کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت پر گامزن ہے؟

پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس کا داخلی اور خارجی استحکام ہے۔ کیونکہ ہمیں بیک وقت داخلی اور خارجی محاذ پر جو بڑے مسائل یا چیلنج درپیش ہیں وہ کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ آج کی دنیا میں خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت تین بنیادی اصول وضع کیے جاتے ہیں جس میں اوّل داخلی پالیسی، دوئم علاقائی ممالک یا ہمسائے کے ساتھ بہتر تعلقات، اور سوئم عالمی خارجہ پالیسی کے خدوخال شامل ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی ترتیب دیتے وقت زیادہ سے زیادہ دوست بنانا اور ممالک کو اپنے ساتھ جوڑنا اہم ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں دوستی کے ساتھ ساتھ مفادات اہم ہوتے ہیں کہ کس طرح سے ممالک مل کر ایک دوسرے کے مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔ ایک مسئلہ بداعتمادی، شکوک وشبہات اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا ہوتا ہے جو عمومی طور پر خارجہ محاذ پر مزید بدگمانیاں پیدا کرکے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ان ہی اہم معاملات کو مدنظر رکھ کر ریاستی یا حکومتی نظام اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے خدوخال ترتیب دیتا ہے اور بوقتِ ضرورت اس میں حالات کے مطابق تبدیلیوں کو بنیاد بناکر مزید نئی اصلاحات پیدا کرتا ہے، کیونکہ خارجہ پالیسی کبھی بھی جامد نہیں ہوتی اور یہ حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ لیکن مختلف حالات میں خارجہ پالیسی کی تبدیلی میں جو تدبر، فہم و فراست اور مؤثر حکمت عملی درکار ہوتی ہے اگر اس کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو پھر ایک سطح ہم خود بھی اپنی کمزوریوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں دوسروں پر ضرور تنقید کرنی چاہیے مگر اس سے قبل اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ہم عملی طور پر کہاں کھڑے ہیں اور ہم سے کہاں غلطیاں ہوئی ہیں۔
پاکستان کو جو پانچ بڑے چیلنج خارجہ پالیسی کے تناظر میں درپیش ہیں ان کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اول: داخلی سیاسی عدم استحکام، دوئم: معاشی عدم استحکام اور غیروں پر بہت زیادہ انحصار، سوئم: سول ملٹری تعلقات کے مسائل، چہارم: ہمسایہ ممالک کے ساتھ بداعتمادی، پنجم: اداروں کے بجائے افراد پر مبنی پالیسی یا مشاورتی عمل کا فقدان۔ ان ہی مسائل کی وجہ سے ہم ایک مؤثر خارجہ پالیسی سازی میں مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں۔ سیاست میں جو فہم، تدبر، فراست، بردباری اور دانش درکار ہے وہ ہم اجتماعی طور پر مضبوط نہیں بنا سکے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہم بطور قوم دانش سے محروم ہیں، بلکہ اصل مسئلہ قوم میں موجود اہلِ دانش کو نظرانداز کرنا، اور ایسے تھنک ٹینک یا سوچ بچار کے اداروں کا فقدان اور ان کو اہمیت نہ دینے کی پالیسی ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو داد دینی ہوگی کہ وہ روایتی خارجہ پالیسی کے مقابلے میں کچھ ایسے نئے امکانات اور سوچ بچار کے بعد ایسے فیصلے کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو مستقبل میں بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نہ صرف ایک تجربہ کار سیاست دان اور پارلیمنٹرین ہیں بلکہ اس سے قبل بھی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ان کا ماضی کا تجربہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے اور عالمی سطح پر اُن کے ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کے تسلسل کے ساتھ قطر، چین، یو اے ای، افغانستان، ایران، روس، سعودی عرب کے دورے اور اسلام آباد میں مختلف ممالک کے سفیروں اور وزرائے خارجہ کے ساتھ باہمی ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ حکومتی ایجنڈے میں خارجی مسائل اور ان کا حل ترجیحی ایجنڈا ہے۔ اسی طرح سے وزیراعظم عمران خان کی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش، اور بھارت کے ایک قدم چلنے پر دو قدم آگے بڑھنے کا پیغام، بھارتی وزیراعظم کو خط، کرتار پور راہداری کا سنگِ بنیاد، مسئلہ افغانستان کا مؤثر حل، امریکہ، چین، روس سے تعلقات اور جنگوں و تنازعات کے مقابلے میں انسانوں پر سرمایہ کاری کرنا اور غربت سمیت معاشی خوشحالی کو فوقیت دینا اہم نکات ہیں۔ ویسے بھی اگر ہمیں آگے کی طرف بڑھنا ہے تو سب کو تضادات اور تنازعات کی سیاست سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا اور سیکورٹی ریاستوں کے مقابلے میں فلاحی ریاست کے تصور کو مضبوط کرکے اپنی سیاسی، سماجی اورمعاشی حکمت عملی کو نئے سرے سے مرتب کرنا ہوگا۔
حال ہی میں حکومت نے دو اہم فیصلے خارجہ پالیسی اور معاشی استحکام کے تناظر میں کیے ہیں جو واقعی اہمیت بھی رکھتے ہیں، اور اگر یہ مؤثر انداز میں آگے بڑھے تو بہتر نتائج بھی مل سکیں گے۔ اول، وزیراعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں خارجہ پالیسی پر مشاورت کے لیے 18رکنی کونسل کے قیام کی منظوری دی ہے۔ اس کونسل میں سابق سفیروں، خارجہ امور کے ماہرین اور اہلِ دانش سمیت حکومتی وزرا کو شامل کیا گیا ہے۔ خارجہ امور کے ماہرین میں سلمان بشیر، جلیل عباس جیلانی، اشرف جہانگیر قاضی، محمد صادق، ڈاکٹر ہما بقائی، ڈاکٹر رفعت حسین، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی، ڈاکٹر عادل نجم، ڈاکٹر رابعہ اختر اور قاسم نیاز شامل ہیں۔ جبکہ وزیر قانون، وزیر خزانہ، مشیر تجارت، وزیر منصوبہ بندی، سیکریٹری خارجہ، ڈی جی فارن سروس اکیڈمی، ایڈیشنل سیکریٹری شامل ہیں۔ پہلی بار حکومتی سطح پر یہ کوشش کی گئی ہے کہ خارجہ پالیسی میں ماہرین کی مشاورت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جائے۔ البتہ اس کونسل میں ریاض کھوکھر اور سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ دونوں اس شعبے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔
اس کونسل سے حکومتی سطح پر اس تاثر کی بھی نفی کی گئی ہے کہ خارجہ پالیسی صرف فوج بناتی ہے اوراس میں حکومت سمیت کسی اورکی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر حکومت نے ماہرین کی سطح پرمشاورتی کونسل کو بنا کر یہ تاثر دیا ہے کہ جو بھی خارجہ پالیسی بنے گی وہ تمام سیاسی، انتظامی، عسکری اداروں، ماہرین اورپارلیمنٹ کی مشاورت سے بنے گی،جو اچھی ابتدا ہے۔ دوسری اہم بات، حکومتی سطح پر 27۔28دسمبر کو تاریخ میں پہلی بار سفیروں کی معاشی ڈپلومیسی کی کانفرنس طلب کی گئی۔ اس کانفرنس سے وزیراعظم نے کلیدی خطاب کیا۔ اس کانفرنس کا مقصد دنیا میں موجود سفارت کاروں اور اداروں کو اس نکتہ پر لانا تھا کہ خارجہ پالیسی کی مضبوطی اورمعاشی استحکام میں سفیروں اور سفارتی اداروں کا کیا مؤثر کردار بنتا ہے۔ماضی میں ہم سفارت پر مبنی ان اداروں کو اول تو استعمال ہی نہیں کرسکے، اوراگر کچھ ہوا تو ان اداروں میں سیاسی تقرریاں تھیں۔ اس حکومت کو یہ داد بھی ملنی چاہیے کہ مختلف ممالک میں جو نئے سفیر لگائے گئے ہیں اس میں میرٹ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت سفیروں اور سفارت کاروں سمیت سابق ماہرین کی خدمات سے خارجہ امور کے معاملات درست سمت میں لے جانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ، سفیروں اور وزارتِ داخلہ میں رابطوں کا جو فقدان ہے اس کو دور کرنا ہوگا۔ ان کے بقول اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی، ان کا ڈیٹا مرتب کرنا، قانونی معاونت فراہم کرنا، سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا، مقامی لوگوں پر مبنی کمیونٹیز فورم کا قیام، مختلف سماجی تقریبات کا فروغ، پاکستان کا مثبت تصور اجاگر کرنا، نئے معاشی مواقع کی تلاش، پاکستانی مارکیٹ کی عالمی مارکیٹ تک رسائی، انسانی حقوق کی صورت حال کا مقدمہ مؤثر انداز میں پیش کرنا ہوگا۔ اس کانفرنس میں مختلف حکومتی اداروں، وزارتوں اور ماہرین نے سفیروں کے سامنے مختلف سیشنز میں ان پہلوئوں کو اجاگر کیا کہ کس طرح سے ہم سفارتی محاذ پر معاشی ڈپلومیسی کی جنگ جیت سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر یہ کام محض ایک کانفرنس تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں تسلسل کی ضرورت ہے تاکہ اس بحث کو آگے بڑھایا جاسکے اور مثبت نتائج سامنے آسکیں۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ سمیت ہماری عسکری قیادت نے حالیہ مہینوں میں مسئلہ افغانستان کے پُرامن حل کے حوالے سے امریکہ، افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان جو ڈپلومیسی کی اور جس طرح سے سب فریقین کو ایک میز پر بٹھایا وہ قابلِ قدر ہے۔ پاکستان کا فوری طور پر گرے لسٹ سے باہر آنا بھی حکومت کی اہم کامیابی ہے۔ امریکہ کا پہلے سخت ردعمل اور بعد میں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا عندیہ، سعودی عرب، ایران، یو اے ای، ملائشیا، قطر سمیت چین سے معاشی معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ بات پیچھے کے بجائے آگے بڑھ رہی ہے جو مستقبل میں نئے معاشی امکانات اور خارجہ پالیسی میں نئی مثبت جہتوں کو فروغ دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان داخلی سطح پر زیادہ مستحکم ہو، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ملک کے تمام سیاسی فریقین ایک بڑے ایجنڈے کے ساتھ ترقی کے عمل کو آگے بڑھائیں، اور جو غلطیاں انہوں نے ماضی میں کی ہیں ان کا خاتمہ کرکے اب ایسی پالیسی پر چلا جائے جس کا اصل مقصد ملک کو مضبوط اورمستحکم بنانا ہو، جو ملک میں بسنے والوں کی بھی ضرورت ہے۔