ایرانی نژاد امریکی دانشور رضا اصلان کی ’’بیسٹ سیلر‘‘ کتاب میں ظاہرہ کردہ تصور خدا و مذہب
’’جب میں بچہ تھا، میرا خیال تھا خدا بہت بڑا اور قوت والا ایک بوڑھا آدمی ہے، جوآسمانوں میں رہتا ہے… وہ بادلوں سے ڈھکے ایک تخت پر بیٹھا ہے… جب وہ غصے میں آتا ہے، جوکہ وہ اکثر رہتا ہے، اس کی آواز آسمانوں میں گونجتی ہے۔ وہ رحم دل ہے، خوش ہوتا ہے تو ہنستا ہے۔ افسردہ ہوتا ہے تو روتا ہے… نہیں معلوم خدا کا یہ تصورکہاں سے آیا تھا۔ جب میں کچھ بڑا ہوا، خدا کے بارے میں بچکانہ خیالات ختم ہوچکے تھے۔ لیکن خدا کا انسان نما تصور قائم تھا… مجھے ہمیشہ سے مذہب اور روحانیت سے لگاؤ تھا۔ میرے ذہن میں خدا کی شکل وصورت کے حوالے سے سوال اب بھی گردش میں تھے، کہ خدا کہاں سے آیا؟ وہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے؟ میں خدا کا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ اپنی زندگی میں خدا کا عمل دخل چاہتا تھا۔ میں اب بھی اسے بزرگ باپ کے روپ میں متصورکرتا تھا۔ نوجوان ہوا تو اسلام ترک کرکے کٹر عیسائی بن گیا۔ اب میں خدا کو یسوع مسیح کی بزرگ شخصیت میں دیکھنے لگا۔ ایک گوشت پوست کا خدا۔ میں سارا وقت خود اور خدا کے درمیان کا فاصلہ طے کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اب میرے پاس ایک ایسا مذہب تھا جس میں میں اعلیٰ صفات کے انسان کو خدا کے طور پر دیکھ سکتا تھا۔ جیسا کہ جرمن فلاسفر لڈوگ فریئرباخ نے کہا تھا کہ ’’وہ ہستی جس میں مجسم انسانی خوبیاں ہوں، وہی ایک مجسم انسان کو مطمئن کرسکتی ہے‘‘۔ فریئرباخ کا یہ جملہ کالج کے زمانے میں پڑھا تھا۔ تب سے مذاہب کے مطالعے کا شوق پختہ ہوا تھا۔ ایک ایسا خدا جس میں انسان کی سی صفات کا عکس نظرآتا ہو، وہی انسان کے لیے ادراک کا بھرپور تجربہ ہوسکتا تھا۔ کچھ عرصے بعد خدا کا یہ تصور بہت محدود لگا۔ میں دوبارہ اسلام کی جانب لوٹ آیا، جہاں تصورِ خدا بہت وسیع ہے۔ خدا کوکسی شبیہ یا شکل میں محدود نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر پھر محسوس ہوا کہ دیگر مذاہب کی طرح مسلمان بھی خدا کے ساتھ محدود انسان جیسے ہی معاملات کرتے ہیں۔ میں یہاں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا جیسی کسی ہستی کا کوئی وجود نہیں، یا یہ انسان کی ایجاد ہے۔ گوکہ یہ دونوں مؤقف درست ہوسکتے ہیں۔
مجھے خدا کی موجودگی اور عدم موجودگی ثابت کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ دونوں کا ہی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ میرا مذہب دیومالائی قصوں اور رسوم، مندروں اور گرجا گھروں، یہ کرو اور وہ نہ کرو (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) سے ماورا ہے، جنہوں نے انسانیت کو عقائد کے مختلف و متحارب کیمپوں میں تقسیم کردیا۔ مذہب محض ایک ’زبان‘ سے ماورا ہے، یہ چند علامتوں اور استعاروں کا نام ہے، جو خدا سے ہم کلام ہونے میں مدد دے سکیں۔ ایک ایسا خدا جسے میں انسان نما کہتا ہوں‘‘۔
یہ ہیں ایرانی نژاد امریکی دانش ور رضا اصلان، جن کی کتب Best selling فہرست میں نظرآتی ہیں۔ مذکورہ خیالات ان کی نئی تصنیف “God A Human History” کے تعارف کا خلاصہ ہے۔ کتاب کے ابواب بھی یہی حقیقت سامنے لاتے ہیں، کہ ان کا ’تصورِ خدا‘ انسان نما ہے۔ مغربی علوم حیاتیات اور آثارِ قدیمہ سے انہوں نے یہ نتائج اخذ کیے ہیں۔ وہ قدیم غاروں کی دیواروں پر نقش دیومالائی تصاویر اور نقش ونگار سے تصورِ خدا کا انسانی بت تراشتے ہیں۔ یہ ان کا اپنا ہی بت ہے۔ یعنی انسان پرست ظاہر ہوتے ہیں… مگر زندہ مذہب کی زندہ اور واضح تعلیمات سے نظریں چراتے ہیں، کیونکہ یہ زندگی کو ایسے ضابطے کا پابند بناتی ہیں جس میں ذمے داریاں ہیں، جس میں جواب دہی ہے، جس میں نیک وبد اعمال کا موازنہ ہے، جس میں خیر و شرکا فلسفہ ہے، جس میں مادی و نفسانی خواہشات پر لگام ہے۔ رضا اصلان کتاب ان جملوں پر ختم کرتے ہیں: ’’ایسا خدا جس سے ڈرنے کی ضرورت نہ پڑے… وہ جو تمہاری ذات کا عکس ہو، کہ جیسے تم خود ہی خدا ہو‘‘۔
1979ء میں جب انقلابِ ایران آیا، رضا اصلان کا خاندان امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔ اصلان نے مذہبی مطالعات میں بی اے کی ڈگری سانتا کلارا یونیورسٹی سے حاصل کی۔ علوم الٰہیات میں ہارورڈ ڈیونیٹی اسکول سے ماسٹر کیا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ خود کو صوفی ازم سے قریب بتاتے ہیں۔ لبرل، صوفی، ماڈریٹ، اصلاح پسند وغیرہ وغیرہ کی قسم سے ہیں، جنہیں ’مغرب زدہ مسلمان‘ کی آسان اصطلاح میں سمجھا جاسکتا ہے۔ اس قبیل کے دیگر حضرات میں شادی حامد، ولی نصر، عمر سیف غباش وغیرہ اہم نام ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ذہین ہیں اور لکھنے کا ایک اسلوب رکھتے ہیں۔ یہ مغرب کا مسلمان ’ہتھیار‘ ہیں۔ انہیں مغرب میں مقیم سادہ لوح مسلم، غیر مسلم دونوں کی ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تھنک ٹینکس میں جگہ دی جاتی ہے۔ جامعات کی فیلوشپس سے نوازا جاتا ہے۔ کتابیں لکھوا کر بیسٹ سیلر بنوایا جاتا ہے۔
آدمی اگر مسلمان ہو، اور اگر خدانخواستہ تصور خدا مغربی ہو، اور استغفراللہ، تصورِکائنات بھی مغربی ہو… ایسی صورتِ حال میں مغرب زدہ ’مسئلہ مسلمان‘ کی وہ نئی صورت سامنے آتی ہے، جو علمی و نفسیاتی اعتبار سے بالکل نئی نہیں۔ ماضی میں یونانی و دیگر مؤثر تصورات اسلام سے تصادم اختیار کرچکے ہیں۔ امام غزالیؒ کے چھوٹے سے رسالے تحافۃ الفلاسفہ نے یونانی فلسفے خس وخاشاک کیے ہیں۔ یہ ’مسئلہ مسلمان‘ ہمیشہ سے درپیش ہے۔ آج نوعیت زیادہ حساس اور سنگین ہے۔ وجہ غلامانہ ذہنیت ہے۔ آقا کا کسی غلام کی دانش سے متاثر ہونا، اور کسی غلام کا آقا کی ہاں میں ہاں ملانا یکسر مختلف اسباب و نتائج سامنے لاتے ہیں۔ مجددِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’’تنقیحات‘‘ میں مغرب زدہ ’مسئلہ مسلمان‘ عمدگی سے واضح کیا ہے۔ باب ’عقلیت کا فریب‘ میں کہتے ہیں:
’’اسلامی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوانوں کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا ہے اُس کا اندازہ اُن تحریروں سے ہوسکتا ہے جو اس قسم کے لوگوں کی زبان و قلم سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں۔ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے، مسلم سوسائٹی کے رکن کی حیثیت سے پلے بڑھے، مسلمانوں کے ساتھ معاشرت وتمدن کی بندشوں میں بندھے، اس لیے اسلام کی محبت، مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی، اور مسلمان رہنے کی خواہش گویا ان کی گھٹی میں پڑی اور ان کے دلوں میں اس طرح بیٹھ گئی کہ اس میں ان کے ارادے اور اپنی عقلی وفکری قوتوں کا دخل نہ تھا۔ مگر قبل اس کے کہ اس اضطراری و غیر شعوری اسلام کو تعلیم وتربیت کے ذریعے سے اختیاری و شعوری اسلام بنایا جاتا، اور ان میں یہ صلاحیت پیدا کی جاتی کہ وہ اسلامی تعلیمات کو پوری طرح سمجھ کر مسلمان ہوتے اور عملی زندگی میں اس کے احکام و قوانین کو برت کر بھی دیکھ لیتے، انہیں انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیا گیا، جہاں ان کے قوائے ذہنی و فکری کی پرورش بالکل غیر اسلامی تعلیم و تربیت میں ہوئی، اور ان کے دماغوں پر مغربی افکار اور مغربی تہذیب کے اصول اس طرح چھاگئے کہ ہر چیز کو وہ مغرب کی نظر سے دیکھنے اور ہر مسئلے پر مغرب ہی کے ذہن سے غور کرنے لگے، اور مغربیت کے اس استیلا سے آزاد ہوکر سوچنا اور دیکھنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ مغرب سے انہوں نے عقلیت (Rationalism) کا سبق سیکھا، مگر خود عقل ان کی اپنی نہ تھی بالکل یورپ سے حاصل کی ہوئی تھی، اس لیے ان کی عقلیت دراصل فرنگی عقلیت ہوگئی، نہ کہ آزاد عقلیت۔ انہوں نے مغرب سے تنقید (Crtisicm) کا درس بھی لیا، مگر یہ آزاد تنقید کا درس نہ تھا، بلکہ اس چیز کا درس تھا کہ مغرب کے اصولوں کو برحق مان کر ان کے معیار پر ہر اُس چیز کو جانچو جو مغربی نہیں ہے، لیکن خود مغرب کے اصولوں کو تنقید سے بالاترسمجھو… مذہبی مسائل پر جب یہ حضرات اظہارِ خیال کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے تقریر فرما رہے ہیں۔ نہ ان کے مقدمات درست ہوتے ہیں، نہ منطقی اسلوب پر اسے ترتیب دیتے ہیں اور نہ صحیح نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کلام کرتے وقت خود اپنی پوزیشن بھی متعین نہیں کرتے۔ ایک ہی سلسلۂ کلام میں کئی حیثیتیں اختیارکرجاتے ہیں۔ سُستی فکر(loose thinking) ان کے مذہبی ارشادات کی نمایاں خصوصیت ہے… یہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مسلم کی حیثیت سے کلام کررہے ہیں یا غیر مسلم کی حیثیت سے… عقلیت اور فطریت یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گزشتہ دو صدیوں سے مغربی تہذیب بڑے زورشور سے دے رہی ہے۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے اُس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا؟ بالآخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسر عقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے، نہ اصولِ فطرت کی متابعت پر… بلکہ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھانچہ حس اور خواہش اور ضرورت پر قائم ہے۔‘‘
گو اقتباس طویل ہے، مگرمغرب زدہ مسلمان کی علمی اور نفسیاتی حالت پر معیاری تنقید سامنے آتی ہے۔ رضا اصلان اور دیگر روحانی مادہ پرستوں کا ’تصورِ مذہب‘ درحقیقت دیومالائی ہے۔ اسے ایمان ویقین سے کچھ تعلق نہیں۔ ایمان یہ حضرات نظریۂ ارتقا پرلائے ہیں، جس کا ثبوت ان کی تصنیف میں جابجا ملتا ہے۔ یہ انسان کی تلاش میں ایک غار سے دوسرے غار میں جا نکلتے ہیں۔ وہاں سے بوسیدہ ہڈیوں کی ہیئتوں میں یوں گم ہوجاتے ہیں، جیسے دنیا میں تاریخ اور مذہب کی کوئی زندہ حقیقت باقی نہ رہی ہو۔ حیوانی معاشرت میں گھوم پھرکر یہ پھر آئینے کے سامنے جاکھڑے ہوتے ہیں، جہاں آدھے انسان اور آدھے بارہ سنگھے کا عکس دیکھتے ہیں۔ خود کو ایسا دیوتا تصور کرتے ہیں، جو قدیم انسانی قبائل کا خدا ہو… چاہتے ہیں خواہشاتِ نفسانی کسی قانون، کسی ضابطے کی پابند نہ ہوں، مگر روحانی تسکین کا بھی خودساختہ انتظام کرلیا جائے، جس میں جوابدہی کہیں نہ ہو، بس موسیقی کی ہلکی دھنوں پر عیش وطرب کی رنگین شامیں ہوں، صوفیانہ رقص پر خودفریبی سے لطف اندوز ہوا جائے۔
رضا اصلان کے بچپن کا خدا استثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہر مذہب مرکز معاشرے کا بچپن ہے۔ صرف یہی نہیں، بچپن کا چاند بھی آسمان کا ایسا دروازہ ہوتا ہے، جہاں بڑھیا بیٹھی چرخہ کاتتی ہے۔ بچپن کے تصورات معصوم اور محدود ہوتے ہیں۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں، اور نہ ہی بالغ فکر کے لیے دلیلِ برحق۔ ایسا سمجھنا علم وعقل کے خلاف ہے۔ یوں بچپن کے خدا پر جوانی میں ’تصورِ خدا‘ مستحکم کرنا معصومیت نہیں بلکہ معصیت ہے۔ یہ نفسانی خواہشات کی پیروی ہے۔ احکامات کا انکار ہے۔ جرمن فلسفی فریئر باخ کا قول اگر غور سے دوبارہ پڑھا جائے… جو کہ سوفیصد درست ہے… تو واضح ہوجائے گا کہ یہ اعلیٰ صفات کا کامل انسان انبیاء و رسل علیہ السلام ہیں، جن کا کردار سراسر خیرکا استعارہ ہے۔ ہمیشہ سے ایک عظیم اکثریت انہیں ہی اعلیٰ ترین انسان سمجھتی ہے۔ God A human history میں خدا متواتر حیثیتیں بدلتا ہے، اور آخر میں مصنف خود ہی خدا بن بیٹھتا ہے۔ یہ روحانیت نہیں فرعونیت ہے۔
یہ مغرب کے اصولوں پر ایمان لاچکے ہیں۔ ان کے ہاں اسلامی اصولوں کی بالادستی پر منظم معاشرے کا کوئی تصور نہیں۔ یہ ایسا تصور کر ہی نہیں سکتے۔ یہ مغربی تصورِ مذہب اور تصورِ معاشرت و معیشت پر اسلام کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں… اسلام کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اپنے تئیں مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا انداز اس معاملے میں اس قدر موضوعی ہے کہ گویا اسلام پر احسان فرما رہے ہیں۔
خود خدائے ذوالجلال ذات وصفات اور احکامات کے باب میں فرماتا ہے: ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو سب جہانوں کا پروردگارہے۔ رحمان ہے۔ رحیم ہے۔ روزِجزا وسزا کا مالک ہے۔‘‘ (فاتحہ)
’’اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ نہ سوتا ہے اورنہ اسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جوکچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے، اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے، اور اس کی معلومات میں سے کوئی بھی چیز ان کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلاّ یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے، اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔‘‘ (آیت الکرسی)
’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں، اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘ (آل عمران، آیت 14)