یکم جنوری 2019ء کی صبح دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر دور شمال مشرق میں واقع لورالائی شہر کے اندر فرنٹیئر کور بلوچستان کے ٹریننگ سینٹر میں چار دہشت گرد داخل ہوگئے۔ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا، دھماکوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ فوج سمیت پولیس، لیویز اور ایف سی کی بھاری نفری پہنچ گئی۔ دہشت گرد چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ وہ وقتاً فوقتاً دستی بم حملے کرتے رہے۔ نشانہ بننے والی جگہ لورالائی کی چھائونی ہے جس میں حساس اداروں کے دفاتر سمیت رہائشی مکانات بھی ہیں، جن میں خاندان رہائش پذیر ہیں۔ اطلاع ہے کہ حملہ آوروں نے اعلیٰ افسران کی رہائش گاہوں میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی، جنہیں فورسز نے داخل ہونے نہیں دیا۔ حملہ آوروں کو فرار کا موقع نہ دینے کی خاطر آس پاس کے علاقوں کا کنٹرول لے لیا گیا اور لورالائی کے بازار کو بند کردیا گیا۔ یا مقابلہ کئی گھنٹے جاری رہا۔ وقوعہ کی حساسیت کے پیش نظر کوئٹہ سے ہیلی کاپٹروں میں کمانڈوز پہنچائے گئے۔ چونکہ حملہ آور علی الصبح اندھیرے میں داخل ہوئے تھے اس بناء پر آپریشن میں مشکلات پیش آئیں۔ بالآخر شام چار بجے تک آپریشن مکمل کرلیا گیا۔ حملہ آوروں نے خودکش جیکٹیں پہن رکھی تھیں اور ان کی تعداد چار تھی، یہ سب کے سب مارے گئے۔ حملہ آوروں کی فائرنگ سے فورسز کے چار جوان جاں بحق اور دو زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں صوبیدار میجر منور کا تعلق جھنگ سے تھا، حوالدار بلال خاران کا تھا، اور سپاہی نقشاب کا تعلق گوجرانوالہ سے بتایا جاتا ہے۔ ایک اہلکار کا تعلق حساس ادارے سے تھا۔
اگرچہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن ہورہے ہیں، مگر افغانستان سے میں قیامِ امن،کابل رجیم کی بے دخلی اور امریکی و نیٹو افواج کے مکمل انخلا تک ان تنظیموں پر قابو پانا مشکل ہے۔ افغانستان کی سرزمین ان کی محفوظ پناہ گاہ ہے جہاں انہیں رہائش، علاج معالجہ، تربیت اور مالی امداد مل رہی ہے۔ یقیناً یہ سارا کام ’را‘ اور ’این ڈی ایس‘ کے اشتراک سے ہورہا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے معروف کمانڈر اسلم اچھو کا 25 دسمبر 2018ء کو قندھار میں ایک خودکش حملے میں مارا جانا اس امر کا قطعی ثبوت ہے۔ اسلم اچھو قندھار میں انتہائی مہنگے اور محفوظ علاقے ’’عینومینہ‘‘ میں رہائش پذیر تھا۔ اس کے ساتھ بی ایل اے کے چند دوسرے کمانڈر بھی نشانہ بن گئے۔
اسلم عرف اچھو انتہائی مطلوب شخص تھا۔دہشت گردی کے اس نے طویل عرصے سے فورسز کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کئی بڑے واقعات اس کی منصوبہ بندی سے ہوئے۔ آخری دنوں میں چینی قونصل خانے پر حملہ کرواکر اس نے دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی کرائی۔ فروری 2016ء میں اس کے خلاف سانگان کے پہاڑوں میں بڑا آپریشن ہوا جس کی نگرانی اُس وقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض خود کررہے تھے۔ اس آپریشن میں اسلم اچھو زخمی ہوگیا تھا۔ فورسز اور وزارتِ داخلہ بلوچستان نے اس کی ہلاکت کا اعلان کردیا کیونکہ ان کو یقین تھا کہ اسلم اچھو مارا گیا ہے، وہ اس لیے کہ بی ایل اے کے ایک اہم کمانڈر بزرگ مری نے اس کی مخبری کی تھی۔ اس کمانڈرنے بعد ازاں حکومت کے سامنیہتھیار ڈال دے۔ بہرحال اسلم اچھو زخمی حالت میں افغانستان پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ وہاں سے مزید علاج کے لیے نئی دہلی گیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد واپس قندھار آکر اپنی تنظیم کی کمانڈ شروع کردی۔
اسلم اچھو نے اپنی ہی تنظیم کے کمانڈر کی جانب سے مخبری کے بعد الگ دھڑا بی ایل اے مجید بریگیڈ کے نام سے قائم کرلیا۔ یعنی حیربیار مری کی بی ایل اے مذکورہ وجہ کی بناء پر چھوڑ دی۔ اس نئی تنظیم نے ڈاکٹر اللہ نذر کی تنظیم سے اتحاد کررکھا تھا۔ اسلم اچھو کے سر کی قیمت 70 لاکھ روپے رکھی گئی تھی۔ وہ طویل عرصے سے یعنی 1999ء سے شدت پسندی کی راہ پر تھا۔ اس پر درجنوں سنگین نوعیت کے مقدمات درج تھے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے اس کے مارے جانے کی تصدیق کردی، اور یہ تصدیق بھی کردی کہ اس کے ہمراہ تنظیم کے دوسرے کمانڈر سردرو عرف تاجو، اختر بلو عرف رستم، کریم مری عرف رحیم بلوچ، فرید بلوچ اور صادق بلوچ بھی مارے گئے۔ اس ترجمان کے مطابق اسلم اچھو تنظیم کے بانی رہنمائوں میں سے تھا اور وہ پچیس برس اس تحریک میں شامل تھا، اور اس کو جنگی ماہر سمیت سیاسی مفکر اور دانشور بتایا گیا۔ اسلم اچھو ضلع مستونگ کا قدیم رہائشی تھا اور عرصہ ستر سال سے اس کا خاندان کوئٹہ کے کاسی روڈ میں واقع کوچہ سلطان میں رہائش پذیر ہے۔ یہ کوئٹہ کا جانا پہچانا خاندان ہے۔ اسلم اچھو مزاحمتی سیاست کو سرداروں کے چنگل سے نکالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوا۔ اس نے خودکش حملوں کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنا شروع کردیا تھا۔ چینی قونصل خانے پر فدائی حملے سے قبل 11اگست 2018ء کو اسلم اچھو کے نوجوان بیٹے ریحان بلوچ نے دالبندین میں بارود سے بھری گاڑی چینی ملازمین کی بس سے ٹکرائی۔ یعنی جب دائین بریگیڈ قائم کیا تو سب سے پہلے اسلم اچھو نے اپنے بیٹے کا نام پیش کردیا۔ بیٹے کو اسلم اچھو اور اس کی اہلیہ نے رخصت کیا، جس کی ویڈیو بھی عام ہوئی۔ حیر بیار مری کی بی ایل اے کے اندر اس کو تعصب اور بغض کا سامنا تھا۔ وہ سرفہرست تھا، یہی اس سے اغماض کی وجہ تھی۔ یاد رہے کہ نومبر2007ء میں بی ایل اے کے سربراہ نواب زادہ بالاچ مری کا انتقال بھی افغانستان میں ہوا تھا