ایک سیاسی کارکن کی یادداشتیں

گزشتہ سے پیوستہ
مچھ جیل میں جو رہائش گاہ الاٹ کی گئی تھی وہ مچھ جیل کا سب سے خوبصورت اور وی آئی پی حصہ تھا۔ اس کی صبح بھی بڑی خوشگوار اور پُرلطف تھی۔ صبح کا ناشتا بی کلاس کا تھا جو مشقتی لے کر آتا اور میں حسام الدین کے ساتھ ناشتا کرلیتا تھا۔ اس کے بعد اسی احاطے میں ہم دیگر قیدیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے۔ نواب محبوب علی مگسی کے قتل میں ملوث 3 افراد تھے، اُن سے صبح ان کے احاطے میں ملاقات ہوتی تھی۔ اس احاطے میں دو بھائی آغا عبدالظاہر احمد زئی اور آغا عبدالخالق نیپ کے حوالے سے گرفتار ہوکر آئے تھے، ان کا تعلق خان آف قلات کے خانوادے سے تھا۔ ان کے والد آغا سلطان ابراہیم ایوب خان کے دورِ حکومت میں افغانستان پناہ لینے کے لیے جارہے تھے، ان کے ہمراہ چند بااثر لوگ بھی تھے جن میں ایک میرے ہمسایہ سردار فیض محمد خان محمد زئی بھی شامل تھے۔ یہ ایوب خان کا مارشل لا نافذ ہونے کے بعد ایک لحاظ سے فرار ہورہے تھے۔ ان کا تعلق کچھ کچھ علیحدگی پسندوں سے بھی تھا، اس لیے یہ خوف زدہ ہوکر راہِ فرار اختیار کیے ہوئے تھے۔ جس کار میں جارہے تھے وہ چمن کے قریب تیز رفتاری کی وجہ سے الٹ گئی اور آغا سلطان ابراہیم حادثے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔ باقی افراد کو حکومت نے گرفتار کرلیا اور سردار فیض محمد کو سزا ہوگئی، اور وہ مچھ جیل پہنچادیے گئے۔ یہ واقعہ اکتوبر 1958ء کا ہے۔ اُن کے دو بیٹے میرے کلاس فیلو تھے۔ جب سردار فیض محمد زئی جیل سے چھوٹ کر آئے تو اُن کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور راسپوتین جیسے لگ رہے تھے۔ اُن کا ایک حمام تھا جہاں وہ مغرب کے وقت آجاتے اور جیل کی داستان سناتے تھے۔ یہ کوئٹہ کا بڑا حمام تھا، چونکہ کوئٹہ میں شدید سردی پڑتی تھی تو عام لوگ حمام میں غسل کے لیے اور کچھ لوگ گرم پانی سے وضو کرنے کے لیے آجاتے تھے۔ وضو بلامعاوضہ تھا۔ ابتدا میں اس حمام کا ایک بڑا ہال تھا جس میں لوگ لکڑی کے ایک تختہ پر بیٹھ کر غسل کرتے تھے۔ ہال بھاپ سے گرم ہوتا تھا اور اس کے فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی تھی۔ اس کے کمرے کے نیچے نالیاں بنائی گئی تھیں جو فرش کو گرم کرتی تھیں، اور جب حمام کے فرش پر پانی گرتا تو وہ بھاپ بن جاتا ،اس سے پورا ہال گرم ہوجاتا اور لوگ شدید سردی میں غسل سے لطف اُٹھاتے تھے۔ ایک اور واقعہ قارئین کو بڑا عجیب سا لگے گا۔ کوئٹہ کے مشرق میں واقع پہاڑ کے دامن میں ہزارہ قبیلہ آباد تھا، اس قبیلے کی عورتیں گروپ کی صورت میں اس حمام میں غسل کے لیے آاتی تھیں اور ساتھ اپنے کپڑے، دھونے کے لیے بھی لاتیں۔ یہ حمام سے بالکل علیحدہ ہال تھا جہاں ہزارہ خواتین غسل کرتی تھیں۔ جس دور کی بات کررہا ہوں اُس وقت کوئٹہ میں دسمبر میں برف باری شروع ہوجاتی تھی اور اتفاق سے 15 دسمبر کو یہ برف باری ہمیشہ ہوتی تھی اور کوئٹہ کے پہاڑ اور وادی برف کی سفید چادر اُوڑھ لیتے۔ یوں یہ وادی سفید شہزادی کا روپ دھار لیتی۔ برف باری دسمبر سے شروع ہوکر فروری تک جاری رہتی اور کوئٹہ کے پہاڑوں پر جون میں بھی برف نظر آتی تھی۔ یہ خوبصورت اور سحر انگیز منظر اب صرف یادوں میں بسا رہ گیا ہے اور آنکھیں اس برف باری کو ترس گئی ہیں۔ یہ داستان آغا عبدالظاہر کی وجہ سے ذہن میں آگئی۔ بعد میں آغا ظاہر بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بن گئے تھے۔ اب یہ دونوں بھائی اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اُن کی یادیں رہ گئی ہیں۔
جس احاطے کا ذکر کررہا ہوں اس حصط میں ان دو بھائیوں کے علاوہ مگسی قبیلے کے تین افراد اور بھی تھے، ان سے تاش کی بازی چلتی رہتی تھی۔ ابتدا میں مگسی برادران میرے ساتھ زیادہ کھلنے نہیں تھے، جب اُن کا اعتماد مجھ پر بحال ہوگیا تو پھر خوب مجلس جمتی تھی۔ ہم نے ایک دن اُن سے پوچھا: میر صاحب داستان سنائیں کہ آپ نے اپنے نواب کو کیوں قتل کیا اور کیسے قتل کیا؟ اس کا جواب انہوں نے آخر تک مجھے نہیں دیا، اس لیے یہ میرے لیے راز ہی رہا۔ ایک دن وہ خوشگوار موڈ میں تھے تو انہوں نے قتل کی داستان بیان کی۔ میں انہیں حیرت سے دیکھتا رہ گیا اور وہ واقعہ سنائے چلے گئے۔ وہ کبھی مسکراتے اور کبھی چہرے پر اداسی چھا جاتی، درمیان میں کبھی کبھی ہنستے بھی تھے۔ اب انہوں نے داستان سنانا شروع کردی اور ہم پراسرار خاموشی میں قتل کی واردات سنتے چلے گئے۔
میر صاحب نے کہا (اب اُن کا نام یاد ہیں رہا) کہ ہم نے نواب محبوب علی مگسی کی آمد و رفت کا راستہ معلوم کیا اور وقت بھی معلوم کرلیا کہ وہ کب اس راستے سے گزرتے ہیں۔ ہم نے ایک نہر سے پہلے ناکہ بندی کرلی اور دونوں طرف سے مسلح افراد بٹھا دیے۔ جب وہ اس راستے پر آئے تو ہم نے اُن کی جیپ پر کراس فائرنگ شروع کردی، ان کے ساتھ گارڈ بھی مارے گئے اور جیپ اُلٹ گئی تھی، ہم قریب پہنچے اور دیکھا کہ نواب زندہ تو نہیں! ہم نے تسلی کرلی کہ نواب دم توڑ گیا ہے، ڈرائیور کو دیکھا تو وہ بھی ہمیں مرا ہوا نظر آیا۔ ہم نے تسلی کرلی اور گھروں کو چلے گئے۔ بعد میں ہماری گرفتاری کے آرڈر ہوگئے تو میں نے راہِ فرار اختیار کرلی اور بلوچستان کے علاقہ خضدار پہنچا۔ یہ راستہ میں نے پیدل طے کیا۔ بلوچستان میں اُس وقت گورنر راج تھا اور نواب بگٹی گورنر تھے۔ میر صاحب کو پولیس نے گرفتار کرلیا جبکہ اُن کا چھوٹا بھائی علاقہ سے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ یوں انہوں نے اپنی داستان سنا ڈالی۔ اُن کے چھوٹے بھائی سے پوچھا: میر صاحب سچ بتائیں آپ اس واردات میں شریک تو نہ تھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، میں اس میں شریک نہیں تھا اور نہ بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ نواب کو قتل کرنے جارہے ہیں۔ رمضان مگسی نے بھی کہا کہ میں اس میں شریک نہ تھا اور نہ مجھے اس کا کوئی علم تھا۔ کبھی کبھی میں میر صاحب سے مذاق میں پوچھتا تھا کہ میر صاحب بتائیں کہ آپ نے اپنے نواب کو کیسے قتل کیا؟ تو وہ ہنس دیتے اور مسکراتے ہوئے خاموش ہوجاتے۔
دوسرا قاتل بھی بلوچ تھا، اب نام یاد نہیں، وہ خاموش طبیعت کا انسان تھا۔ اس کے احاطے میں کبھی کبھی جاتا تھا اور گپ شپ کرتا تھا، لیکن میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اُس سے قتل کی واردات سنوں۔ معلوم نہیں کہ اُس کو سزا ہوئی یا نہیں ،اس کا اب علم نہیں ہے۔ وہ مری قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ جس نوجوان نے جرگہ کے اجلاس کے دوران غلام نبی مری کو قتل کیا وہ جرگہ کا صدر تھا، بعد میں شیر حسن کو 14 سال کی سزا ہوگئی۔ وہ کالج کا طالب علم تھا، اس کا تعلق بھی کاسی قبیلے سے تھے۔ شیر حسن سے ملاقات کوئٹہ جیل میں ہوئی جب مجھے کوئٹہ جیل میں رکھا گیا تھا ۔وہ جیل میں کچھ کچھ ذہنی مریض ہوگیا تھا، وہ اچانک اپنے احاطے میں چیخنا چلاّنا شروع کردیتا اور پوری جیل اس کی چیخ و پکار کو سنتی تھی۔ اس پر یہ دورہ اچانک پڑتا تھا۔ رہائی کے کچھ عرصہ بعد وہ فوت ہوگیا۔
(جاری ہے)