طارق حبیب
’’یار لگتا ہے کہ کراچی پھر بدلنے جارہا ہے۔ جیل میں ہونے والی تبدیلیاں ایسا ہی ظاہر کررہی ہیں‘‘۔کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سرکاری دوست فون پر یہ تفصیل بتا رہے تھے۔ تشویش بھرے لہجے میں کہنے لگے ’’سینٹرل جیل کا نیٹ ورک بہت مشکل سے توڑا گیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ اسے دوبارہ سے قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایم کیو ایم سے متعلقہ قیدیوں کو ایک دفعہ پھر نوازے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ بی کلاس کی بیرکس 17 اور 18بڑی مشکل سے ان سے خالی کرائی تھیں، اور اب یہ جیل اسپتال کی کھولیوں (کمروں) پر قبضہ جما رہے ہیں۔ ان کا زور توڑنے اور رابطے ختم کرنے کے لیے جو قیدی اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں بھیجے گئے تھے وہ قیدی آہستہ آہستہ سینٹرل جیل میں واپس جمع ہوچکے ہیں اور ان کی تعداد 700سے تجاوز کرچکی ہے۔ جیل اسپتال کی کھولیوں میں سے ایم کیو ایم کے بدنام زمانہ جرائم پیشہ نادر شاہ اور رئیس مما کھولی نمبر تین پر قابض ہیں، جبکہ عبید کے ٹو، عمیر صدیقی، سعید بھرم اور فیصل موٹا دیگر کھولیوں پر تسلط جمائے بیٹھے ہیں۔ رئیس مما کراچی کے علاقے چکرا گوٹھ میں پولیس وین پر حملے سمیت سو سے زائد قتل کا اعتراف کرچکا ہے، جبکہ فیصل موٹا کراچی کے صحافی ولی خان بابر کو قتل کرنے کے مقدمے میں گرفتار ہیں۔ اسپتال وارڈ کی ایک کھولی شاہ زیب قتل کیس کے ملزم شاہ رخ جتوئی کے قبضے میں ہے جو مبینہ طور پر ماہانہ ایک لاکھ کی ادائیگی پر اسے فراہم کی گئی ہے، جبکہ اصل میں شاہ رخ جتوئی کا اندراج جیل کے زرداری وارڈ میں ہے۔‘‘
ہمارے دوست اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اب تک صرف 63 مقدمات کا فیصلہ ہوا، اور ان میں سے بھی بیشتر اپیل میں جاچکے ہیں، جبکہ ایم کیو ایم سے متعلقہ دیگر ملزمان کے مقدمات اچانک التوا کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب کیا جارہا ہے۔ کسی موقع کا انتظار ہے اور پھر یہ افراد ضمانتوں پر رہا ہوکر ایک بار پھر کراچی کی سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہوں گے۔ دوست نے اپنے خدشات کے ساتھ ساتھ مستقبل کا بھیانک نقشہ کھینچنے کے بعد امید قائم رکھنے کا فریضہ بھی خود ہی انجام دیا۔ فرمانے لگے ’’یہ سب کچھ سابق آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگن کے اختتامی دور سے جاری ہے۔ ہوسکتا ہے میرے خدشات غلط ثابت ہوں اور موجودہ آئی جی جیل خانہ جات مظفر عالم صدیقی، جن کی تعیناتی 16 نومبر
2018ء کو عمل میں آئی ہے، اس صورت حال کو کنٹرول کرلیں۔ صورت حال کا ٹھیک اندازہ تو آئندہ چند ماہ میں ہی ہوسکے گا۔ تفصیلات سے آگاہ کرکے دوست نے فون رکھ دیا۔ ان معتبر دوست کی پریشانی بجا اور معلومات تشویش ناک ہیں۔
ویسے تو ایک جیل سے دوسری جیل قیدیوں کی منتقلی اور اندرونی طور پر ہونے والی انتظامی تبدیلیاں بظاہر معمول کی کارروائیاں شمار ہوتی ہیں۔ تاہم کراچی سینٹرل جیل میں ہونے والی ایسی تبدیلیاں تشویش کا باعث کیوں بنتی ہیں، اور کراچی آپریشن کے دوران سیکورٹی اداروں نے سب سے پہلے اس نیٹ ورک کو توڑنے کی ضرورت کیوں محسوس کی تھی، یہ سمجھنے کے لیے ماضی میں جیل میں قائم کراچی کے دہشت گردوں کے اس نیٹ ورک کو جاننا بہت ضروری ہے۔
افریقہ، سری لنکا اور بھارت میں تربیتی نیٹ ورکس بنانے کے ساتھ ساتھ کراچی کی جیلوں میں بھی نیٹ ورک بنایا گیا تھا تاکہ گرفتار ہونے والوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور جن ملزمان پر کیسز زیادہ ہوجائیں انھیں خود گرفتار کرواکے ان پر سے کیسز ختم کرائے جائیں۔ اس دوران انھیں جتنا وقت بھی جیل میں رہنا پڑے وہ بنا کسی پریشانی کے رہ سکیں۔ ان کو جیل میں سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاص طور پر اقدامات کیے گئے تھے۔ یہ افراد اُس وقت تک جیل میں رہتے تھے جب تک ان پر قائم مقدمات ختم نہیں کروا دیے جاتے تھے۔ اور انھیں ’’زیرو میٹر‘‘ حالت میں ایک بار پھر میدان میں اتار دیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے جیل میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم تھا۔ 2015ء میں کراچی آپریشن سے قبل حساس اداروں کی جانب سے اعلیٰ حکام کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں اس نیٹ ورک کا انکشاف کیا گیا تھا۔ سینٹرل جیل کراچی میں بی کلاس کی بیرکس نمبر 17 اور 18 ایم کیو ایم کے دفاتر کے نام سے مشہور تھیں۔ ایم کیو ایم کے جھنڈے پر موجود رنگوں پر مبنی ان بیرکس کی دیواروں پر رنگ کیے گئے تھے، جبکہ الطاف حسین کی تصاویر بھی متعدد جگہوں پر آویزاں تھیں۔
ان دفاتر کا انچارج ماضی میں بھی نادر شاہ تھا اور آج بھی وہی ہے۔ نادر شاہ ماضی میں 12سال جیل کاٹ کر رہا ہوا تھا، مگر16جولائی 2015ء کو رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے کے دوران دوبارہ گرفتار ہوگیا تھا۔ وہ کراچی میں ایم کیو ایم لندن کے نیٹ ورک کے تمام معاملات کو آج بھی پوری تندہی کے ساتھ سنبھال رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم سے قبل بھی نادر شاہ ان بیرکس کا انچارج تھا۔ ان بیرکس میں ایم کیو ایم کی نامور شخصیات وسیم اختر، کنور نوید، رئوف صدیقی بھی وقت گزار چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صولت مرزا، اجمل پہاڑی، عبید کے ٹو، طاہر لمبا سمیت بدنام زمانہ دہشت گرد بھی ان بیرکس کی سہولیات سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب پھانسی گھاٹ سے متصل میدان میں رنگین محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ سوشل میڈیا پر جیل کی وائرل ہونے والی ویڈیو جس میں معروف قوال امجد صابری ’’دشمنوں کے سینوں پہ ایک الطاف بھاری ہے، اب جو سحر آئے گی وہ سحر ہماری ہے‘‘ پڑھ رہے ہیں، وہ بھی اسی میدان کی ہے۔ اگرچہ امجد صابری بھی ’’نامعلوم سحر‘‘ کے انتظار میں ’’نامعلوم افراد‘‘ کے ہاتھوں مارے گئے۔ اسی طرح جیل اسپتال کی دس کھولیاں جن میں سے ہر کھولی میں تین افراد رکھے جاتے تھے، ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لیے مختص تھیں۔ کسی دوسرے کو ان کھولیوں سے ’’مستفید‘‘ ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کھولی میں موجود بستروں کے اصل حقدار بیمار قیدی تو بس دورانِ علاج ان کھولیوں میں آرام کی حسرت ہی کرسکتے تھے۔ جیل میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والوں کے پاس موبائل فون موجود ہوتے تھے جن کے ذریعے شہر میں تمام کارروائیوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ سانحہ 12مئی 2007ء کے حوالے سے بھی حساس اداروں کی رپورٹ تھی کہ اُس وقت کے چیف جسٹس کو ائرپورٹ پر ہی روکنے کی مکمل منصوبہ بندی سینٹرل جیل کراچی میں کی گئی تھی۔ تین قیدیوں کو میڈیکل بنیادوں پر سول اسپتال کراچی لایا گیا جہاں سے انھوں نے 12مئی آپریشن مانیٹر کیا تھا۔
شہر میں جب 92 ہزار جنازے اٹھ چکے تو سیکورٹی اداروں نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد سب سے پہلے جیل سے چلنے والے نیٹ ورک کو توڑنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جیل میں موجود خطرناک جرائم میں ملوث افراد کو اندرون سندھ کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا، یا بیرکس اور اسپتالوں کی کھولیوں پر قبضہ ختم کراکے عام قیدیوں کے درمیان منتقل کردیا گیا تھا۔ جیل انتظامیہ میں شامل جرائم پیشہ افراد کے ہمدردوں کو بھی معطلی، تبادلے اور تنزلی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس طرح جیل میں جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بعد آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جرائم پیشہ افراد کو دوبارہ سہولتیں کون فراہم کررہا ہے؟کون انھیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے رہا ہے؟ کیا انھیں دوبارہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے؟کیا کوئی اس ’’اثاثے‘‘ کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہے؟
اس کھیل میں تعینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ!
یہ اثاثہ کس کے لیے سنبھالا جارہا ہے اور اب شہر پر ’’حکومت‘‘ کے لیے کس کے حوالے کیا جائے گا؟ اسے سمجھنا آسان اس لیے نہیں ہوگا کیونکہ ایم کیو ایم تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کی حالت اس وقت بھیڑیوں کے ریوڑ کی سی ہوگئی ہے جو بس اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی آنکھ جھپکے اور باقی سب اس پر ٹوٹ پڑیں۔ فاروق ستار اس وقت ایم کیو ایم (پی آئی بی) کے خودساختہ سربراہ ہیں اور اس حالت تک پہنچ چکے ہیں کہ ’آباد‘ کے آرگنائزرز اُن کے ہاتھ سے مائیک چھین کر انھیں گھر کی راہ لینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ فاروق ستار پی ایس پی کو دھوکا دینے کے بعد مصطفی کمال کی نظروں میں بھی اپنی وقعت کھوچکے ہیں، جبکہ عامر خان اور خالد مقبول صدیقی سے الجھ کر بہادرآباد بدر بھی کردیئے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم بہادر آباد انھیں منہ لگانے کو تیار نہیں ہے۔ اور بات صرف فاروق ستار تک ہی محدود نہیں، بلکہ ایم کیو ایم بہادر آباد کے رہنما آپس میں بھی ایک دوسرے کو منہ لگانے کو تیار نہیں۔ خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر اور کنور نوید لندن سے رابطے کے ذریعے اپنی آبرو اور کرسی بچانے کی فکر میں غلطاں ہیں تو دوسری جانب فیصل سبزواری، خواجہ اظہارالحسن و ہمنوا خالد مقبول صدیقی کے مارشل لا سے بدظن نظر آتے ہیں، اسی لیے فیصل سبزواری اپنے زیر اثر اے پی ایم ایس او کے ذریعے اپنا الگ دھڑا بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ ورکرز ایکشن کمیٹی شاہد پاشا کی قیادت میں الگ اپنا راگ الاپ رہی ہے اور مرکزی قیادت کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کئی دفعہ نوبت تلخ کلامی تک آچکی ہے۔ فیصل سبزواری ایک نجی محفل میں برملا اظہار کررہے تھے کہ خالد مقبول صدیقی وہ شخص ہے جس نے بھارت میں آئی ایس آئی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف 2001ء میں بیان دیا تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے مگر کسی نے بھی خالد مقبول سے اسمبلی میں جانے سے پہلے یہ نہیں پوچھا کہ کیا آپ اس بیان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی کے بعد الطاف حسین نے اپنے مخصوص انداز میں تقریباً تمام رہنمائوں کو مغلظات سے ’’نوازا‘‘ مگر اس سخت دور میں بھی خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر اور کنور نوید کے حوالے سے لندن سے کوئی تنقیدی بیان جاری نہیں ہوا۔
ایم کیو ایم کے پراسرار رہنما عامر خان جو مختلف دھڑوں میں رہنے کی وجہ سے ہر دھڑے میں ہی مشکوک تصور کیے جاتے ہیں، جب آفاق احمد کا دامن چھوڑ کر واپس الطاف حسین کے سائے میں آئے تو انھیں پچاس ہزار مہینہ وظیفہ جاری کیا گیا تھا، اور ’’کارکردگی‘‘ دیکھنے کے بعد الطاف حسین نے ناظم آباد میں قبضے کی زمین پر دو شادی ہال تعمیرکرواکے عامر خان کے ’’روزگار‘‘ کا بندوبست کردیا تھا۔ موجودہ حالات میں ایم کیو ایم کے مالی معاملات سہیل بابو، خالد سلطان اور عادل خان جیسے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ سہیل بابو ایم ڈی اے کا سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر تھا جو ایم کیو ایم کے دور میں اچانک ترقی کی ساری سیڑھیاں ایک ساتھ ہی پھلانگ کر 20 ویں گریڈ میں پہنچ گیا تھا، جس پر عدالت نے نوٹس لیا اور اسے واپس 16گریڈ پر بھیج دیا۔ اسی طرح خالد سلطان اور عادل خان سرکاری ملازمین ہونے کے ساتھ ساتھ رابطہ کمیٹی کے اراکین بھی ہیں۔ ایم کیو ایم کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ان افراد کی ذمہ داری ہے۔ سہیل بابو ایم کیو ایم رہنما عامر خان کا قریبی سمجھا جاتا ہے، اس لیے دیگر رہنما مالی معاملات کے حوالے سے عامر خان پر اعتبار کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ ایم ڈی اے، کے بی سی اے، واٹر بورڈ اس وقت ایم کیو ایم کے لیے سونے کی چڑیا بنے ہوئے ہیں اور اسے زندہ رکھنے کے لیے آکسیجن کا کام بھی کررہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ گورنری کے عہدے سے فراغت کے بعد گورنری کے بغیر اس ملک میں رہنے کے بجائے دبئی کو ترجیح دینے والے عشرت العباد بھی گزشتہ چند ماہ سے خاصے سرگرم ہیں، مگر مصطفی کمال کی سخت مزاجی کی وجہ سے ابھی تک ان کی دال نہیں گلی۔ اربابِ اختیار کے ہاتھوں یہ کٹھ پتلیاں اپنا تماشا دکھانے کو بے چین ہیں اور چشمِ شاہ میں اپنے لیے ستائش دیکھنے کی تمنا لیے سب کچھ کرگزرنے کو تیار ہیں۔
جیل میں قید سات سو کا اثاثہ کس کے حوالے کیا جائے گا اس کا فیصلہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر باقی بچ جانے والے رہنمائوںکو دیکھ کر کیا جائے گا، اور اس وقت اس ’’اثاثے‘‘ کا خیال رکھا جائے گا۔ (بشکریہ دنیا)