چودھری رحمت الٰہی کی رحلت

جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما چودھری رحمت الٰہی بھی اپنے رب کے پاس پہنچ گئے۔ ہم سب اسی کے ہیں اور بالآخر اسی کے پاس حاضر ہونا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو حیاتِ دنیا کے نصب العین کا شعور حاصل ہوجائے اور وہ اپنی زندگی کو ’’الحق‘‘ کے مطابق ڈھال لیں۔ ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں چودھری رحمت الٰہی بھی شامل تھے۔ تجدید و احیائے دین اور اقامتِ دین کو انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا اور تادم آخر استقامت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے امتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ اور خلافتِ راشدہ کے دور کی بحالی کے لیے جس تحریک کا آغاز کیا تھا وہ نہایت ہی پُرآشوب دور تھا۔ پورا عالم اسلام جس میں برعظیم پاک وہند بھی شامل ہے، مسیحی یورپ کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اسی دور میں آزادی کی کئی تحریکیں چل رہی تھیں۔ اسی پُرآشوب دور میں اللہ رب العزت نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو یہ سعادت بخشی کہ قرآن و سنت کے حکم کے مطابق دعوتِ الی اللہ کی تحریک برپا کریں۔ دعوت یہ تھی کہ فروعی اور فرقہ وارانہ اختلاف کو نظرانداز کرتے ہوئے قرآن و سنت کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیلِ نو کریں اور اللہ کی بندگی مسجد کے ساتھ ایوانِ حکومت، ایوانِ عدالت، معیشت و سیاست، بستی و بازار میں بھی کی جائے۔ اس نصب العین کا نام ’’اسلامی انقلاب‘‘ بھی ہے۔ اس لیے محدود معنوں میں جماعت اسلامی مذہبی، اصلاحی یا سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ ایک انقلابی تحریک ہے۔ یہ بات کہنا زبان سے جتنا آسان ہے اسے عمل میں ڈھالنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس دعوت کو جن لوگوں نے ابتدا میں قبول کیا اور اپنی پوری زندگی اس نصب العین کے حصول کے لیے بسر کردی ان میں چودھری رحمت الٰہی بھی شامل ہیں۔ معرکۂ حق و باطل، اسلام اور جاہلیت کی کش مکش اور اقامتِ دین کی تحریک کے تقاضوں کو جن لوگوں نے پورا کیا اُن میں چودھری رحمت الٰہی بھی شامل تھے۔ چودھری رحمت الٰہی نے قیام پاکستان سے قبل تحریکِ اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور اپنے عقیدے اور نظریے کے لیے انگریز کی سرکاری نوکری پر لات ماری، اور اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیا کہ اللہ کے حکم کے آگے کسی غیر اللہ کے حکم کو نہیں مانیں گے، چاہے وہ کتنی ہی قاہرانہ اور جابرانہ حکومت ہو۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جس دور میں اسلامی نظامِ زندگی کے نفاذ، اسلامی حکومت کے قیام اور اقامتِ دین کے نصب العین کی دعوت دی تھی وہ مغرب کے ہمہ گیر غلبے و تسلط کا دور تھا۔ اسلام کو دورِ قدیم کی یادگار سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ مغربی فکر کی گمراہیوں کا شکار ہورہا تھا۔ الحاد و دہریت نے مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں جگہ بنا لی تھی۔ جبکہ علما کا طبقہ دفاعی حیثیت پر قانع ہوچکا تھا۔ مختلف قسم کی فکری تحریکیں ذہنی انتشار اور مایوسی میں بدل رہی تھیں۔ اسی دور میں مولانا مودودیؒ جس چھوٹی سی جماعت کے ساتھ نظریاتی جنگ لڑنے کے لیے میدان میں نکلے ان میں چودھری رحمت الٰہی بھی شامل تھے۔ اس عرصے میں کئی بڑے بڑے نام قافلۂ راہِ حق سے الگ ہوتے رہے، لیکن جو لوگ استقامت کے ساتھ تحریک سے مرتے دم تک وابستہ رہے اُن میں چودھری رحمت الٰہی کا نام بھی شامل ہے۔ اجتماعی نصب العین کے لیے اپنی ذاتی زندگی کو تج دینا آسان کام نہیں ہے، لیکن گزشتہ صدی میں اسلامی تحریک نے ایسی بے شمار شخصیات پیدا کی ہیں۔ ایسی شخصیات جو کامیابی اور ناکامی، فتح و شکست سے ماورا ہوکر اپنے نصب العین کے لیے صبر کے ساتھ جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ کسی شخص یا خاندان یا نسل کے ساتھ وفاداری کی دعوت پر قائم نہیں ہوئی ہے۔ خود آرائی کے دور میں جماعت اسلامی نے شورائی روح کے ساتھ سمع و طاعت اور نظم و ضبط کی مثال قائم کی ہے۔ اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کے لیے جس صبر کی ضرورت ہوتی ہے اس کا اندازہ آسان نہیں ہے۔ وہ لوگ کہ جو اپنی رائے رکھتے ہوں، اس کا اظہار بھی کرتے ہوں اور اجتماعی فیصلوں کی پابندی بھی کرتے ہوں وہ مضبوط شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ کسی منظم جماعت کے بغیر تبدیلی اور انقلاب کی جدوجہد نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے صبر و استقامت بنیادی وصف ہے۔ آج ہماری قومی زندگی کا المیہ اگر یہ ہے کہ قوم بھیڑ میں بدل گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ قوم کی قیادت کے دعویدار ہیں اُن کی ذاتی زندگی کسی بھی اصول اور نصب العین کے مطابق نہیں ہے۔ چودھری رحمت الٰہی کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرو۔ کامیابی اور ناکامی سے بلند ہوکر اس نصب العین کے لیے جدوجہد کرتے رہو۔ اصل چیز دنیاوی کامیابی نہیں بلکہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے نصب العین کے ساتھ وابستہ رہنا ہے۔ صرف یہ دیکھو کہ ’’حق‘‘ کے ساتھ ہو یا نہیں۔ مولانا مودودیؒ کی جدوجہد کے بہت سے کارنامے ہیں۔ ان میں سب سے روشن کارنامہ نظریاتی شخصیات کو جمع کرنا ہے، جنہوں نے دنیا پرستی سے ماورا ہوکر آخرت کی کامیابی کے لیے اپنی دنیا قربان کی۔ ان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ مقصد اور نصب العین کے بغیر زندگی، زندگی نہیں ہے۔