امریکہ میں حزبِ اقتدار ری پبلکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار اور یوٹا ریاست سے سینیٹر مٹی رومنی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ دنیا بھر میں مایوسی پھیلانے کا باعث بنے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں مٹ رومنی نے کہا کہ ٹرمپ صدارت کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے اہلیت ثابت نہیں کرپائے ہیں۔ ماضی میں صدر ٹرمپ رومنی کے خلاف بیان دے چکے ہیں اور ایک مرتبہ انھوں نے رومنی کو ناکام امیدوار قرار دیا تھا، جبکہ 2020ء کی صدارتی مہم کے منیجر مٹ رومنی کو جلن اور حسد کا مارا کہہ چکے ہیں۔ مٹ رومنی کے سینیٹ میں حلف سے دو دن قبل اس مضمون کی اشاعت نے بہت سے لوگوں کی طرف سے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ مٹ رومنی آئندہ صدارتی انتخابات میں ری پبلکن جماعت کی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مضمون میں مٹ رومنی نے صدر ٹرمپ کی طرف سے ٹیکس اصلاحات اور قدامت پسند ججوں کے عدلیہ میں تقرر جیسی پالیسی کی تعریف بھی کی ہے جس کے لیے ری پبلکن جماعت ایک عرصے سے کوشاں رہی ہے۔
لیکن مٹ رومنی نے اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا ہے کہ جب قوم منقسم، ناراض اور غصے سے بھری بیٹھی ہے ایسے میں ایک انتہائی باصلاحیت شخص ہونا ضروری تھا۔ اور اس موقع پر موجودہ صدر کی نااہلی بہت واضح ہے۔ مٹ رومنی کے اس مضمون کا امریکی ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں میں بڑا ذکر ہورہا ہے۔ بہت سے ذرائع ابلاغ نے یہ قیاس آرائی کی ہے کہ مٹ رومنی امریکی کانگریس میں صدر کے سب سے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آنے کی کوشش میں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے کہا کہ مضمون کے بڑے حصے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صدر کے متبادل کے طور پر ایک امیدوار ابھر رہا ہے۔
لاہور کے تاریخی مقامات
ہم سب چھجو بھگت کا چوبارا، ایبک کا مزار اور لاہور کا قدیم ترین پرتگالی کلیسا دیکھنے کے بعد جہاں کبھی ’’مکتبہ جدید‘‘ ہوا کرتا تھا اور میں بچپن میں حنیف رامے صاحب سے کتابیں خریدنے آیا کرتا تھا اور اس کے آگے جو فٹ پاتھ تھا، وہاں ساغر صدیقی کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا، میں اور یوسف کامران اکثر ساغر کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر گپیں لگایا کرتے تھے۔ اس فٹ پاتھ کے پار سرکلر روڈ کو عبور کرنے کے بعد، گل فروشوں کے کھوکھوں سے ذرا آگے جب ہم اندرون شہر میں آوارگی کے لیے لوہاری دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے تو شہابے کھوکھے والے سے ملاقات ہوگئی۔ ملاقات کہاں ہوگئی میں نے ذاتی طور پر اُسے روک لیا کہ اِن دنوں مجھے کچھ طوطا مسائل درپیش تھے۔ دراصل چند ماہ پیشتر میرے نوجوان کوہ نورد دوست سلمان نے مجھے تحفے کے طور پر اپنے دوست الطاف کے ہاتھوں ایک طوطا بھجوایا تھا اور وہ کوئی عام سا باغوں میں ٹیں ٹیں کرنے والا طوطا من موتا نہ تھا، کانگو کا ’’افریقن گرے‘‘ طوطا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنا دانش مند ہے کہ آسانی سے ایک انسان بھی ہوسکتا تھا، لیکن اس نے انسانوں کے کرتوت دیکھ کر طوطا ہوجانے کو ترجیح دی۔ افریقن گرے کا دماغ ایک پانچ سالہ بچے کے برابر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے کھانے کو کچھ دیجیے تو اسے پہلے سونگھتا ہے کہ یہ میرے معیار کی خوراک ہے یا نہیں، اور پھر اسے ایک پنجے میں پکڑ کر ایسے کھاتا ہے جیسے بچہ برگر ہاتھ میں پکڑ کر کھاتا ہے۔ میری بیگم اس سے بہت لاڈ کرتی ہے اور پارو کہہ کر مخاطب کرتی ہے، اور میں حسد سے جل بھن کے خاک ہوجاتا ہوں کہ اُس نے آج تک حرام ہے مجھے پارو کہا ہو۔ ہم سے تو طوطے ہی اچھے۔ بہرطور میں نے شہابے کھوکھے والے کو روک لیا۔ میں کیسے جانتا تھا کہ وہ شہابا ہے اور کھوکھے والا ہے۔ اس لیے کہ اس نے اپنے بازو پر ایک ہریل طوطا بٹھا رکھا تھا اور میرے پوچھنے پر اپنا نام شہاب دین عرف شہابا بتایا تھا۔ میرا افریقن گرے خوراک کے بارے میں نخرے بہت کرتا تھا تو میں شہابے سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔ ’’بھائی جان آپ اپنے طوطے کو کیا کھلاتے ہیں، براہ کرم میری راہنمائی کیجیے، میں بہت پریشان ہوں‘‘۔ شہابا کہنے لگا ’’بھا جی، یہ ہر شے کھا لیتا ہے، ہری مرچیں، قلچے کے ساتھ بہت شوق سے کھاتا ہے۔ باقر خانیوں کا بھی شوقین ہے، اور ظاہر ہے اگر طوطا ہے تو امرودوں پر جان دیتا ہے‘‘۔ اس نے گویا میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’بھائی شہابے، میری یہی پرابلم ہے کہ میرا طوطا امرود بالکل نہیں کھاتا‘‘۔ شہاب دین نے نہایت سنجیدگی سے کہا ’’اگر امرود نہیں کھاتا تو وہ طوطا نہیں کوئی اور پرندہ ہوگا۔ بھاجی چیک کرلیجیے، کہیں کاں، شاں تو نہیں‘‘۔ مجھے اُس کی بدتمیزی پر غصہ تو بہت آیا کہ میرے قیمتی افریقن گرے کو کاں، شاں کہہ رہا ہے، لیکن میں ضبط کر گیا اور کہا ’’نہیں نہیں کبھی کبھار کوّے کی مانند بولتا ہے، لیکن ہرگز کوّا نہیں‘‘۔ ’’تو پھر وہ امرود نہیں تو اور کیا کھاتا ہے؟‘‘ ’’ٹینڈے اور کدو رغبت سے کھاتا ہے‘‘۔ شہاب دین مسکرانے لگا’’آرائیں طوطا لگتا ہے۔ ویسے میرا مٹھو میٹھا پان بھی بڑے شوق سے کھاتا ہے۔ لوہاری کا حمیدا پان والا دنیا کا بہترین میٹھا پان تیار کرتا ہے، تھوڑے سے قوام کے ساتھ۔ وہ لے جائیے‘‘۔ ’’نہیں شہاب دین، پان کھانے سے خوامخواہ یہ قوی خان کی مانند گاڑھی اردو بولنے لگے گا۔ مجھے اس کا شین قاف تو درست نہیں کروانا۔ کوئی اور خوراک بتائو‘‘۔ شہاب دین سوچ میں پڑ گیا اور پھر سر ہلا کر بولا ’’اگر وہ امرود نہیں کھاتا تو طوطا نہیں ہے۔ اگر ہے تو بیمار ہے۔ اسے کسی ڈنگر ڈاکٹر کو دکھائیے۔ وہی بتا سکے گا کہ وہ کیا کھائے گا‘‘۔
’’کیوں نسیم، تم بھی تو ڈاکٹر ہو؟‘‘
’’تارڑ صاحب، میں دندان ساز ہوں۔ طوطے کی چونچ میں کچھ خرابی ہے تو شاید میں اس کی مرمت کرسکوں۔ آپ مجھے ڈنگر ڈاکٹر سمجھتے ہیں۔ میں تو آپ کا علاج بھی کرتا رہا ہوں۔‘‘ ثابت ہوگیا کہ نسیم ایک بدتمیز دندان ساز تھا۔
لوہاری دروازے کے نہایت قدیم اور پُرکشش اور بھاری بھرکم پھاٹک کے ساتھ کسی مسخرے نے ہاتھ کردیا ہے۔ وہ کس کا ہاتھ تھا۔ قدیم شہر کو بحال کرنے والی اتھارٹی کا یا کسی آثار قدیمہ کے اہلکار کا، جس نے پھاٹک کا نصف حصہ نہایت عامیانہ سنہری رنگ سے پینٹ کردیا تھا۔ جب کہ بالائی حصہ جوں کا توں اپنی قدامت کے رنگ میں تھا۔ یعنی یہ پھاٹک دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ بھئی اگر اس کا بیڑہ غرق کرنا ہی تھا تو پورے پھاٹک پر سنہری پینٹ تھوپ دیتے۔ صرف نصف حصے پر ہی یہ بیڑہ غرقی کیوں تھوپی گئی ہے؟ کوئی ہے جو اس کا جواب عنایت کرسکے۔ لوہاری گیٹ کی محراب تلے’’لاہور سارنگی اسکول‘‘ کے بورڈ تلے کوئی صاحب ایک کھیس اوڑھے خراٹے لے رہے تھے۔ شاید کوئی استاد سارنگی نواز تھے جو ٹُک سارنگی بجاتے بجاتے سو گئے تھے، چنانچہ سرہانے میرکے آہستہ بولو۔ اس گیٹ کے پہلو میں ایک مختصر سی دکان سے بعداز موت کے بندوبست خریدے جا سکتے تھے’’یہاں کفن دفن کا سب سامان ملتا ہے‘‘ نہایت ہی عمدہ سہولت کے ساتھ، اور اس دکان کی شاخیں پورے شہر میں کھلنے سے مُردوں کا بھلا ہوجائے گا۔ بائیں جانب برصغیر کی سب سے اہم خطاطی کی بیٹھک کے آثار مٹ چکے تھے، وہ سائن بورڈ بھی جانے کدھر گیا جس پر ’’بیٹھک کاتباں‘‘ درج تھا، اس کے پہلو میں وہ جھروکا بھی معدوم ہوچکا تھا جہاں روایت ہے کہ ایک بہت بڑے غزل کے گلوکار کی والدہ مجرا کیا کرتی تھیں۔ لوہاری گیٹ کے اندر داخل ہوکر جو پہلا ’’چوک‘‘ آتا ہے یہ اب بھی’’چوک چکلہ‘‘کہلاتا ہے، اگرچہ اسے مشرف بہ اسلام کرکے ’’چوک بخاری‘‘ کا نام عطا کردیا گیا ہے۔ میرے ناول ’’راکھ‘‘ کے آغاز میں جن چار چیزوں کا تذکرہ ہے جو ہر ستمبر میں بلاتی ہیں، ان میں دریائے سوات کا سلیٹی منظر۔ قادر آباد کی جھیلوںمیں شکار۔ دریائے راوی کے کنارے کامران کی بارہ دری کے علاوہ چوک چکلہ بھی شامل ہے۔ بائیں جانب تو حاجی نہاری والے کی آبائی دکان ہے اور دائیں طرف کے بازار میں وہ سرخ حویلی اب بھی شاید ایک کھنڈر کی صورت موجود ہو۔
(مستنصر حسین تارڑ۔ روزنامہ 92۔ 2جنوری2019ء)