روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتﷺ(جلدہفتم)۔

محمود عزیز
نام کتاب: روح الامین کی معیت میں
کاروانِ نبوتﷺ(جلدہفتم)
مصنف: تسنیم احمد، پی ایچ ڈی
شائع کردہ: مکتبہ دعوۃ الحق93 اے، اٹاوہ سوسائٹی، احسن آباد،کراچی
ای میل tasneem@roohulameen.com
یو آر ایل www.roohulameen.com
قیمت 300 پاکستانی روپے یا 15اَمریکی ڈالر
)فنڈ برائے اشاعتِ مزید(
کتاب ملنے کا پتا
اسلامک ریسرچ اکیڈمی،کراچی
ادارہ معارف اسلامی، منصورہ،لاہور
سلسلہ کتب ”کاروانِ نبوتﷺ“ کی یہ ساتویں جلد ہے جو مکی دور کے آخری ایّام کی روداد پر مشتمل ہے، جس میں ان ایّام میں نازل ہونے والے قرآنی اجزا سُوْرَةُ النَّحْل، سُوْرَةُ یُوْسُف، سُوْرَةُ الْاَنْعَام، سُوْرَةُ الْبَیِّنَة اورسُوْرَةُ الْحَجّ[پہلا رکوع] کو مختصراً بیان کرنے کے ساتھ، اِن ایّام کے احوال اور اِن کے ربط کو بھی مستحکم کیا گیا ہے، یہی چیز اس سلسلہ کتب کی اصل روح ہے۔
کتاب میں جن احوال و واقعات کو بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہیں: اسعد بن زرارہ اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہم کی قیادت میں یثرب میں اسلام کی اشاعت، بیعتِ عقبہ ثانیہ، مسلمانوں کی یثرب کی جانب ہجرت، قتل کا منصوبہ، نبی کریم ﷺ کا بحفاظت نکلنا، کچھ وقت غارِ ثور میں، سراقہؓ کا ایمان لانا، بریدہ اسلمیؓ کی عَلم برداری میں قافلہ نبوتﷺکی پیش قدمی، قبا میں داخلہ اور یثرب کا مدینۃ النبیؐ بن جانا۔
مصنف کہتے ہیں کہ یہ روداد حیاتِ مبارکہ کے مکی دور کے آخری تین ماہ [کل 84 دن] میں اسلام اور جاہلیت کے درمیان ایک زبردست اور کانٹے کی کشمکش کو بیان کرتی ہے۔ یہ روداد ہے، اہلِ یثرب کی اس درخواست کی کہ اسلام کب تک مکے کے پہاڑوں میں ناقدروں کے ہاتھوں میں نشانہ ستم رہے گا؟ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان یثرب آجائیں تو وہ سارے عرب سے دشمنی مول لے کر اور اپنی جانیں نچھاور کرکے اسلام کو غالب کرنے کی جدوجہد کریں گے، اور اس کام کے بدلے سوائے آخرت میں جنتوں کے، دنیا میں کسی اجر یا حکمرانی کی امید نہ رکھیں گے۔ مکی زندگی کے اختتام کی اس روداد میں سردارانِ قریش کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش اور اُسے عملی جامہ پہنانے کی ناکام کوشش کی تفصیلات کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کم و بیش گیارہ روزہ سفرِ ہجرت کی ایمان افروز روداد بھی شامل ہے۔ آنے والی سطور میں ہم کتاب سے اہم واقعات کی ایک تلخیص قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں۔
بیعتِ عقبہ ثانیہ ہوچکی ہے، اور یہ 10ستمبر 622ء کو جمعہ کادن ہے، جب تاریخِ انسانی کا عظیم ترین مراقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے، جس سے پرانی دنیا ختم اور نئی دنیا کی ابتدا ہونے والی ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے یثرب کو سفرِ ہجرت ہے، جو اب مدینۃ النبیؐ بننے والا ہے اور جہاں سے دنیا میں توحید کا بول بالا اور شرک کا منہ کالا ہونے والا ہے، جس کا پسِ منظر یہ ہے کہ بیعتِ ثانیہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یثرب کی جانب چلے جانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﷲ نے تمھارے دم ساز و مددگار بنادیے ہیں اور ایسی سرزمین دے دی ہے جہاں تم اطمینان سے رہ سکتے ہو۔ اس کے بعد صحابہؓ نے مدینے کی جانب ہجرت شروع کی۔ چناں چہ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے صرف دو ماہ اور چند مزید دنوں کے اندر اندر تمام مومنین مکے سے مدینے کی جانب ہجرت کر گئے۔
مصنف ہجرت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہجرت کے معنی چھوڑ دینا، الگ ہوجانا، دور ہوجانا یا ترک کردینا ہے۔ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل اورسُوْرَةُ الْمُدَّثِّر میں یہ لفظ اِنھی معانی میں آچکاہے۔
اصطلاحاً، اللہ کے لیے ترکِ وطن کو ہجرت کہا گیا ہے۔ ہجرت میں اللہ کی خاطر، اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے ایک مومن سارے مفادات، گھر بار، مال دولت، تعلقات کو پسِ پشت ڈال کے ترکِ وطن کرکے محض اللہ توکل پر ایک اجنبی ماحول کی جانب روانہ ہوجاتا ہے، جو ضرورت پڑنے پر دینی فرض بن جاتا ہے۔

ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہی
دے تُو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

مشرکین اُن کی روانگی سے پریشان ہو گئے، کیوں کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ نہ صرف اب اُن کے تجارتی راستوں کے درمیان واقع یثرب سے اُن کی تجارتی اور معاشی ناکہ بندی ہو گی بلکہ ابراہیم و اسمٰعیل علیہ السلام کے جائز وارث بن کر مسلمان کعبے پر بھی اپنا حق جتائیں گے اور اُس کے انتظام کی سعادت اُن سے چھین لیں گے۔ لہٰذا اُنھوں نے اس پریشانی سے نبٹنے کے لیے دارالندوہ میں ایک یک نکاتی ایجنڈے پر اجلاس طلب کیا جس میں نعوذباللہ بالاتفاق یہ طے کیا کہ رسالت مآبؐ کو قتل کردیا جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کا یہ منصوبہ ناکام بنادیا۔ اس منصوبے کو روبہ عمل لانے کے لیے یہ سوچا گیا کہ ہر قبیلے سے ایک آدمی لیا جائے اور وہ سب کے سب رسالت مآبؐ کے گھر کا رخ کریں اور یک بارگی تلوار کے حملے سےآپ ؐ کو قتل کردیں، گویا ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہے۔ اس ناپاک منصوبے پر عمل کرنے کے لیے وہ بے چین ہوگئے۔
نصف شب گزر چکی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معمول کے مطابق جس وقت تہجد کے لیے گھر سے نکلتے تھے باہر تشریف لائے، کائنات کا خالق و مالک بھی ساتھ تھا۔ مشرکین ایک مدہوشی کے عالم میں دنیا و مافیہا سے بے خبر کردیے گئےتھے، آپؐ نے اُن کی صفیں چیریں اور ایک مٹھی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی، [اِن کی مانگیں بھردیں!] کھلی آنکھیں کچھ نہیں دیکھ رہی تھیں، اللہ نے ان کی بصارت صلب کرلی، وہ آپؐ کو دیکھ ہی نہ سکے۔ آپؐ آج سے آٹھ برس قبل نازل ہونے والی سُوْرَةُ یٰسٓ کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمارہے تھے: وَجَعَلْنَا مِنم بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (36: 9)”ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی۔ پس ہم نے اُنھیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے تھے۔“ اس موقع پرگھات لگائے مشرکین میں سے کوئی نہ بچا جس کے سر پر مٹی نہ پڑی ہو۔
جن دنوں مکہ میں سردارانِ قریش نے دعوتِ توحید پر ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں، سنہ 12 نبوی میں یثرب سے آئے ہوئے بارہ افراد نے بیعت عقبہ اولیٰ میں حصہ لیا اور یثرب واپس جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ اسلام کی تعلیمات سکھانے کے لیے مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی معلم یثرب میں بھیجا جائے۔ اِس مقصد کے لیے آپؐ نے مصعبؓ بن عمیر کا انتخاب کیا اور انھیں حکم دیا کہ اسلام کی طرف آنے والے اہل ِیثرب کو قرآن سکھائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ یعنی جو آدابِ زندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے ہیں اُن کو یثرب کے مسلمانوں کے اخلاق و زندگی میں اپنے عمل اور تعلیمات سے منتقل کریں۔ مصعب بن عمیر عبدری ؓ اور اسعد بن زرارہ ؓنے مل کر یثرب میں دینِ اسلام کی دعوت دینی شروع کردی، اور چند مہینوں میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ بیعتِ عقبیٰ اولیٰ تو بیعتِ عقبیٰ ثانیہ کا دیباچہ تھی جسے انسانیت کی صورت گری کرنی تھی۔
اگلے برس مصعب بن عمیر ؓ اشاعتِ دین میں بیش بہا کامیابی کا مژدہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ واپس آئے۔ مصعب ؓ کے پیچھےبراء بن معرورؓکی قیادت میں ستّر مردوں اور دو عورتوں پر مشتمل 72 نو مسلم یثربیوں کا ایک قافلہ بھی یثرب اور نواح کے مشرک حاجیوں کے ساتھ مکہ پہنچا۔ یثرب سے آنے والے اِن نومسلموں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ یثرب میں اسلامی تحریک نے نوجوان نسل کو زیادہ متاثر کیا تھا، خاص دینی اور ایمانی حکمت کے تحت انھوں نے مشرکین کے قافلے سے الگ ہو کر سفر نہیں کیا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے سے علیحدہ ہو کر الگ ایک گروپ کی شکل میں واپس جانے کی کوئی ہدایت دی۔ یہاں مصنف نے اس حکمتِ عملی سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:
”اِس طرزِعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تحریکات کو کام کرتے ہوئے نوجوانوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور ہر مباح معاملے میں عام معاشرے سے مقاطعہ نہیں کرنا چاہیے۔“
بارہ ذوالحجہ سنہ 13 نبوی کو جمرۃ عقبہ کے پاس گھاٹی میں انتہائی رازدارانہ طریقے پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں اسلام اور جاہلیت کے درمیان جاری تیرہ سالہ جنگ کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لانے کا فیصلہ کرلیا گیا کہ زمین پر مشرکانہ جاہلیت کو زندہ رہنا ہے یا اسلام کو!! یہی وہ تاریخی میٹنگ ہے جس میں یثرب کے وفد نے آپؐ کے دستِ مبارک پر بیعت کی، اِس کو بیعت عقبۂ ثانیہ کہتے ہیں۔ اس میٹنگ میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر یثرب آجائیں تو دینی اور فوجی تعاون کی نوعیت کیا ہوگی، اور عہدو پیمان کو قطعی اور آخری شکل دی گئی۔ اہلِ یثرب نے درجِ ذیل شرائط پر بیعت کی:
1- چستی اور سستی ہر حال میں بات سنو گے اور مانو گے۔
2- تنگی اور بدحالی، ہر حال میں مال خرچ کروگے۔
3- بھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکو گے۔
4- اللہ کی راہ میں اُٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کروگے۔
5- اور جب میں تمھارے پاس آجاؤں گا تو میری مدد کروگے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کروگے۔
6- ہم اہلِ حکومت سے حکومت کے لیےتنازع نہیں کریں گے۔
بیعت کی شقوں میں پانچویں شق سب سے اہم تھی، اس کا مطلب تھا کہ آپ کی حفاظت میں ہم اپنی جانوں پر کھیل جائیں گے جیسے اپنے اہل و عیال کے لیے کرتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب سارے عرب سے دشمنی تھا اور جنگ کے لیے تیار ہوجانا تھا۔ قریش کو اسی شق پر ناراضی ہوئی، انھوں نے اس بیعت کو قریش سے جنگ کا معاہدہ قرار دیا۔
کتاب کی اس ساتویں جلد میں جس مضبوطی سے سُوْرَةُ یُوْسُف، سُوْرَةُ الْبَیِّنَة اورسُوْرَةُ الْحَجّ کے مفاہیم کو حالات سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے، اُس مضبوطی سے مصنف سُوْرَةُ النَّحْل اور سُوْرَةُ الْاَنْعَام کے مفاہیم کو حالات سے ہم آہنگ دکھانے میں کامیاب نظر نہیں آتے۔ مگر سیرت النبیؐ پر لٹریچر کی تاریخ میں یہ ایک بڑی منفرد کوشش کا آغاز ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس نہج پر مزید کام ہوگا اور آنے والے لوگ اس نظیر پر کام کو آگے بڑھا سکیں گے۔ اردو زبان قابلِ رشک و مبارک باد ہے کہ جس میں نزولِ قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق پر دورِ نبوت کے پہلے تیرہ برسوں کا ایسا مکمل احاطہ ہوگیا ہے جس کی نظیر کسی دوسری زبان کے لٹریچر میں نہیں ہے۔ اس کتاب کا عربی اور انگلش میں ضرور ترجمہ ہونا چاہیے۔
مجموعی طور پر مصنف کی عبارت آرائی سلیس و دلچسپ، رواں دواں اور دل میں اُتر جانے والی ہے۔ کتاب کو ختم کرنے کے بعد قاری کی نظریں آئندہ جلد کی منتظر ہوجاتی ہیں۔ کمپوزنگ، طباعت اور سرورق خوب اور اعلیٰ معیار کے ہیں، جو کتاب کی جاذبیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس ساتویں جلد تک صفحات کی تعداد دو ہزار سے متجاوز ہے، کیا اچھا ہو کہ یہ بڑے سائز کی دو یا تین ضخیم جلدوں میں شائع کی جائے، جن کا سنبھالنا سات جلدوں کے مقابلے میں آسان ہو۔

اخبار نویسوں کے حالات

یہ کتاب اواخر انیسویں صدی اور اوائل بیسویں صدی کے اخبار نویسوں کے حالات کے بارے میں ہے جسے اُس زمانے کے مشہور اخبار نویس، مؤرخ اور کثیرالتصانیف مصنف محمد الدین فوق نے مرتب کیا تھا۔ 1912ء میں چھپنے والی یہ کتاب اُردو صحافت اور اُردو اخبار نویسوں کی بابت ایک اہم ترین ماخذ ہے جس کا مطالعہ کیے بغیر اردو صحافت اور اردو اخبار نویسوں، نیز اُس زمانے کی صحافت و سیاست اور ہندو مسلم تنازعے اور اس کے حقیقی پس منظر کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ کتاب کی ندرت و اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں پچھلی صدی کے اخبار نویسوں کی قلمی تصاویر بھی شامل کی گئی تھیں۔ قدیم صحافیوں کی بابت اس کتاب کا اختصاص یہ بھی ہے کہ اس میں ادوارِ گزشتہ کے صحافیوں کے قلمی خاکے پہلی بار شائع کیے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر مسعود نے جو انیسویں صدی کی اُردو صحافت پر اپنی بلند پایہ تحقیقی تصانیف کی بدولت اب ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کتاب کو نہایت محنت، سلیقے اور اضافی معلومات کے ساتھ پہلی بار اس طرح مرتب کیا ہے کہ صحافت کی تاریخ کے مطالعے کی ضرورت اور اہمیت کو نہ صرف مدلل طریقے سے ثابت کیا ہے بلکہ زیرنظر کتاب میں شامل اخبار نویسوں کے حالات کا تجزیہ کرکے پچھلی صدی کی سیاسی، معاشرتی اور مذہبی تاریخ اور اس کے تنازعات کے بعض نہایت اہم پہلوئوں کی نشاندہی بھی کی ہے جن سے یہ سراغ بھی ملتا ہے کہ ہندو مسلم تنازعے کی شروعات اور اسے بڑھاوا دینے میں اُردو اخبار نویسوں اور اُردو صحافت نے کیا کردار ادا کیا۔ یہ کتاب اپنی نئی معلومات کے لحاظ سے اہم تو تھی ہی لیکن ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنے تجزیاتی مقدمے اور معلومات کے ذریعے اسے برعظیم کی صحافتی، سیاسی اور تہذیبی تاریخ کا اہم علمی اور فکری سرمایہ بنادیا ہے۔