نام کتاب :سلطنتِ عرب اور اس کا سقوط
(خاندانِ بنو امیہ کا عروج و زوال)
مصنف : جولیس ولہائوزن
(Julius Wellhausen)
مترجم و محقق : ریحان عمر
صفحات : 448، قیمت 1200روپے
ناشر : عکس پبلی کیشنز، بک اسٹریٹ، داتا دربار مارکیٹ، لاہور
فون : 042-37300584
0300-4827500
0348-4078844
ای میل:publications.aks@gmail.com
زیر نظر کتاب جرمن مستشرق جولیس ولہائوزن کی کتاب “DAS ARABISCHE REICH UND SEIN STURZ” کے انگریزی ترجمے THE ARAB KINGDOM AND ITS FALL”کا اردو ترجمہ ہے جو ’’سلطنتِ عرب اور اس کا سقوط‘‘ کے نام سے ریحان عمر صاحب نے بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ جہاں تک جولیس ولہائوزن کا تعلق ہے اس کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
’’مؤرخ، ماہر الہیات اور عالم لسانیات مستشرق جولیس ولہائوزن 17مئی 1844ء کو ہیملن (Hamelin) جرمنی میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک پروٹسٹنٹ مسیحی تھا۔ فاضل مصنف بھی تمام عمر پروٹسٹنٹ عقیدے سے گہرے طور پر منسلک رہا۔ اس نے گوتنگن (Gottingen) یونیورسٹی میں جارج ہنری آگست ایوالڈ کے تحت علم الہیات پڑھا۔ 1872ء میں ولہائوزن گریفس والڈ میں الہیات کا پروفیسر نامزد ہوا۔ تاہم اس نے ایک مسئلے پر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس منصب سے 1882ء میں استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد یہ مستشرق ہیل (Halle) میں شعبہ علم لسانیات میں السنہ مشرق کا، اور بعدہ ماربرگ (Marburg) میں 1885ء میں پروفیسر منتخب ہوا۔ اس کے بعد 1892ء میں اس کا گوتنگن میں تبادلہ ہوگیا اور اس ادارے سے وہ اپنی وفات 7جنوری 1918ء تک وابستہ رہا۔
ماہرین الہیات اور علماء کتاب مقدس میں ولہائوزن اپنی کتاب ’’مقدمہ تاریخ قدیم اسرائیل‘‘(1882ء) اور ’’تدوین کتب خمسہ و عہد نامہ قدیم اور ان کی تاریخ‘‘ (1876ء) کے باعث معروف ہے۔
گہری اور وسیع نقد و نظر کے ساتھ ولہائوزن اسلامی تاریخ اور عام عربی مطالعات کی جانب متوجہ ہوا۔ اس سلسلے میں اس نے متعدد متفرد دراسات سرانجام دیے، جو مجموعہ دراسات’’خاکے اور مقدمات‘‘ (Skizzen und Vorarbeiten) میں جمع ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اسلام پر اس کی اہم تحقیقات یہ ہیں:
-1 ’’عرب بت پرستی کی باقیات‘‘ (Reste arabischen Heidentums)، برلن 1887ء۔ اس کا عربی ترجمہ بقایا الوثنیہ العربیہ کے نام سے ہوچکا ہے۔
-2 ’’مقدمہ برائے قدیم تاریخ اسلام‘‘ (Prolegomena zur altesten Geschichte des islams) برلن 1899ء
-3 ’’حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ میں‘‘، برلن 1882ء۔ یہ واقدی کی کتاب المغازی کا ترجمہ ہے۔
-4 ’’قدیم اسلام کے سیاسی و مذہبی احزاب: خوارج اور شیعہ‘‘، گوتنگن 1901ء
از معرکہ جمل تا زوالِ بنی امیہ کے دور میں خوارج اور شیعہ کے نشو و نما، ان کی تحریکیں اور بغاوتیں اس کتاب میں ذکر کی گئی ہیں۔ انگریزی میں اس کا ترجمہThe Religio-Political Opposition Parties in Early Islam: 1: The Khawarij 2:Shi’ites) کے نام سے ہوا۔ عبدالرحمن بدوی نے جرمنی سے اس کا عربی ترجمہ بنام احزاب المعارضۃ السیاسیۃ الدینیۃ فی صدر الاسلام، الخوارج والشیعۃ کیا جو قاہرہ سے 1958ء میں شائع ہوا۔ اسی عربی سے اس کا اردو ترجمہ پروفیسر محسن علی صدیقی نے کیا۔ پہلا حصہ شیعہ بنام ’عہد اموی میں سیاسی و مذہبی احزاب‘ (2001ء) شائع ہوا، اور پھر الخوارج (2009ء) کے نام سے دوسرا حصہ شائع ہوا۔ یہ دونوں حصے قرطاس کراچی سے شائع ہوئے۔
-5 اس سے اگلے سال 1902ء میں سلطنت و دولتِ عربیہ کی تاریخ پر جامع کتاب ’سلطنت عرب اور اس کا سقوط‘ (Das arabiche Reich und sein Sturz) برلن سے شائع ہوئی، جرمن سے اس کا انگریزی میں ترجمہ مارگریٹ گراہم ویئر نے “The Arab Kingdom and its Fall” کے نام سے کیا جو 1927ء میں کلتہ یونیورسٹی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انگریزی سے عربی میں شامی فاضل یوسف العش نے ترجمہ کیا جو دمش سے 1952ء میں شائع ہوا، اور دوسرا ترجمہ براہِ راست جرمن سے مصری عالم عبدالہادی ابوریدہ نے کیا جو قاہرہ سے 1957ء میں طبع ہوا۔
ہم نے اپنے اس ترجمے کی بنیاد گراہم ویئر کے انگریزی ترجمے کو بنایا جو مصنف کی جرمن عبارت تک محدود ہے۔ بعدہ ابوریدہ مصری کے ترجمہ عربی سے انگریزی ترجمے کی اغلاط کی تصحیح، اغلاق و ابہام کی توضیح و تشریح، اختصار و ایجاز کی تفصیل کا کام سرانجام دیا، لیکن یہ تمام اضافہ جات ہم نے قوسین میں درج کیے ہیں اور اہتمام کیا ہے کہ مصنف کی عبارت حشو وزوائد سے مبرا رہے۔ اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ عربی ترجمے کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو موجودہ اردو ترجمہ کسی قدر نقص کا حامل ہوتا۔ ساتھ ہی ہم نے ابوریدہ کے اکثر حواشی بھی اُن کے نام کے ساتھ قوسین میں ترجمہ کرکے شامل کردیے ہیں، اور ساتھ ہی اپنی طرف سے بھی جہاں فرصت و ضرورت نے اجازت دی متن میں قوسین میں تشریحی و تنقیدی عبارت یا الگ سے حواشی رقم کیے ہیں۔ عنوانات تمام تر مترجم کی جانب سے ہیں۔ اصل عربی اشعار بھی نقل کردیے ہیں۔ طبری کے اصل عربی الفاظ اور جملے بھی بریکٹ میں لکھ دیے ہیں۔ اگر کسی آیت کا فقط حوالہ تھا تو اصل آیت کا ترجمہ، اور اگر ترجمہ تھا تو عربی آیت بھی لکھ دی گئی ہے۔
مصنف نے مسلسل تنقید کے ساتھ حوادث و وقائع پیش کیے ہیں۔ اور اس بات کے لیے کوشاں رہا کہ وہ ان حوادث و وقائع کو ان میں شریک و سہیم افراد کی سیرتوں اور کرداروں کے تناظر میں صحیح ترین صورت میں پیش کرے۔ اس نے تمام امور میں سیاسی احوال و حالات کو پیش نظر رکھا۔ اس نے قبائلی عنصر ’عصبیت‘ کو بھی مدنظر رکھا، لیکن اس سے دوسرے نتائج اخذ کیے جو عام طور پر مؤرخین نے اخذ کیے تھے۔
یہودی عبرانی تاریخ پر کامل دسترس ہونے کی وجہ سے اسے اسلام، نبوت اور عرب کو قریبی اور درست نگاہ سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہرچند بہت سے مقامات پر اس کے قلم نے انصاف نہ کیا بلکہ وہ بھی عام مستشرقین کے مبنی برتعصب رویّے میں شریک ہوجاتا ہے۔ ان میں سے کم و بیش مقامات پر خود ہماری قدیم تاریخی کتابوں کا مواد اسے یہ موقع فراہم کرتا ہے، مگر بحیثیتِ مجموعی ایک مغربی مصنف سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا بہرحال درست نہ ہوگا۔ بعض امور سے متعلق شدید اختلاف کے باوجود ترجمے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہمارے محققین مستشرقین کی ان کتابوں کا بغور جائزہ لیں اور ان میں پائے جانے والے مواد کا معیاری تنقیدی اسلوب میں جواب دیں۔ ہماری تاریخی کتب میں پائے جانے والے رطب و یابس مواد کی چھان پھٹک کریں، مکھی پر مکھی مارنے کے بجائے نئی تحقیقات پیش کریں۔ ہم نے حتی المقدور اپنے اختلافی نوٹس سے اس کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی اس سلسلے میں عربی مترجم ابوریدہ کے ترجمے میں موجود حواشی سے بھی ہم نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ایک مغربی محقق ہم غیروں کی تاریخ کو کس قدر محنت اور دقت نظر سے زیر بحث لایا ہے۔
مستشرقین سے متعلق ہمارے یہاں عام طور پر معاندانہ جذبہ پایا جاتا ہے جس کی بہت کچھ درست وجوہات بھی ہیں۔ استعماریت کا علمی دست و بازو ہونے کی حیثیت سے استشراقی تحریک کو ہمارے نزدیک مبغوض ہونا بھی چاہیے۔ مگر یہ ’’دشمنی‘‘ علمی بنیادوں پر قائم ہونی چاہیے تاکہ اس ’’دشمنی‘‘ کا ہمیں علمی و عملی فائدہ بھی ہو۔ ہم ان چیزوں سے دامن بچا سکیں جنہوں نے ہماری مصفی اور روشن تاریخ کو گدلایا ہوا ہے اور بڑھتے بڑھتے ان چیزوں کا اثر اسلام کی اصل تعلیمات تک ممتد ہوجاتا ہے۔ مستشرقین کے علمی کارناموں سے انکار تو ممکن نہیں، تاہم ان کے علمی کاموں میں موجود شکر میں ملفوف زہر کو آشکار کرنے کے لیے اس قسم کی کتابوں کے ترجمے یقیناً ضروری ہیں تاکہ ان کا علمی تنقیدی جواب دیا جاسکے۔
اسلامی خلافت یہودی و مسیحی مذہبی حکومتوں سے کس قدر مماثلت رکھتی ہے، اور مذہب و سیاست کی علیحدگی مفید ہے کہ نقصان دہ، غرض اسی قسم کے تمام سوالات کے جواب زیر بحث تاریخی کتاب بہت عمدہ طریقے سے فراہم کرتی ہے۔ تاریخ کا اصل مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ماضی کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرکے حال کو بہتر اور مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔ ایک صدی ہونے کو آئی ہے جب یہ کتاب لکھی گئی، مگر اس میں ذکر کردہ مباحث آج بھی اسی طرح زندہ و تازہ ہیں جس طرح ایک صدی قبل تھے۔ چنانچہ قوی امید ہے کہ عہدِ بنی امیہ کی جدید اصولوں پر مبنی یہ محققانہ تاریخ اردو ادب میں ایک بیش بہا سرمایہ تصور کی جائے گی۔‘‘
یہ تمام تفصیل ہم نے ریحان عمر صاحب کے تحریر کردہ دیباچے سے ترتیب دی ہے۔ اصل عالمانہ علمی تحریر کتاب میں دیکھنی چاہیے۔ 9 ابواب پر منقسم کتاب میں جن عنوانات پر تحقیق پیش کی گئی ہے وہ ہم درج کرتے ہیں:
باب اوّل: تعارف
باب دوم: حضرت علیؓ اور پہلی خانہ جنگی
باب سوم: سفیانی خلفاء اور دوسری خانہ جنگی
باب چہارم: اوّلین مروانی خلفاء
باب پنجم: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اور موالی
باب ششم: متاخر مروانی خلفاء
باب ہفتم : خلیفہ مروان اور تیسری خانہ جنگی
باب ہشتم: خراسان میں عرب قبائل
باب نہم: سلطنتِ عرب کا سقوط