہر پروفیسر خورشید احمد نے بھی تحریری دلائل پیش کیے تھے۔ طویل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی عدالت نے متبادل نظام مانگا تھا، آج بھی عدالت نے یہی کہا ہے۔ اس سماعت کے دوران عدالت نے سود اور ربا میں فرق کرنے کے دلائل بھی سنے تھے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ کیس نظرثانی کی سطح سے ریمانڈ ہوکر شریعت عدالت میں آیا ہے، اس لیے عدالتی طریق کار کے مطابق دوبارہ تمام چیزوں کو دیکھنا پڑے گا۔ پہلے ان درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل سنے جائیں گے، اس کے بعد دیگر نکات پر کیس کو آگے بڑھایا جائے گا۔ اس کیس کی سماعت ہوئی تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما پروفیسر ابراہیم، میاں محمد اسلم، علامہ ساجد نقوی کے وکیل سکندر گیلانی، تنظیم اسلامی کے وکیل غلام فرید سنوترا، معروف اسکالر انور عباسی، سیف اللہ گوندل ایڈووکیٹ اور عطا الرحمن سمیت دیگر علما اور وکلا موجود تھے۔ چیف جسٹس شیخ نجم الحسن کی سربراہی میں 5 رکنی عدالتی بینچ نے کیس کی سماعت کی ہے، اور حالیہ سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ ملک میں مروجہ نظام اور اسلامی نظامِ معیشت میں بہت بڑا فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ نظام میں منافع پر ٹیکس ہے، جبکہ اسلامی نظام میں اصل رقم پر ٹیکس عاید ہوتا ہے، موجودہ نظام کی مخالفت کرنے والے پہلے ایک مکمل نظام بناکر پیش کریں تاکہ عدالت معاملے کو آگے بڑھا سکے، اور وفاق اسلامی نظامی معیشت کے بارے میں بتائے کہ یہ کیا نظام ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ بینک کے وکیل کو بھی طلب کرلیا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے وکیل پیش نہ ہوئے تو بینک کے سربراہ کو طلب کیا جائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے وکیل سلمان اکرم راجا سماعت کے دوران موجود نہیں تھے۔ سلمان اکرم راجا بہت سینئر وکیل ہیں تاہم وہ ایک خاص مزاج کے حامل ہیں، انہیں علم ہے کہ ان کے دلائل سے ہی مقدمے کو آگے بڑھایا جانا تھا، لہٰذا انہوں نے رخصت چاہی کہ پہلے جو دلائل دیے جارہے ہیں انہیں دیکھ لیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر 1988ء میں شریعت آرڈیننس لایا گیا تھا جو 15 اکتوبر 1989ء کو ختم ہوگیا۔ اس قانون کے تحت ایک کمیشن بنایا گیا تھا جسے دو ماہ میں رپورٹ دینی تھی، اور آئین کو اسلامی بنانے کے حوالے سے سفارشات دینی تھیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم میں لکھا ہے کہ اُن ممالک کے نظام کو بھی دیکھا جائے جہاں سود کے بغیر نظام چل رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ سطحی کمیشن نے اگر کوئی رپورٹ دی ہے تو وہ بھی سامنے لائی جائے، اور اگر اسٹیٹ بینک نے کوئی کام کیا ہے تو بتایا جائے کہ اسلامی نظام معیشت کیا ہے۔ دنیا میں بہت سے نظام آتے رہے ہیں، ہمارا کیا نظام ہے یہ سمجھ میں نہیں آرہا! عدالتِ عظمیٰ کے حکم میں تحریر ہے کہ اسٹیٹ بینک میں اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے کیا کیا ہے؟ راجا ظفرالحق کی رپورٹ میں بہت سی ہدایات دی گئی تھیں، ان پر اب تک کیا کیا ہے؟ ہم نے مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں اور اسکالروں سے رائے لی ہے جس سے پتا چلا ہے کہ ہمارے موجودہ نظام اور اسلامی نظام میں بڑا فرق ہے۔
کیس کی سماعت کے بعد سینیٹر سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے ماتھے پر لکھے کلمے کا تقاضا ہے کہ سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے، حکومت سود کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی کی حمایت کرے، اور سودی نظام کی حمایت نہ کرے۔ ہم پاکستان کے عوام کی طرف سے
سودی نظام کے خلاف قانونی و عدالتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آئین کی دفعہ 138 سود پر پابندی عاید کرتی ہے۔اسلامی معاشی نظام کے بغیر اسلامی طرزِ زندگی ناممکن ہے۔ 1992ء میں وفاقی شریعت عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ دیا جس پر عوام نے خراج تحسین پیش کیا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے نظرثانی کے لیے کیس شرعی عدالت کو بھیج دیا۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک سے سود کا خاتمہ کرے،انتخابات سے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو مدینے جیسی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا، حکومت اپنے وعدے کو نبھانے کے لیے سودی نظام کی وکالت نہ کرے۔ اس وقت بھی 2.4 ٹریلین روپے پر مشتمل 15 فیصد بینکنگ اسلامی طریقے سے ہورہی ہے۔ حکومت کے 2023ء وژن میں سود کا خاتمہ شامل نہیں ہے، جو قابلِ افسوس ہے۔ موجودہ نظام کی وجہ سے صرف 35 فیصد لوگ بینکوں میں پیسہ رکھتے ہیں، اگر پورا نظام اسلامی ہوجائے تو100 فیصد لوگ بینکوں میں پیسہ رکھیں گے، جس سے معیشت مضبوط ہوگی۔ سودی نظام نے پاکستان کو بھکاری بنادیاہے ، معیشت ترقی نہیں کررہی، ملک پر قرضے چڑھ رہے ہیں، ہر منٹ میں ایک کروڑ 30 لاکھ اور ہر گھنٹے میں 62 کروڑ قرض بڑھ رہا ہے۔ چار ماہ میں 2240 ارب روپے کا قرض لیا گیا ہے، سود کی وجہ سے معیشت شیطانی چکر میں پھنس چکی ہے۔ وفاقی شریعت عدالت کے چیف جسٹس شیخ نجم الحسن سے امید کرتے ہیں کہ 1992ء کی طرز پر فیصلہ دیں گے۔ ہم سودی نظام کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ خیبرپختون خوا میں خیبر بینک کی 65 برانچیں سود سے پاک بینکاری کررہی ہیں، ہم نے سینیٹ میں بل پیش کیا ہے جس کے تحت اسلام آباد میں نجی سودی کاروبار پر مکمل پابندی عاید ہوجائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کے ساتھ بہت سے وعدے کیے، لیکن یہ لوگ وعدے اور نعرے بھول جاتے ہیں۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کے وکیل سود کے حق میں دلائل دے رہے ہیں، حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ سود کے خاتمے کے لیے دلائل دے۔ حزبِ اختلاف میں بھی جماعتوں کا ہر معاملے میں اپنا مؤقف ہے۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کو موقع ملا لیکن انہوں نے سود کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سود کی طرح شراب بھی حرام ہے، اقلیتی رکن رمیش کمار کے بل کو جماعت اسلامی نے سپورٹ کیا جبکہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے مخالفت کی۔ ان تینوں جماعتوں کا شراب اور آسیہ کے معاملے سمیت بہت سے معاملات میں ایک ہی مؤقف ہے۔