نام مجلہ : ششماہی ’’عمارت کار‘‘
جنوری تا دسمبر دو شمارے(17۔18)
مدیر : حیات رضوی امروہوی
قیمت : 300روپے فی شمارہ
رابطہ : B-119۔ سیکٹر 11-B نارتھ کراچی۔
فون نمبر 0322-2566969
سید حیات النبی رضوی امروہوی اس عہد میں اُن شفیق بزرگوں کی یادگار ہیں جن کی رفاقتیں آج بھی ہمارا سرمایۂ افتخار ہیں۔ اُردو میں عمارت کاری (آرکی ٹیکچر) کے موضوع پر آپ کا ادبی رسالہ ’’عمارت کار‘‘ ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
حیات رضوی امروہوی ایک کہنہ مشق ادیب، شاعر، محقق کے طور پر علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہیں۔ آپ کے اشاعتی ادارے ’’اشاعت حیات، حیات پبلی کیشنز‘‘ کی جانب سے دو تحقیقی کتابیں (1) ’’خلاصہ قرآن‘‘ جسے اکابر علمائے دین حضرت مولانا شاہ عبدالقادر ؒ دہلوی، حضرت مولانا محمود حسنؒ (دیو بند)، حضرت مولانا فتح محمد جالندھریؒ، حضرت مولانا احمد رضا خانؒ بریلوی کے تراجم کو سامنے رکھ کر مرتب کیا ہے جو قرآن فہمی کے فروغ میں اہمیت کا حامل ہے۔ (2) سرسید احمد خان کی مشہور کتاب ’’آثار الصنادید‘‘، جو عام قاری کی سہولت کے لیے رواں زبان میں مرتب کی گئی ہے۔ آپ کا شعری مجموعہ کلام ’’زاویۂ حیات‘‘ بھی ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کررہا ہے۔
پناہ لینے کو جائیں تو اب کہاں جائیں
خدا کے گھر کے علاوہ تو کوئی گھر بھی نہیں
………
ذرا جو برق تھمی تو سبھی نے یہ سمجھا
بنا کے ہم کو نیا آشیانہ دینے لگے
برادرِ محترم ڈاکٹر معین قریشی رقم طراز ہیں: ’’عمارت کار‘‘ کا شمارہ حسب ِ معمول اپنی پیشکش اور مشمولات میں بے نظیر ہے۔ تاہم مجھے آپ کا مضمون ’’قرآن کریم میں الفاظ و اصطلاحاتِ عمارت کاری‘‘ حیران کر گیا۔ ماشاء اللہ آپ نے تحقیق و جستجو کا حق کردیا۔ آیات کے مکمل حوالوں اور ترجموں نے اس دل چسپ اور معلومات افزا مضمون کی اہمیت دوچند کردی۔ اقبال احمد صدیقی کہتے ہیں: ششماہی ’’عمارت کار‘‘ میں ہم وقفے وقفے سے جناب حیات رضوی کے معیاری تراجم اور مبسوط مقالے پڑھ رہے ہیں۔ یہ تراجم اور سیر حاصل مضامین مدیر ’’عمارت کار‘‘ کے حُسنِ تحریر اور حُسنِ انتخاب کا کمال ہے۔ مرزا شاہد برلاس کا تحقیقی مقالہ ’’اہرام کیسے بنے‘‘، جناب اے آر حئی کا مضمون ’’پاکستان میں مسلم عمارت کاری کی بحث‘‘، ’’آثار الصنادید‘‘ کی نئی تدوین و ترتیب اور تزئین کا احوال یہ ہے کہ 140 سے زائد عمارات کی رنگین تصاویر، بڑی تقطیع کے دبیز آرٹ پیپر کے 208 صفحات کی رنگین طباعت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نجیب عمر بتاتے ہیں: ’’عمارت کار‘‘ کا تازہ شمارہ میرے ہاتھوں میں ہے۔ اُن لوگوں کو بڑی مایوسی ہوگی جو سمجھتے تھے کہ اس رسالے کے موضوعات ایک نہ ایک دن ختم ہوجائیں گے، جبکہ یہاں ہر شمارہ نت نئے تجزیوں سے مزین ہے۔ آپ کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ جنوری تا جون کے شمارے میں معروف نعت گو شاعر مرحوم مسرور کیفیؒ کا بھی ایک خط شامل ہے جو کہ غالباً اُن کے بھائی محمد رمضان کی جانب سے تحریر کیا گیا ہوگا، تصحیح فرما لیں، مسرور کیفیؒ بہت عرصہ قبل رحلت فرما چکے ہیں۔
’’عمارت کار‘‘ میں نہ صرف برصغیر پاک و ہند کی تاریخی عمارتوں کے بارے میں دلچسپ مضامین شامل ہوتے ہیں، بلکہ دنیا بھر کی اہم عمارات کا تذکرہ اور اُن کے فنِ تعمیر پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔
جنوری تا جون کے شمارے میں معروف تاریخ گو سید انتخاب علی کمالؔ جو گزشتہ رمضان المبارک میں کراچی میں رحلت فرما گئے، کی تحقیق ’’عمارت کاری سے متعلق غیر منقوط اشعارِ نعت‘‘ اہمیت کی حامل ہے۔ صاحبِ ’’ہادیٔ عالم‘‘ مولانا محمد ولی رازی نے ’’مدح رسولؐ‘‘ کے عنوان سے دس اشعار غیر منقوط کہے ہیں۔ یہ شعر معیار اصطلاحِ معماری پر پورا اُترتا ہے:
گو مرحلہ گراں ہے، مگر ہو رہے گا طے
اسمِ رسولؐ سے ہی درِ دل کو وا کروں
عمارت کاری سے متعلق معروف شاعر فیروز خسرو ناطق کی غزل بھی خوب ہے:
مول اک لے کے مکاں فصل اُگانی گھرکی
بھول بیٹھا تھا میں خود چھائوں بچھانی گھرکی
یاد آتی ہے فلیٹوں کے گھنے جنگل میں
میرے آنگن کی ہوا، شام سہانی گھر کی
چھت کی کڑیوں میں جو پرکھوں کی جڑی ہیں آنکھیں
کہتی رہتی ہیں خموشی سے کہانی گھر کی
شمارہ نمبر 18 میں ’’مغل تعمیرات اور گمراہ کن پروپیگنڈا‘‘ کے عنوان سے برادرم گہر اعظمیؔ نے تحقیق سے اس جھوٹ کو واضح کیا ہے کہ ’’جب یورپ میں کالج اور یونیورسٹیاں بن رہی تھیں مغل بادشاہ تاج محل اور شالامار باغ بنا رہے تھے‘‘۔ انہوں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ بغیر اعلیٰ درجے کی جیومیٹری، فزکس اور کیمسٹری میں مہارت، ایسی عمارات نہیں بن سکتیں۔
’’سرن کی تجربہ گاہ‘‘ کے بارے میں معروف صحافی جاوید چودھری کا نہایت اہم کالم شامل ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ سرن تاریخ کا سب سے بڑا انسانی معجزہ ہے۔
’’بلوچستان کے آثارِ قدیمہ‘‘ کی تفصیل نور خان محمد حسنی نے خوب بیان کی ہے۔ ’’وادی مہران پر ایک نظر‘‘ بزرگ دانشور مرحوم محمد احمد سبزواری کا مضمون بھی عمدہ ہے۔
مسلم فنِ تعمیر کے بارے میں شعبہ اُردو معارف ِاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کا تحقیقی مقالہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے فاطمین مصر تک کی تعمیرات کے تذکرے اور شمالی افریقہ کے اسلامی فنِ تعمیر کو مفصل بیان کیا جارہا ہے۔
شمارہ 17 میں پاکستان میں مسلم عمارت کاری پر اے آر حئی کا تحقیقی مقالہ بھی قارئین کو مسلم عمارت کاری کے بارے میں آگہی دیتا ہے۔ مرزا شاہد برلاس بتاتے ہیں کہ ’’اہرام مصر کیسے بنے؟‘‘
’’عمارت کار‘‘ میں خصوصی تراشے بھی اہمیت اور دل چسپی کے حامل ہوتے ہیں۔ ’’علامہ اقبال ؒ اور فنِ تعمیر‘‘ سے متعلق جاوید اقبال کی کتاب ’’زندہ رود‘‘ سے اقتباس:
’’جو طلبہ اسلامی تمدن کی عام تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہوں، اُن کے کورس میں مسلم آرٹ اور فنِ تعمیر بھی شامل کیا جائے اور اسلامی حکمت، ادبیات، آرٹ، تاریخ، نیز دینیات کا نصاب اختیار کریں، ان کے لیے جرمن اور فرانسیسی زبانوں کا حسب ِ ضرورت جاننا ازبس ضروری قرار دیا جائے، کسی قوم کی روحانی صحت کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ اس کے شاعروں اور فنکاروں کو کس قسم کی آمد ہوتی ہے جہاں تک تاریخ تمدن اسلامی کا تعلق ہے، میری دانست میں، ماسوا فنِ تعمیر کے، اسلامی آرٹ (موسیقی، مصوری اور شاعری تک) کو ابھی وجود میں آنا ہے۔
عمارت کاری کے حوالے سے اتنا خوبصورت، معیاری جریدہ حیات امروہوی کے اعلیٰ ذوق کا مظہر ہے۔ ’’عمارت کار‘‘ میں فنِ تعمیر اور آرٹ کے ساتھ اہم لکھنے والوں کی اعلیٰ ادبی تحریریں بھی اس کے حسن میں اضافے کا باعث ہیں۔ چہار رنگی عمدہ طباعت، دبیز آرٹ پیپر، عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ اس کا ہر صفحہ دیدہ زیب ہے۔ 80 صفحات پر مشتمل شمارے کی قیمت مناسب ہے۔ کراچی میں انجمن ترقی اُردو، فرید پبلشر اُردو بازار، اقبال بک ہائوس صدر، یونیورسل بک ڈپو ناظم آباد سے یہ شمارے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ خط کتابت کے ذریعے آپ اس کے مستقل خریدار بھی بن سکتے ہیں۔