سیاسی درجہ حرارت کچھ کچھ بڑھنے لگا ہے، تاہم حالات ایسے نہیں کہ کوئی اسے کسی بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا جائے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے لیے کڑا وقت گزر چکا۔ سیاست میں مدوجزر اور اتار چڑھائو دونوں جماعتوں نے بہت قریب سے دیکھے ہیں، معاملہ ان دونوں جماعتوں کے مؤقف کی حمایت اور ان کے طرزِ سیاست کی چھائوں میں بیٹھنے کا بھی نہیں ہے، معاملہ یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا احتساب قانون نہیں سیاسی رویّے کی میزان پر ہوا ہے۔ اگر احتساب قانون کے مطابق ہوتا تو نتیجہ بھی لازمی نکلتا۔ چند دنوں کی جیل اور پھر ضمانت، اس کے بعد سیاسی ہمدردی اور پھر اقتدار کے مزے بھی آخری ہچکی لے کر دم توڑ چکے ہوتے۔ لیکن ملک میں اب احتساب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت بے رحم احتساب کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار میں آئی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسے اقتدار دلایا گیا۔ اگر یہ اقتدار میں آئی ہوتی تو ملک میں بے رحم احتساب ضرور ہوتا، کیونکہ یہی ایک نعرہ تھا جو تحریک انصاف کو ماضی میں اقتدار میں رہنے والی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے ممتاز کرتا تھا۔ تحریک انصاف کے پہلے چار ماہ میں ہی پتا چل گیا کہ یہ تینوں جماعتیں سکے کا ایک ہی رخ ہیں۔ بلاشبہ ناقص کارکردگی کے باعث تحریک انصاف نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، اس کے ووٹرز اب تیزی سے مایوس ہورہے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اس بات کا جائزہ لے کہ اس سے کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے؟ سب سے اہم بات یہ کہ اس میں فیصلہ سازی کی قوت نہیں ہے، اور اعتماد کی کمی ہے۔پائلٹ کی سیٹ تو حاصل کرلی مگر اب یہ جہاز چلایا کیسے جائے؟ یہ سوال پوری تحریک انصاف کے سامنے ہے، مگر جواب کہیں سے نہیں مل رہا۔ پارلیمانی نظام میں حکومت بطور انتظامیہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے، لیکن تحریک انصاف کے وزراء خود ہی اپنے رویّے کے باعث قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس نہیں چلنے دے رہے۔ اقتدار کا پانچواں مہینہ شروع ہوچکا ہے مگر وزیراعظم نے قومی اسمبلی کا رخ نہیں کیا۔ صرف وزیراعظم ہائوس استعمال نہ کرنے، ایوانِ صدر اور گورنر ہائوسز عوام کے لیے کھول دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرے۔ ان پانچ ماہ میں قومی اسمبلی سے صرف ایک قانون منظور کرایا جاسکا ہے۔
حکومت ایک بڑی غلطی کرنے جارہی ہے کہ وفاقی سیکریٹریز کے تبادلوں یا انہیں ہٹانے کے لیے وزراء کو کردار دیا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اب سیکریٹریز وفاقی وزراء کی پسند اور ناپسند کا شکار ہوسکتے ہیں جس سے بیوروکریسی کے سیاست زدہ ہونے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ تحریک انصاف کا مؤقف رہا ہے کہ بیوروکریسی سیاسی دبائو سے آزاد ہونی چاہیے، لیکن یہ تجویز اس مؤقف کے برعکس ہے۔ یہ تجویز وزیراعظم کے مشیر شہزاد ارباب کی سربراہی میں کام کرنے والی وزارتی ذیلی کمیٹی کی جانب سے آئی ہے، اور اس کو ڈاکٹر عشرت حسین کی تائید بھی حاصل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وفاقی وزیر سیکریٹریز کی تقرری میں مناسب ترین افسران کا انتخاب کرسکیں۔ اگر یہ تجویز تسلیم کرلی گئی تو وزیراعظم کے اختیارات محدود ہوجائیں گے۔ ایک بار وزیراعظم وفاقی سیکریٹری کا تقرر کردیں تو 6 ماہ کے اندر اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس آزمائشی عرصے کی تکمیل کے بعد ان کی تین سالہ میعاد کو تحفظ حاصل ہوگا اور انہیں ہٹایا نہیں جا سکے گا۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی سفارشات میں وفاقی سیکریٹریوںکے تقرر میں آزمائشی مدت کا کوئی ذکر نہیں۔ دوسرے، ایک وزیر کو6 ماہ کے اندر سیکریٹری تبدیل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ وزیر کی درخواست پر تین رکنی کمیٹی غور کرے گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین بہت خوبیوں والی شخصیت ہیں، انہیں پرویزمشرف سمیت کئی حکومتوں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ پرویزمشرف دور میں یہ ان کی تصویر کرنسی نوٹ پر چھاپنے کی بھی تجویز دے چکے ہیں۔ اب جو تجاویز لارہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کے ذریعے اصل میں ماضی میں اپنی ہی دی ہوئی تجاویز کو ناقابلِ عمل قرار دے رہے ہیں۔
خارجہ امور کے محاذ کے بعد حکومت کو داخلی طور پر متعدد مسائل نے گھیر رکھا ہے جن میں اہم معاملہ وفاق اور صوبوں خصوصاً سندھ، بلوچستان اور مرکز میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ پہلا مسئلہ فوجی عدالتوں میں توسیع کا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظوری نہ ملی تو صدارتی آرڈیننس بھی لایا جاسکتا ہے، تاہم اس کی منظوری اور توثیق کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع ضروری ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت جنوری کے پہلے ہفتے میں ختم ہورہی ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے وزارتِ قانون نے آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرلیا ہے جو آئندہ ہفتے قومی اسمبلی میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں اتفاقِ رائے ہوا تو بہتر انداز میں توسیع ہوجائے گی۔
تحریک انصاف سندھ میں فارورڈ بلاک بنانے کی تیاریوں میں ہے، جب کہ اسے اپنے منشور پر توجہ دینی چاہیے۔ جہاں تک جعلی اکائونٹس کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کا تعلق ہے یہ رپورٹ شفاف ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے، لیکن تحریک انصاف فارورڈ بلاک کی جانب جارہی ہے، جب کہ اس میں صلاحیت اور اتنی قوت نہیں کہ سندھ میں حکومت بنائے اور پھر اسے چلا بھی لے۔ صرف دھمکیاں دینے سے کام نہیں چلے گا، حکومت کو چاہیے کہ نیب کو اپنا کام کرنے دے، اس کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ یہی بات چیف جسٹس نے بھی کہی ہے۔ تحریک انصاف کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آصف علی زرداری ابھی خاموش رہنا چاہتے ہیں، جس روز وہ بول پڑے تحریک انصاف کے لیے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آصف زرداری ایک اشارہ دیں، ہم حکومت کو ایک ہفتے میں گرا سکتے ہیں، حکومت کی برتری صرف 6 سیٹوں کی ہے۔ یہی بات نوازشریف اور ملک ریاض کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے، کیونکہ تحریک انصاف کی عمارت جن اینٹوں سے تعمیر ہوئی ہے وہ اینٹیں ملک ریاض کے بھٹے پر ہی تیار ہوئی ہیں۔ حکومت کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور چودھری نثار علی خان کے معاملات سدھر رہے ہیں، ان کی مسلم لیگ(ن) میں بہت جلد واپسی ہونے والی ہے۔ گزشتہ ہفتے ان کی پریس کانفرنس میں سب سے بڑا پیغام بھی یہی تھا۔
اور اب آخر میں ایک بڑے فیصلے کی خبر، کہ حکومت کے ایک ماتحت ادارے ایف آئی اے نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ اصغر خان کیس بند کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ایف آئی اے وزارتِ داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہے اور وزیراعظم وزارتِ داخلہ کے انچارج ہیں، لیکن انہیں بھی اس فیصلے کا علم ایف آئی اے کی رپوٹ سپریم کورٹ میں داخل ہوجانے کے بعد ہوا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے خبر دی کہ وزیراعظم ایف آئی اے کے سربراہ سے یہ پوچھیں گے کہ سپریم کورٹ میں ایسی رپورٹ کیوں پیش کی۔ لیکن اگر عمران خان بااختیار وزیراعظم ہیں تو ہوسکتا ہے یہ فیصلہ انہوں نے خود کیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو سچ تسلیم کرنے میں حرج کیا ہے؟