پاکستان میں احتساب کا مسئلہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان کش مکش کا عنوان بن گیا ہے۔ سیاسی قوتوں کا الزام ہے کہ احتساب کو ضمیروںکی خریدو فروخت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اس کے باوجود سیاست دانوں بالخصوص بڑی اور مقبول جماعتوں کی قیادت بدعنوانی کی داستانوں کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ بدعنوانی، مفاد پرستی، دولت پرستی اور اقتدار پرستی پاکستان کی قومی زندگی کا سکہ رائج الوقت ہے۔ سیاسی قیادت اور کرپشن بظاہر لازم و ملزوم قرار دے دی گئی ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ کے نمائندوں میں ایک متکبرانہ مسرت نظر آتی ہے، یعنی اب پاکستان میں اُن کے عوام دشمن، ملک دشمن اقدامات اور پالیسیوں کے خلاف عوامی سطح پر کوئی مزاحمت نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ قوم نے فوجی اور سیاسی آمریت کے خلاف کامیاب مزاحمتی جنگ لڑی ہے، لیکن 2019ء کا استقبال ہم اس کیفیت میں کررہے ہیں کہ جابرانہ اور آمرانہ طرزِ حکومت کے خلاف عوامی، سیاسی مزاحمت ناکام ہوچکی ہے۔ قومی سیاسی بیانیہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت ناکام ہوچکی ہے۔ اس بیانیے کو چیلنج کرنا آسان نہیں ہے، لیکن کیا یہ اصل حقیقت ہے کہ سیاسی قیادتیں ہیئتِ مقتدرہ کے مقابلے میں ناکام ہوچکی ہیں؟ عوام کے منتخب نمائندے اب عوام، اُن کے حقوق اور قومی و اجتماعی فلاحی نصب العین کی جنگ نہیں لڑ سکیں گے؟ اس صورت حال نے ایک سطح پر مایوسی اور جھنجھلاہٹ پیدا کی ہے، لیکن کیا اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے کہ پاکستان میں فوجی آمریت اور اسٹیبلشمنٹ کی حکومت کے مقابلے میں آزاد ذہن رکھنے والی سیاسی حکومتوں کا دور لدگیا ہے؟ یہ سوال اس پس منظر میں کلیدی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب وجد میں لانے والا پیغام تھا، تین نسلوں نے قوم کو یہ پیغام دیا کہ ’’چہرے نہیں سماج کو بدلو… لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلو‘‘۔ چہروں کی تبدیلی سے قوم کے دکھ دور نہیں ہوں گے۔ سیاست کے میدان میں تبدیلی اور انقلاب کے مثالیے کو بھی چرا لیا گیا ہے، اور تبدیلی کا نعرہ بھی ہیئتِ مقتدرہ کے دائمی تسلط کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اب کیا کوئی تبدیلی کا خواب بھی نہ دیکھے؟ کیا پاکستان کے سارے مسائل کا واحد سبب یہ ہے کہ سیاست دان لٹیرے اور بدعنوان ہیں اور ہر قسم کے جرائم میں مبتلا ہیں؟ اس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے پاکستان کی قریب ترین تاریخ کا ایک بار پھر طائرانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں فوجی آمریت کا خاتمہ اور جمہوری حکومتوں کا قیام کسی سیاسی جدوجہد کی کامیابی کا شاخسانہ نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی قوتوں نے پسپائی اسی وقت اختیار کرلی تھی جب انگریز بیوروکریسی کے نمائندے گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کیا تھا کہ وہ تاجِ برطانیہ کے نمائندے ہیں۔ یہ کام انہوں نے اس کے باوجود کیا کہ تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے منصوبے کے تحت برطانیہ نے ہندوستان کو دو ’’ڈومینین ریاستوں‘‘ میں تقسیم کیا، اور ان ممالک کی دستور ساز اسمبلیاں دستور بنا کر آزاد ریاستیں بن جائیں گی۔ یہ کام صرف اس لیے کیا گیا کہ برطانیہ کے وفادار نمائندے جو ہیئتِ مقتدرہ کا حصہ تھے وہ پاکستان کو اسلامی ریاست کے راستے کی طرف سفر کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ پاکستان کے داخلی امور میں انگریزوں کی وارث ہیئتِ مقتدرہ نے اول دن سے سازشیں شروع کردی تھیں کہ یہ ملک آزاد نہ رہے۔ قائداعظم کے جانشین اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا پراسرار سیاسی قتل اس سازش کا نقطۂ عروج تھا۔ المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کی باقی ماندہ قیادت یہ جنگ نہیں لڑ سکتی، اس کے باوجود پاکستان میں سیاسی اور دستوری سطح پر آج تک اتفاقِ رائے ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہاں پر آمرانہ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس وجہ سے ایوب خان کے زمانے سے ہیئتِ مقتدرہ پاکستان کی سیاسی انتظام کاری کرتی رہی ہے۔ اس عمل نے پاکستان کی سیاسی لغت میں جھرلو، دھاندلی، قبل از انتخاب دھاندلی، الیکشن انجینئرنگ جیسی اصطلاحات متعارف کرائیں۔ اس سیاسی عمل کا کلیدی اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں آزاد ذہن، باکردار، جرأت مند اور اپنی رائے رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کو حکومت و اقتدار سے دور رکھا جائے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اہلیت اور دیانت داری کا ایک دوسرے سے براہِ راست رشتہ ہے۔ ہماری ہیئتِ مقتدرہ کو صرف آلۂ کار سیاست دانوں کی ضرورت تھی، ان کے لیے کردار کی پختگی اور بصیرت عیب بن گیا، لیکن اس کے باوجود کسی پر اعتماد نہیں کیا گیا۔ سیاسی مینجمنٹ پر اعتماد نے انتخابی عمل کو عوام کی مزاحمتی طاقت کی علامت کے بجائے ہیئتِ مقتدرہ کا کھیل بنادیا۔ اس کھیل کا آغاز جنرل ضیا الحق کے دور سے ہوا۔ جنرل ضیا الحق کا دہشت گردانہ قتل بھی اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں ہیئتِ مقتدرہ بھی آزادانہ فیصلے نہیں کرتی۔ جنرل ضیا الحق کا قتل بھی عالمی سیاست کا شاخسانہ ہے جس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ جنرل ضیا الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی آمد تک حکومتوں کی تبدیلی کا کھیل جاری رہا اور کسی بھی حکومت کو ڈھائی سے تین سال سے زیادہ حکومت نہیں کرنے دی گئی۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے ہی منتخب کردہ وزیراعظم کو معزول کردیا۔ جنرل پرویزمشرف کی آمد کے تین برس بعد انتخابی عمل 5 برس تک پھیلادیا گیا لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ سیاسی قیادت عوام کی مزاحمت کی علامت نہ بن سکے۔ اس کھیل میں عیاں اور پوشیدہ بیرونی مداخلت بھی جاری رہی۔ اس دوران میں سیاست دانوں کو کلیدی فیصلے کرنے کے بجائے صرف بدعنوانی اور دولت بنانے کی اجازت دی گئی۔ اس عمل کو سیاسی قیادت نے قبول کیا اور آج پاکستان میں سیاسی مزاحمت کا خاتمہ ایک حقیقت بن گیا ہے۔ اس عمل نے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو بھی ضعف پہنچایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہیئتِ مقتدرہ اسے اپنی فتح سمجھے، لیکن یہ قوم کی شکست ہے۔