’’میں نے لائل پور ریسٹ ہائوس جاکر محکمہ مال کے پٹواریوں کو بلوایا، اُن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اپنے گھروں سے لٹے پٹے، اپنی جائدادیں چھوڑ، مظلومیت کے عالم میں ہمارے پاس پہنچے ہیں۔ ان مصیبت زدہ مہاجرین کی مدد کرنا ہمارا اخلاقی اور قانونی فرض ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ مجھے بتادیا جائے کہ کس شخص نے غیر قانونی طور پر متروکہ زمین پر قبضہ کررکھا ہے؟ میرے استفسار پر ان جہاندیدہ لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی کچھ بتانے سے گریز کیا۔ پھر میں نے دوسرا پہلو اختیار کرتے ہوئے کہا ’’جو کوئی مجھے بتائے گا اُسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا‘‘۔ اس پر ایک نوجوان پٹواری نے کھڑے ہوکر کہا ’’جنابِ عالی! اگر مجھے حفاظت فراہم کی جائے تو میں آپ کو بتائوں گا کہ ایک نواب نے، جو مسلم لیگ میں ایک بڑا لیڈر ہے، چالیس مربعے زمین پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔‘‘ میں نے اس زمین کے حاصل کرنے کا فوری حکم دیا اور قانون بنادیا کہ کیمپ میں موجود ہر کنبے کو وقتی طور پر آٹھ ایکڑ زمین مہیا کردی جائے۔ جب ریکارڈ ہندوستان سے آئے گا تو اس کے مطابق ردّ و بدل اور مستقل الاٹمنٹ کردی جائے گی۔ میں نے فنانشل کمشنر کو طلب کرکے دریافت کیا کہ کیا وہ پٹواری کو ترقی دینے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے؟ جواب اثبات میں ملنے پر میں نے فنانشل کمشنر سے کہا کہ وہ اس پٹواری کو دو درجے ترقی دے کر نائب تحصیل دار بنادے۔ ایک بوڑھا پٹواری جو اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا تھا کہ لائل پور میں کوئی متروکہ زمین کسی مقامی کے قبضے میں نہ تھی، کو فوری طور پر ڈی جی خان تبدیل کردیا گیا۔ یہ ضلع اُس زمانے میں ملازمین کے لیے ایک تکلیف دہ مقام سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے پٹواریوں نے جب انعام و سزا کا یہ منظر دیکھا تو ایک کے بعد دوسرا کھڑا ہوتا گیا اور پوشیدہ راز فاش ہونے لگے۔ مزید زمینوں کی نشاندہی ہوئی۔‘‘
’’اگر کوئی مجھ سے اس نقصانِ عظیم کے بارے میں پوچھے کہ میں ان اسباب کی نشاندہی کروں جن کی بنا پر وہ جذبۂ حب الوطنی اور وہ ایثار جو مسلم لیگ نے 1947ء سے پہلے لوگوں میں پیدا کیا تھا، کیوں ختم ہوگیا؟ اور وہ کیا چیز تھی جس کی بنا پر ہماری قوم نے مشرقی پنجاب کے ان پانچ لاکھ مسلمانوں کے قتل، ایک لاکھ مسلم خواتین کا اغوا اور پچاس لاکھ مسلمانوں کی ہجرت کو بھلا دیا؟ تو میرا جواب درج ذیل ہوگا:
-1حرص، لالچ اور کرپشن-2 غلام محمد اور نوکر شاہی -3ایوب خان کی حُبِّ جاہ کی بنا پر حلف ِوفاداری کی خلاف ورزی، جس کی پیروی دوسرے فوجی آمروں نے بھی کی-4 ناتجربہ کار اور ناموزوں سیاسی رہنما
کرپشن کا آغاز جائداد اور کاروبار کے ناجائز حصول کی بنا پر ہوا جو غیر مسلم اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ اس چیز نے لوگوں کو طمع اور دولت حاصل کرنے کی دوڑ میں مبتلا کردیا۔ ہمارے لوگوں نے اسلام کو بھلا دیا اور ہندوئوں کی دولت کی دیوی لکشمی کے پجاری بن گئے۔ اسلام کے بجائے انہوں نے دولت کو ذریعۂ نجات سمجھ لیا۔‘‘
’’مجھے یاد ہے کہ لاہور کا رہنے والا ایک دوست میرے پاس آیا۔ دورانِ گفتگو اس نے کہا ’’شوکت جی! تمہارا پاکستان پنپ نہیں سکے گا، اس لیے کہ ہم نے تمہارے لیے معاشی ادارہ چھوڑا ہے نہ کوئی صنعت کار یا بینکر‘‘ ۔ میں نے اسے کہا کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہنا چھوڑ دے۔ وہ قوم جو پچاس لاکھ مہاجرین کے بوجھ کو سہار سکتی ہے جو تم نے اچانک ہم پر ٹھونس دیے تھے، تو ایسی قوم کسی بھی صورتِ حال سے نبٹ سکتی ہے۔ اس نے کہا ’’شوکت! تم نے میری بات سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ میرا نکتہ سمجھنا چاہتے ہو تو میرا مشورہ ہے کہ اپنی واپسی پر کتوں کی ایک جوڑی خریدو، دونوں کو الگ الگ زنجیر میں مخالف کونوں میں باندھ دو۔ تین چار دنوں تک انہیں کھانے کو کچھ نہ دو، پھر ایک بکری کاٹو اور گوشت دونوں کے درمیان رکھ کر دونوں کی زنجیریں بیک وقت کھول دو۔ تم دیکھو گے کہ گوشت کو دیکھ کر دونوں کتے پہلے آپس میں لڑیں گے۔ ان میں سے جیتنے والا کتا ضرورت سے زیادہ کھا کر گر پڑے گا۔ اس کے بعد دوسرا پہلے کے چھوڑے ہوئے گوشت کو ضرورت سے زیادہ کھائے گا۔ دونوں بدہضمی کا شکار ہوکر بیمار ہوجائیں گے۔ ہم نے تمہارے بھوکے اور غریب لوگوں کے لیے وہاں پر بے انتہا دولت چھوڑی ہے، وہ اس چمک کو دیکھ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے۔ بعد میں وہ کتوں کی مانند ہوجائیں گے۔ وہ لالچ کی بنا پر تمہارے طے شدہ اصول بھول جائیں گے۔ ہم نے تمہارے حصے کے پنجاب میں اتنی زیادہ دولت چھوڑی ہے کہ تمہاری قوم بددیانت ہوجائے گی۔ سونے کی چمک دیکھ کر وہ دولت کی دیوی لکشمی دیوی کی پوجا کرنا شروع کردیں گے‘‘۔ آج سینتالیس سال بعد اُس کی یہ پیش گوئی کس قدر سچ ثابت ہوئی ہے۔ قوم اپنی روح ہی کھو بیٹھی ہے۔‘‘
(’’گم گشتہ قوم‘‘… سردار شوکت حیات)
کوششِ ناتمام
فرقتِ آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح
چشمِ شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے
رہتی ہے قیسِ روز کو لیلیٰ شام کی ہوس
اختر صبح مضطرب تابِ دوام کے لیے
کہتا تھا قطبِ آسماں قافلۂ نجوم سے
ہمرہو! میں ترس گیا لطفِ خرام کے لیے
سوتوں کو ندیوں کا شوق، بحر کاندیوں کو عشق
موجۂ بحر کو تپش ماہِ تمام کے لیے
حسنِ ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے
رازِ حیات پوچھ لے خضرِ خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ نا تمام سے
تابِ دوام: ہمیشہ کی چمک۔ خجستہ گام: مبارک قدم والا
صبح سورج کی جدائی میں پیچ و تاب کھاتی ہے۔ شفق کی آنکھ شام کے تارے کی جدائی میں خون روتی ہے۔ دن کے مجنوں کو شام کی لیلیٰ کی آرزو رہتی ہے، یعنی دن شام کا آرزومند ہے۔ صبح کا ستارہ اس لیے بے قرار ہے کہ اسے ہمیشہ کی چمک مل جائے۔ قطب تارا ستاروں کے قافلے سے کہہ رہا تھا کہ دوستو! میں تو چلنے کا مزا لینے کے لیے ترس گیا۔
مراد یہ ہے کہ قطب تارا اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور دوسرے ستاروں کی طرح گردش نہیں کرتا۔ وہ چلنے کا مزا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے چشمے ندیوں کے شوق میں پہاڑوں سے نکل کر اترتے ہیں۔ ندیاں سمندر کے عشق میں دوڑی چلی جاتی ہیں۔ سمندر کی لہروں کو پورے چاند کا عشق بے قرار رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ حسنِ مطلق جو لالے اور گلاب کے پردے میں چھپا ہوا ہے، اس لیے بے قرار ہے کہ اس کا جلوہ عام ہوجائے۔ زندگی کا بھید مبارک قدم والے خضر ؑ سے پوچھ، وہ بتائیں گے کہ ہر چیز اسی وقت تک زندہ ہے جب تک اس کی کوشش ختم نہ ہو۔ جونہی کوشش ختم ہوگی زندگی کی بساط بھی لپٹ جائے گی۔
اس نظم میں بھی جدوجہد، حرکت اور کوشش کا سبق دیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ کائنات کی ہر شے صرف تگ و دو اور ایک دوسرے کے عشق کی بنا پر زندہ ہے۔
(’’مطالب کلامِ اقبال اردو‘‘… مولانا غلام رسول مہرؔ )