پاکستان کا سرکاری ڈاک نظام آج بھی سب سے بہتر ہے اور اب ’’نیا ڈیجیٹل پاکستان پوسٹ‘‘ کے نام سے موبائل ایپ کا افتتاح کردیا گیا ہے۔ یہ ایپ پارسل ڈسپیچ ہونے سے منزل پر پہنچنے تک صارف کی رہنمائی کرے گی اور پارسل بھیجنے کے لیے اب ڈاک خانے کا عملہ صارف کے گھر آئے گا۔ نئی موبائل ایپ کا پہلا پائلٹ منصوبہ 10 شہروں میں شروع کیا جارہا ہے۔ سیالکوٹ، کراچی اور لاہور سے ایکسپورٹ پارسل کا آغاز ہورہا ہے جس میں 72 گھنٹے میں پارسل کی فراہمی یقینی ہے۔
14 جنوری سے پورے ملک میں ایکسپورٹ پارسل کے میدان میں پاکستان پوسٹ داخل ہوجائے گا، جبکہ لاجسٹک کے شعبے کی مارکیٹ میں بھی محکمہ ڈاک اپنا مقام پیدا کرے گا، جس کا آغاز 23 جنوری سے کردیا جائے گا۔ 23 مارچ تک پورا ’پاکستان پوسٹ‘ اپ گریڈ نظر آئے گا۔
امریکی فوج کی سالِ نو سے متعلق متنازع ٹوئٹ پر شدید تنقید
امریکی فوج کے جوہری ہتھیار کے نگراں ادارے امریکی اسٹرے ٹیجک کمانڈ کی جانب سے سالِ نو کے موقع پر کی گئی متنازع ٹوئٹ پر شدید تنقید کی گئی، جس کے بعد ادارے نے معافی مانگ لی۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹرے ٹیجک کمانڈ نے سالِ نو کے موقع پر کی گئی ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’’ٹائمز اسکوائر کی روایت کے مطابق نئے سال کا آغاز بال گرا کر کیا جاتا ہے، اگر کبھی ضرورت پڑی تو ہم اس سے زیادہ بڑی بال گرانے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ خیال رہے کہ نیویارک میں قائم ون ٹائمز اسکوائر کی عمارت پر 43 میٹر کے فلیگ پول سے چمکتی ہوئی بال گرانے کی روایت کا آغاز 1907ء میں کیا گیا تھا، یہ بال ہر برس کے آخری 60 سیکنڈ میں گرائی جاتی ہے اور نیا سال شروع ہونے پر روک دی جاتی ہے۔ بعد ازاں اسٹرے ٹیجک کمانڈ نے یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کرتے ہوئے اس پر معذرت کا اظہار کیا اور لکھا کہ ’’سالِ نوکے موقع پر ہمارا گزشتہ ٹوئٹ ہماری اقدار کی عکاسی نہیں کرتا، جس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں، ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم ہیں۔‘‘
اس حوالے سے اسٹرے ٹیجک کمانڈ کے ترجمان بروک ڈیوالٹ نے کہا کہ ٹوئٹ ’’ہماری کمانڈ کی ترجیحات کے اعادے کا حصہ ہے، جس میں امریکہ کے عوام کو ایک مرتبہ پھر اس بات کا یقین دلایا گیا کہ امریکی فوج ہمہ وقت تیار ہے، یہاں تک کہ سالِ نو کے موقع پر بھی‘‘۔ تاہم ناقدین کی جانب سے سالِ نو کے آغاز پر امریکی اسٹرے ٹیجک کمانڈ کے بیان پر شدید غم و غصے کا اظہار اور مذمت کی گئی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اخلاقی امور سے متعلق سرکاری ادارے کے سابق سربراہ والٹر شواب جونیئر نے ٹوئٹ کی کہ ’’کس طرح کے خبطی اس ملک کو چلا رہے ہیں‘‘۔ ’ّنیوکلیئر نائٹ میئرز، سیکیورنگ دی ورلڈ بیفور اِٹ اِز ٹو لیٹ‘‘ نامی کتاب کے مصنف کا کہنا تھا کہ ’’پہلے مجھے یقین نہیں آیاکہ ایسا حقیقت میں ہوسکتا ہے، ایک صنعتی اشتہار کو ہماری اسٹرے ٹیجک کمانڈ کی جانب سے لطیفے کی طرح پیش کیاجارہا ہے، یہ انتہائی شرمناک ہے‘‘۔ خیال رہے کہ امریکی اسٹرے ٹیجک کمانڈ امریکی شعبہ دفاع کی 10 منفرد کمانڈز میں سے ایک ہے جو نیبراسکا آفیٹ ایئرفورس بیس میں مقیم ہے۔ اسٹرے ٹیجک کمانڈ کا نعرہ ہے ’’امن ہمارا پیشہ ہے‘ (Peace is Our Profession) جسے متنازع ٹوئٹ میں ہیش ٹیگ استعمال کیا گیا تھا۔
دوسروں کی مدد دماغ پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے
ماہرین ایک عرصے سے مدد اور رحم دلی کو انسانی نفسیات کے لیے مفید قرار دیتے آرہے ہیں، تاہم اب یونیورسٹی آف پٹس برگ نے اسے عملی طور پر بھی ثابت کیا ہے۔
یونیورسٹی کے ماہرین نے 45 ایسے افراد کو بھرتی کیا جنہیں کوئی فلاحی کام سونپا گیا، جس میں کسی کی مدد کرنا، خیرات کرنا یا کچھ بھی بہتر کام شامل تھا۔ ان میں سے جن شرکا نے مدد کا ارادہ کیا اُن کے دماغ کے دو گوشوں میں سرگرمی نوٹ کی گئی جسے
خاص اسکین اور ایم آر آئی کے ذریعے دیکھا گیا۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ بھی نوٹ کی گئی کہ خیر کا کام کرنے والوں کے دماغ کے تین اہم گوشوں میں وہ سرگرمی کم ہوئی جو جسمانی درد، تناؤ، بلڈ پریشر اور اندرونی جلن کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف پٹس برگ نے مزید 400 رضاکاروں کا جائزہ لیا جو کسی نہ کسی خیراتی اور مدد کے کام میں شامل رہتے تھے، اُن کے دماغ میں بھی یہی مثبت سرگرمی دیکھی گئی۔ یونیورسٹی آف پٹس برگ سے وابستہ اور مطالعے میں شامل نفسیات کی ماہر پروفیسر ٹریسٹین ایناگاکی نے بتایا کہ انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے، ہم اپنی پیدائش سے لے کر زندہ رہنے تک کسی نہ کسی سے مدد چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مدد کرنا ہمارے دماغوں میں لکھا ہے اور اس سے ہی انسان کا دماغی سرکٹ اور نفسیاتی ذمے داریاں پوری ہوتی ہیں، لیکن خیرات اور مدد کرنے سے خود ہمارے جسم پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے والے رضاکار بیمار کم ہوتے ہیں اور طویل عمر پاتے ہیں۔ اس سے خوداعتمادی بڑھتی ہے اور ڈپریشن جیسے منفی رجحانات کم ہوتے ہیں۔ ماہرین نے زور دیا کہ والدین اپنے بچوں کے سامنے رحم دلی اور مدد کا عملی مظاہرہ کریں اور انہیں کم عمری سے ہمدردانہ امور کی جانب راغب کریں۔