جریدہ: ماہنامہ ساتھی
(نومبر 2018ء سالنامہ) کراچی
مدیر: محمد طارق خاں
ناشر: اسلامی جمعیت طلبہ ایف 206 سلیم ایونیو،
بلاک 13۔بی، گلشن اقبال، کراچی،
فون نمبر: 34976468
بچوں اور نئی نسل کا منفرد رسالہ ’’ساتھی‘‘ بیک وقت دو قومی زبانوں اردو اور سندھی میں برسوں سے باقاعدہ شائع ہوتا آرہا ہے۔ عام شماروں کے علاوہ ہر سال یہ خاص نمبر اور سالنامے بھی شائع کرتا ہے جن کی ضخامت عام شماروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ موضوعاتی خاص نمبر جیسے شرارت نمبر اور بھول نمبر بھی شائع کرتا رہا ہے جو عام شمارے کے مقابلے میں ایک مشکل اور زیادہ محنت طلب کام ہے۔ بہتر ہوتا اگر یہ نومبر کا شمارہ خاص نمبر مگر موضوعاتی ’’خاتم النبیین نمبر‘‘ کے طور پر شائع کیا جاتا اور اس میں ناموسِ رسالتؐ، اسوۂ رسولؐ، احادیث کے علاوہ حضورؐ اور ان کے صحابہ کرامؓ کے دور کے سچے واقعات اور کارہائے نمایاں شائع کیے جاتے۔ اس شمارے میں ایک نعت، ایک مراسلہ، اور ایک نثری تحریر کے سوا کوئی تحریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہیں ہے۔ محمد طارق خاں کا اداریہ ’’السلام علیکم‘‘ اور عبدالرحمن مومن کی ’’دل پہ دستک‘‘ متاثر کن تحریریں ہیں۔ ’’محبت کا تقاضا‘‘ ایک تمثیلی کہانی ہے جسے فوزیہ خلیل صاحبہ نے شیطان کے ایک تمثیلی کردار سے خوبصورت موڑ دیا ہے۔
شازیہ فرحین کا افسانہ ’’ہمسایہ‘‘ ایک اچھی اور سبق آموز تحریر ہے جسے اچھے مکالموں سے مزین کیا گیا ہے، خاص کر شیخ صاحب کے مکالمے۔ ’’یورپ‘‘ ایک اچھی اور مختصر تعارفی نظم ہے جسے شام درانی نے اشعار کا جامہ پہنایا ہے۔ سالنامے سے متعلق ’’سال میں ایک‘‘ ابصار عبدالعلی کی نظم رسالے کا ایک اچھا منظوم تعارف ہے۔ ابن آس محمد کے احمد علی سیریز کے ناول ’’چالاک‘‘ کی پہلی قسط ہے۔ یہ ایک پُرتجسس ناول دکھائی دیتا ہے، کیونکہ پہلی قسط ہیتجسس سے بھرپور ہے۔ ’’بیوقوف حاکم‘‘ خلیفہ ہارون الرشید کے ایک احمقانہ فیصلے کی کہانی ہے جس میں دریائے نیل کی طغیانی سے کسانوں کی کپاس کی فصل کی تباہی کا واقعہ اور نتیجہ بیان کیا گیا ہے، جس میں رزق کا انحصار اللہ کی مہربانی اور مقدر سے عبارت ہے۔ بینا صدیقی کا افسانہ ’’الف کی طرح سیدھی اردو‘‘ کے دو کردار شہریار اور اس کے والد شہاب احمد متضاد تعلیم و تربیت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھ کر طالب علم انگریزی میں سو فیصد نمبر لیتا ہے اور اردو میں فیل ہوجاتا ہے، اور گھر میں بھی پچاس فیصد انگریزی الفاظ پر مشتمل جملے بولتا ہے، جبکہ اس کے والد غیرملکیوں کو اردو سکھاتے ہیں اور شہریار کے اردو زبان کے پرچے میں فیل ہونے پر دیارِ غیر میں غم و غصے کا شکار، اور شرمندگی کے احساس سے بری طرح دوچار ہوجاتے ہیں۔ قومی زبان سے مجرمانہ غفلت اور اس کے اکتساب سے پہلوتہی اور اغماض برتنا ایک المیہ ہے۔
مضمون کے عنوان اور تصویر کے نیچے جو ذیلی سرخی ہے اس میں شہریار کے بجائے شہاب احمد کا نام ہونا چاہیے۔ ’’شکاری پرندے‘‘ حسام چندریگر کا ایک معلوماتی باتصویر مضمون ہے۔ مدیر اعلیٰ جسارت محترم اطہر علی ہاشمی کا انٹرویو ایک اچھا سلسلہ ہے، ساتھی کے دوسرے سینئر اور معروف لکھاریوں کے انٹرویو گاہے بگاہے رسالے کی زینت بننے چاہئیں۔ گزشتہ شماروں کا پوسٹ مارٹم ایک اہم کام ہے۔ اس میں تعریف اور تنقید دونوں سے لکھنے والوں کو فائدہ ہوگا اور اطہر ہاشمی صاحب نے اس سالنامے میں گزشتہ اگست کے شمارے کی نگارشات پر تنقید و تبصرہ فرمایا ہے۔ مشکل الفاظ اور محاوروں کے معنی اور تشریح سے رسالے کے لکھاریوں اور قارئین کو رفتہ رفتہ بقول شاعر ’’آتی ہے اردو زباں آتے آتے‘‘۔
’’الفاظ کا تعاقب‘‘ ایک سلسلہ وار انعامی مقابلہ ہے جس میں اس دفعہ چھپی ہوئی بیماریوں کے پوشیدہ الفاظ تلاش کرنے ہیں۔ شریف شیوہ کی نظم ’’کامیابی کی چابی‘‘ ایک اچھی اور بامقصد نظم ہے۔ رواں بحر میں ہے۔ شریف شیوہ اچھے شعر کہتے ہیں۔ ’’آدھی بہن‘‘ ایک سبق آموز دلچسپ کہانی ہے، جاوید بسام نے مختصر مگر خوبصورت پیرائے میں ایک مقصدی کہانی تصنیف کی ہے۔ کھلکھلایئے لطائف کا ایک مستقل سلسلہ ہے، لطائف اچھے اور زیادہ تر ادبی شخصیات سے متعلق ہیں۔ ’’بڑا ہونے کی دھن‘‘ جس کا عنوان غلطی سے بڑے ہونے کی دھن شائع ہوگیا ہے، ایک اچھا اور دلچسپ موضوع ہے۔ اپنی نفسیات کے مطابق ہر بچہ جلد بڑا ہونا چاہتا ہے، اسے بڑوں کی زندگی زیادہ پُرکشش دکھائی دیتی ہے۔ اس کہانی میں کمپوزنگ اور حروف چینی کی خامیاں ہیں اور پیرا گراف آگے پیچھے ہوگئے ہیں۔ ماہم جاوید کی کہانی ’’ادھوری خواہش‘‘ متاثر کن نہیں ہے، خط کی شکل میں ایک خیالی کہانی ہے جس میں نوزائیدہ بچی اپنی ماں سے سوال جواب کرتی ہے۔ نائلہ صدیقی کی تحریر ’’چھوٹے‘‘ کئی گھروں کی اپنی کہانی نظر آتی ہے۔ ہرگھر میں سب سے چھوٹے بہن بھائیوں پر بڑوں کا رعب چلتا ہے اور بڑے اپنے کام چھوٹوں پر ٹال دیتے ہیں اور چھوٹے کام توکردیتے ہیں مگر جزبز ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے بھی رشتہ دار کے گھر یہ مسئلہ تھا اور اس گھر میں پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا بھائی اس ظلم کا شکار تھا، وہ مجھ سے کہتا تھا کہ انکل اللہ میاں کسی کو چھوٹا بھائی نہ بنائے بھلے کُتّا بنادے۔ کہانی کے مکالمے جان دار اور دلچسپ ہیں، پلاٹ اچھا ہے، نائلہ صاحبہ نے اچھے برجستہ جملے لکھے ہیں۔ محمد طارق خاں کی باتصویر کہانی ’’دعوت‘‘ اچھی، دلچسپ اور سبق آموز کہانی ہے جس میں ایک ننھے چوزے کے خیالی اندازے کی وجہ سے دوسرے مرغی، مرغے اور بطخ کے بغیر سوچے سمجھے اس کا ساتھ دینے کی سزایابی کا سبق ملتا ہے۔ ’’ساٹھ سال بعد‘‘ محترم احمد حاطب صدیقی کی ایک قدرے طویل مگر دلچسپ کہانی ہے جس میں تخیل کی اڑان، ماضی میں کام کاج اور سواری کے لوازمات اور موجودہ دور میں کمپیوٹر کے عادی طلبہ کا ذکر ہے جو کوئی بھی کام مشینوں، سافٹ ویئر اور ہارڈویئر کے مائوس کے بغیر نہیں کرپاتے اور بغیر محنت کے ہر کام کمپیوٹر کی کلک کے ذریعے کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ’’خواہشوں کے بھنور‘‘ محترمہ سیما صدیقی کا اچھا افسانہ ہے جو موجودہ دور کے رجحان کو سامنے لاتا ہے۔ ایک عمدہ کاوش ہے جو اثر پذیر ہے اور سبق آموز بھی ہے۔ ’’بچوں کی دنیا‘‘ ابن بہروز کی ایک معلوماتی اور باتصویر تحریر ہے جو چیتے، بھالو، بندروں، ہاتھیوں کے بچوں اور ان کی عملی تربیت کے بارے میں ہے۔ عربی سے ترجمہ ’’ماں کا ہاتھ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کی تحریر ہے، یہ رشتوں کے اتار چڑھائو کی ایک اچھی اور حقیقی کہانی لگتی ہے۔ مدیحہ صدیقی کی نظم ’’سالنامہ‘‘ اس شمارے میں سالنامے کے بارے میں دوسری نظم ہے۔
’’جعلی عقاب‘‘ حماد ظہیر کی شاہین سیریز کا تیسرا حصہ ہے۔ یہ کہانی سائنس فکشن کی طرز پر لکھی گئی ہے اور اس میں عوام کے مسائل اور تخریب کاری کے عزائم کو ناکام بنانے کا پہلو نمایاں ہے، جو کہانی کا مرکزی خیال ہے۔ ڈاکٹر خبیب اور مس عائشہ بھی اس کہانی کے اہم کردار ہیں، جبکہ یاسر شاہین کے روپ میں کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی ذات سے منسوب عمارتیں پاکستان، ہندوستان اور جرمنی میں ہیں جہاں ان کو قومی یادگار قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ ایک اچھا معلوماتی مضمون ہے۔ ’’آبشار کا راز‘‘ مریم سرفراز کی ایک جاسوسی کہانی ہے جسے قسط وار پیش کیا جارہا ہے۔ اس سالنامے میں اس کی پہلی قسط شائع ہوئی ہے، اس میں تجسس کا عنصر شروع سے موجود ہے۔ الیاس نواز کا ڈراما ’’اپنا کام‘‘ ہمارے معاشرے میں عام دھوکے بازی کے ذریعے ایجنٹ حضرات جس طرح عام لوگوں کو سبز باغ دکھاکر باہر لے جاتے ہیں، اس کی عکاسی ہے۔ رمشا جاوید ’’درویش‘‘ کے عنوان سے اپنی تحریر کے ساتھ سالنامے میں موجود ہیں مگر یہ تحریر کچھ متاثر کن نہیں ہے۔ ’’جادو والا شربت‘‘ ایلن مکڈونلڈ کی انگریزی تحریر کا اردو ترجمہ ہے جو گل رعنا نے رواں اور بامحاورہ کیا ہے۔ موضوع اچھا ہے، انسانی نفسیات کے مطابق ایک ڈرپوک لڑکا کس طرح کیمیائی محلول اور کولڈ ڈرنک کے ذریعے اپنی سوئی ہوئی طاقت جگانا چاہتا ہے۔ راحت عائشہ کی تحریر ’’جادوئی کھیل‘‘ کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک پرانا کھیل ہے جس میں کوئی جدت نہیں ہے اور متاثر کن بھی نہیں ہے۔ سالنامے کی آخری سوغات ’’خط رے‘‘ ہے جس میں مدیر کے نام قارئین کے خط اور ان کے جوابات ہیں جو دلچسپ ہیں۔
ساتھی مشکل الفاظ کی سہل اور آسان اردو اور گزشتہ شماروں کی حروف چینی اور تنقید کا کام جو زبان و بیان کی اصلاح کا کام ہے، سرانجام دے رہا ہے لیکن اندرونی پہلے ورق پر اردو اور انگریزی ہندسوں کی گڈمڈ سمجھ میں نہیں آئی۔ اس صفحے پر بھی سارے ہندسے اردو میں ہونے چاہئیں۔ پورے رسالے میں حروف چینی (Proof Reading) غیرمعیاری ہے، بہت سی جگہ لفظ کا ایک حرف سطر کے آخر میں ہے اور دوسرا حرف دوسری سطر کے شروع میں ہے۔ مجموعی طور پر رسالہ اچھے مضامین، نظموں اور دیگر دلچسپیوں کا حامل ہے جس کے لیے مدیر اور مجلس ادارت مبارکباد کے مستحق ہیں۔