ملک کے ڈھائی کروڑ بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
سیالکوٹ میں نافع کے زیراہتمام ٹیلنٹ ایوارڈ شو سے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا خطاب
تعلیم انسان کی بنیادی ضرورت ہے جو شخصیت کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اسلام نے بھی حصولِ تعلیم کو ہر مرد و عورت کے لیے لازم قرار دیا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کی ایک عظیم اکثریت تعلیم کی نعمت سے محروم ہے۔ اسی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اتوار کے روز سیالکوٹ میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کے دوران انکشاف کیا کہ اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ دنیا کہیں کی کہیں پہنچ چکی ہے، پاکستان میں آج بھی 2 کروڑ 35 لاکھ بچے ایسے ہیں جنہیں اسکول جانا نصیب نہیں ہوتا۔ انہوں نے ملک کے حکمرانوں سے بجا طور پر استفسار کیا کہ ان بچوں کا مستقبل تاریک کیوں کیا جا رہا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
تقریب کا اہتمام فروغِ تعلیم کے لیے جماعت اسلامی کی قائم کردہ تنظیم ”نافع“ (نیشنل ایسوسی ایشن فار ایجوکیشن) کی جانب سے کیا گیا تھا۔ قبل ازیں ”نافع“ اس قسم کی ایک تقریب گجرات میں منعقد کرچکی ہے اور آئندہ دنوں میں کراچی، کوئٹہ، مالاکنڈ اور ملک کے دیگر اہم شہروں میں بھی اسی قسم کی تقریبات برپا کرنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہے۔ ”نافع“ کی اس سرگرمی کا مقصد نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں میں موجود صلاحیتوں کی نشوو نما اور ذہین بچوں کی حوصلہ افزائی ہے۔ ”نافع“ کے طے شدہ پروگرام کے مطابق تقریب سے کچھ عرصہ قبل پورے علاقے کے تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر تشہیر کے ذریعے طلبہ و طالبات کو متوجہ کیا جاتا ہے اور پھر ان کے مابین مختلف شعبوں مثلاً تلاوت، مضمون نویسی اور معلوماتِ عامہ وغیرہ کے مقابلے کروائے جاتے ہیں، اور پھر ان مقابلوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبہ و طالبات کو ایک بڑی تقریب میں انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ایسی ہی سرگرمی کا اہتمام گزشتہ ماہ ضلع سیالکوٹ کے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں کیا گیا جس کے حتمی مرحلے کے طور پر اتوار کو منعقدہ تقریب میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ و طالبات میں شیلڈز، لیپ ٹاپ، نقد انعامات اور اسناد تقسیم کیں۔ تقریب سے مرکزی امیر جماعت کے علاوہ امیر صوبہ وسطی پنجاب امیرالعظیم، امیر ضلع سیالکوٹ شکیل ٹھاکر، مرکزی ڈائریکٹر ”نافع“ ہدایت خان، ریجنل ڈائریکٹر حافظ شہباز شاہین اور ضلعی چیئرمین حافظ قیصر ندیم نے بھی خطاب کیا۔
مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تقریب سے خطاب اور اس موقع پر جمع ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے ملک کے حکمرانوں کے قول و فعل کے تضاد کا ذکر کرتے ہوئے اس تشویش کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت مدینے کی ریاست کا نام لیتی ہے مگر اس کو اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ جب تک نظریہ ٔپاکستان پر ایمان رکھنے والی قیادت ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالتی، پاکستان اسلامی اور فلاحی ملک نہیں بن سکتا۔ حکمران قوم سے کیے گئے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ الیکشن 2018ءکے بعد اقتدار میں آنے والوں نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا، مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں میسر نہیں، 2 کروڑ 35 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ حکمران بتائیں کہ ان بچوں کا مستقبل کیوں تاریک کیا جارہا ہے؟
ملک میں جاری احتساب کے عمل پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احتساب کا موجودہ نظام قوم کو تقسیم کررہا ہے۔ نیب، حکومت اور سپریم کورٹ پاناما لیکس کے دیگر ملزموں کو بھی پکڑیں۔ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ حکومت احتساب کو متنازع بنارہی ہے۔ جماعت اسلامی سب کا احتساب چاہتی ہے۔ نیب کے پاس میگا کرپشن کے 150 اسکینڈل ہیں، ان کو کھولا جائے۔ بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے کر معاف کرانے والوں اور دولت بیرونِ ملک منتقل کرنے والوں کو پکڑا جائے۔ جب سب کا احتساب ہوگا تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔
سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں، سب کا احتساب چاہتے ہیں۔ ملک کو لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ موجودہ حکومت میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے لوگ شامل ہیں جو لوٹ مار کے نظام کا حصہ رہے ہیں۔ اگر ملک سے لوٹے ہوئے 375 ارب ڈالر واپس آجائیں تو کسی سے خیرات لینے کی ضرورت نہ رہے۔ گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے، آج کل ہوا بھی سرد اور چولہے بھی ٹھنڈے ہیں، ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافے اور گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہر گھر میں پریشانی ہے، ایل پی جی سرکاری ریٹ پر دستیاب نہیں اور بلیک میں مہنگی بک رہی ہے، ملک میں کوئی ہنگامی صورت حال نہیں، مگر پھر بھی روزانہ مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، ابھی تک تبدیلی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ تبدیلی صرف ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے کی آئی ہے۔