بلوچستان میں خشک سالی کا آسیب

یقینا آفات پر انسان کا بس نہیں ہوتا، تاہم حکومتیں پیش بندی کرتی ہیں تاکہ نقصانات کم سے کم ہوں اور لوگوں کے تحفظ کے لیے جامع منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ بلوچستان کے کئی اضلاع اس وقت خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ طویل عرصے سے بارشیں نہیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے فصلیں، باغات، مال مویشی تباہی کے دہانے پر ہیں۔ پیش ازیں 1990ء کی دہائی میں طویل خشک سالی کے نتیجے میں بلوچستان کے اندر زمینداری و زراعت کو شدید نقصان پہنچا، اور گلہ بانی کا شعبہ شدید متاثر ہوا۔ چناں چہ اس وقت صوبے کے گیارہ اضلاع نوشکی، چاغی، خاران، واشک، پنجگور، جھل مگسی، کچھی، موسیٰ خیل، ہرنائی، سبی اور ژوب خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں اور ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ کے قریب انسان متاثر ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ان گیارہ اضلاع کی 24 تحصیلیں، 68 یونین کونسلیں اور 1099 گاؤں متاثر ہوئے ہیں، جبکہ متاثرہ اضلاع اور علاقوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صوبائی حکومت اپنے طور پر اپنے وسائل کے اندر گوکہ متحرک ہوئی ہے مگر یہ ناکافی ہے۔ اس کے لیے بڑی سطح پر امدادی آپریشن کا آغازکرنا چاہیے تاکہ لوگ نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں، اور ان کے مال مویشی ہلاک نہ ہوں۔ چند غیر سرکاری تنظیموں جیسا کہ اسلامک ریلیف وغیرہ نے بھی اپنی ٹیمیں روانہ کردی ہیں۔ پی ڈی ایم اے آفات سے نمٹنے کے ادارے کے طور پر کسی بھی ایسی صورت حال میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کا کام صرف راشن کی تقسیم کی حد تک رہ گیا ہے، جس میں اوپر سے نیچے تک سب کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ سیلاب اور زلزلے جیسی آفات کی صورت میں پی ڈی ایم اے کے پاس ریسکیو کے ضمن میں سرے سے کچھ بھی نہیں ہے۔ یعنی لوگوں کو بچانے اور محفوظ مقامات تک لے جانے کے لیے اس کے پاس سرے سے افرادی قوت، دوسری ضروری مشینری و لوازمات موجود نہیں۔ ریسکیو 1122کا ادارہ چند سال قبل قائم کیا گیا اور اس کے لیے عارضی بنیادوں پر ملازمین بھرتی کیے گئے، جنہیں مزید تربیت کے لیے لاہور بھیجا گیا، لیکن عالم یہ ہے کہ تمام تر اخراجات کے باوجود 1122 عضو معطل ہے، یہاں تک کہ یہ ملازمین تنخواہوں کے لیے مختلف اوقات میں احتجاج کرتے رہے ہیں۔ اس حالت میں ہم خدانخواستہ کسی آفت کی صورت میں کسی ایک جان کو محفوظ کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا پی ڈی ایم اے کا کام محض راشن اور خیموں کی تقسیم رہ گیا ہے؟
بات خشک سالی کی ہورہی ہے۔ دراصل صوبے بھر میں پانی ذخیرہ کرنے اور زراعت کی بہتری کے لیے ڈیم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہر سال کئی لاکھ ایکڑ فٹ بارشوں کا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ زراعت اور گھریلو استعمال کے لیے ٹیوب ویلوں پر انحصار ہے، جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آتی جارہی ہے۔ ٹیوب ویل اکثر خشک ہوجاتے ہیں۔ کوئٹہ اس صوبے کا دارالحکومت ہے لیکن اس کے باوجود یہاں پانی کا متبادل نظام موجود نہیں ہے۔ پچھلی حکومت نے اس مسئلے پر قابو پانے کی خاطر مانگی ڈیم پر کام کا افتتاح کردیا تھا۔ اس ڈیم کا مقصد کوئٹہ شہر میں قلتِ آب کا مسئلہ حل کرنا تھا۔ یہ ڈیم کب مکمل ہوگا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن کوئٹہ کے اندر پینے کا پانی سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ شہری پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ واسا کی نااہلی اور بدعنوانی بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ نجی ٹیوب ویل شہر کے اندر جگہ جگہ بن چکے ہیں۔کم فاصلے پر یہ ٹیوب ویل بنائے گئے ہیں، حالانکہ ایک ٹیوب ویل اور دوسرے ٹیوب ویل کے درمیان قانوناً ایک طے شدہ فاصلہ مقرر ہے۔ میرے خیال سے یہ فاصلہ 900 میٹر ہے۔
یعنی اس حد میں دوسرا ٹیوب ویل بنانا ممنوع ہے، کیونکہ اس سے قریب کے ٹیوب ویل کے پانی پر اثر پڑتا ہے۔ لیکن یہاں گنگا مدتوں سے اُلٹی بہہ رہی ہے۔ ہر شخص مرضی میں آزاد ہے کہ کب اور کہاں ٹیوب ویل کی تنصیب کرے۔ بارشوں کا پانی بعینہٖ کوئٹہ میں بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کے درّوں میں آبادیاں بن چکی ہیں جہاں پہلے چند ایک ڈیم بنے ہوئے تھے۔ ان پہاڑی دروں کے آبی راستے بھی قبضہ کرکے رہائشی آبادیوں میں تبدیل کردیئے گئے ہیں، جہاں پہاڑوں سے آنے والا بارشوں کا پانی اب پکی نالیوں میں بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ اسی پانی سے زیر زمین پانی کی سطح بلند و برقرار رہتی تھی۔ گویا حکومتوں اور محکموں کی کوئی رٹ باقی نہیں رہی ہے۔ زیر زمین پانی خشک ہونے سے زمین دھنس اور پھٹ رہی ہے۔ یعنی یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کا سامنا مختلف علاقوں میں کرنا پڑرہا ہے۔ کوئٹہ پر فوری توجہ نہ دی گئی تو عنقریب یہاں پینے کا پانی دستیاب نہ ہوگا۔ اس صورت میں لاکھوں کی آبادی یقینی طور پر دوسرے شہروں اور صوبوں کو نقل مکانی پر مجبور ہوگی۔ سیاسی جماعتیں گلی و محلہ کی سطح پر موجود ہیں مگر وہ ان جیسے بہت سارے بنیادی و سنگین مسائل پر مطلق خاموش ہیں، حالانکہ ان کے پاس طاقت ہے، وہ ہر لحاظ سے کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر ایسا نہیں کیا جاتا۔ ان کی ساری کاوشیں محض ووٹ کے حصول اور انقلاب کے پُرفریب نعروں تک محدود ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر آنے والی حکومت سارا الزام پچھلی حکومت پر ڈال کر گویا خود کو ذمہ داریوں سے مبرا کرلیتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہی چہرے مہرے ہر حکومت میں دکھائی دیتے ہیں جو عوام کا حق مارتے ہیں اور حکو متی فنڈ و وسائل کو شیر مادر کی طرح ہڑپ کرتے ہیں، جبکہ مسائل و خرابیاں جوںکی توں رہتی ہیں۔ اب باری وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کی ہے۔ عمران خان بھی بلوچستان کے حوالے سے فرما چکے ہیں کہ اس صوبے کو ملنے والے فنڈز میں انتہاء درجے کی کرپشن ہوئی ہے۔ بات درست ہے، اب ہونا یہ چاہیے کہ تحریک انصاف اس بدعنوانی کو روک لے یا اس کا ازالہ کرے۔ جام کمال کو چاہیے کہ وہ صوبے کے جملہ مسائل کے حل پر عقابی نگاہ رکھیں اور مثالی گورننس قائم کرکے نظر آنے والی تبدیلی اور اصلاح کا مظاہرہ کریں۔ کوئٹہ شہر میں پانی کا مسئلہ تو ہے ہی، یہاں دیگر مسائل کے بھی انبار لگے ہوئے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ میرے خیال سے جام کمال ایسا کریں گے تو عوام کی حمایت اس اصلاح و تعمیری آپریشن میں شامل رہے گی۔ سردست خشک سالی سے متاثرہ علاقوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔

خشک سالی سےبڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے،سینیٹر سراج الحق کی کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ سے بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتاہے ۔ پینے کے پانی کا جلد انتظام نہ کیا اور ڈیم نہ بنائے گئے تو لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔ بلوچستان سے ترقیاتی پیکیج کے جو وعدے سابق اور موجودہ حکومت نے کیے ہیں ، ان پر فوری عملدرآمد کا آغاز کیاجائے۔ اٹھارویں ترمیم میں جو اختیارات صوبوں کو دیے گئے ہیں‘ ان پر کماحقہ عملدرآمد کی ضرورت ہے ‘ پاکستان میں مہنگائی کا راج ہے ، عوام کا نظام زندگی مفلوج ہوگیاہے ۔بلوچستان کے عوام کی شرکت کے بغیر سی پیک بے معنی ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ وفاقی حکومت کی طرف سے صوبے میں ڈیم اور موٹروے تعمیر کرنے کے وعدوں پر عمل نہیں ہوسکا۔ لوگوں میں ایک ایک کلو آٹا تقسیم کرنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوںگے ۔ بلوچستان سے اب بھی ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں جن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جارہا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ بلوچستان کی محرومیوں کا فوری ازالہ کرنے کی ضرورت ہے ۔اب تک ہر حکومت نے بلوچستان کے عوام کو وعدوں پر ٹرخانے کا سلسلہ جاری رکھاہے جس سے صوبے کے عوام کا وفاقی حکومت پر اعتماد ختم ہو کر رہ گیاہے ۔