سید منیب الرحمن
ہر انسان خود کو صحت مند دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے تئیں اس کے لیے ممکنہ حد تک کوشش بھی کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کو معمول کی جن سرگرمیوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کو اختیار نہیں کرتا، جس سے انسانی جسم میں عضلاتی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں تو اس کا اندرونی نظام بھی خراب ہونے لگتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ معیاری صحت کے خواہش مند کو روزانہ کم از کم 30 منٹ کوئی ورزش باقاعدگی سے جاری رکھنی چاہیے، تاہم جن دنوں تقریبات کا زور ہو، ورزش کا اہتمام ضروری ہوتا ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پُرتکلف کھانوں پر مشتمل دعوت سے پہلے آپ ایک گھنٹہ چہل قدمی کرلیا کریں، کیونکہ روغنی کھانوں سے رگوں کی کارکردگی فوری طور پر متاثر ہوتی ہے۔ یعنی خون کی رگوں میں ورم اور سوجن پیدا ہوکر ان میں سختی آجاتی ہے، اور یہی سختی رکاوٹ بن کر حملۂ قلب کی راہ ہموار کر جاتی ہے۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ایک وقت کی ورزش سے مضر قلب چکنائیاں 20سے 25فیصد کم ہوجاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے کھانوں کے استعمال سے پہلے کی جانے والی ورزش سے خون میں موجود چکنائیوں کی سطح واقعی متاثر ہوسکتی ہے؟ اس کا کھوج لگانے کے لیے گلاسکو یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے درمیانی عمر کے 20 موٹے اور نارمل وزن کے تمباکو نہ پینے والے افراد کا انتخاب کرکے انہیں Treadmil پر 90 منٹ تک دوڑایا۔ یہ وقت آدھے گھنٹے کی ورزش کے معیاری وقت سے زیادہ تھا، لیکن ڈیڑھ گھنٹہ دوڑنے کے باوجود دُبلے پتلے اور فربہ افراد نے معتدل رفتار سے ورزشی وقفہ کسی تکلیف اور زحمت کے بغیر مکمل کرلیا۔ کسی نے کسی قسم کی تھکن کا ذکر نہیں کیا۔
اگلے روز اس ٹیم کو کوئی ورزش نہیں کرائی گئی اور انہیں خوب روغنی غذا کھلائی گئی، جس میں کریم کے ساتھ پھل، دلیا، مغزیات اور چاکلیٹ شامل تھے۔ اس کھانے کے ذریعے سے ان کے جسم میں 80گرام روغن، 70گرام نشاستہ، 12گرام پروٹین اور 1030گرام حرارے پہنچائے گئے۔ اس تجربے کا اصل مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کیا لمبی چہل قدمی سے روغنی کھانے کے بعد خون کی رگوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے؟ ان کے ایک ہفتے کے وقفے سے جو ٹیسٹ کیے گئے ان سے کھوج لگا کر ٹریڈ مل پر جو وقت دوڑنے پر خرچ کیا گیا اس کی وجہ سے دوڑنے والوں کے خون میں ایک اہم چکنائی یعنی ٹرائی گلیسرائڈز کی سطح 25 فیصد کم ہوگئی۔ ٹرائی گلیسرائیڈز نامی چکنائی سے جسم توانائی حاصل کرتا ہے۔ یہ غذائوں میں ہوتی ہے اور جسم کو اس کی معتدل فراہمی ضروری ہے، جبکہ اس کی زیادہ مقدار سے حملۂ قلب اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے امریکہ میں لوگوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ صرف 30فیصد حرارے ٹرائی گلیسرائیڈز سے حاصل کریں۔
اس اہم جائزے کے دوران یہ بات بھی علم میں آئی کہ انسان کی خون کی رگیں لمبی چہل قدمی کے بعد 25 فیصد زیادہ سرگرم ہوجاتی ہیں۔ اس جائزے سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ ورزش نہ کرنے والوں کے مقابلے میں ورزش کرنے والوں کی رگوں میں پھیلائو کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ گویا ان میں خون کی روانی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ خون کی صحت مند رگوں کی یہ علامت ہے کہ ان میں پھیلنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور وہ لچکدار ہوتی ہیں۔ اس تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ ایک وقت کی ورزش بھی بے کار نہیں ہوتی، بلکہ اس سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ تحقیق کے نگران گلاسکو یونیورسٹی، اسکاٹ لینڈ کے پروفیسر جیسن گلل کے مطابق اگر آپ 90 منٹ مسلسل ورزش نہیں کرسکتے تو ورزش کا یہ وقت تین حصوں میں تقسیم کرکے پورا کرلیجیے۔
دوسری جانب ایک تحقیق کے مطابق تیز رفتار چہل قدمی کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تحقیقی رپورٹ جرمن اسپورٹس یونیورسٹی کے ہیلتھ سینٹر سے تعلق رکھنے والے پروفیسر Froboeselngo نے پیش کی ہے۔ جرمنی کے شہر کولون میں قائم یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تیز رفتار چہل قدمی یا برسک واکنگ کا اصل نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک گھنٹے میں تقریباً 4.5کلومیٹر سے 6 کلومیٹر تک فاصلہ تیز رفتار چہل قدمی سے طے کیا جائے۔
پروفیسر Froboeselngo کے مشاہدے کے مطابق اس طرح کی ایکسرسائز خاص طور سے اُن افراد کے لیے زیادہ موزوں ہے جو جسمانی ورزش کی ابتدا کررہے ہوں، کیونکہ تیز رفتار چہل قدمی نہ تو حد سے زیادہ محنت طلب ہوتی ہے اور نہ ہی یہ جوڑوں اور ہڈیوں کی ساخت پر غیر معمولی دبائو ڈالتی ہے۔ پروفیسر Froboeselngo کے مطابق چہل قدمی سے انسانی صحت پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کارڈیو ویسکیولر سسٹم نہ صرف مضبوط ہوتا ہے بلکہ یہ پھیپھڑوں کی صلاحیت بڑھانے اور خون میں چکنائی کی سطح کم کرنے میں بھی نہایت اہم کردار اَدا کرتا ہے۔
پروفیسر Froboeselngo کے مطابق شام کے اوقات میں صرف آدھے گھنٹے کی تیز رفتار چہل قدمی طویل عرصے تک صحت مند زندگی کی ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ افراد جو دن بھر چلتے رہتے ہیں، خاص طور سے دن کے کسی بھی حصے میں تین بار 10منٹ پیدل چلتے ہیں ان کے دل کی حالت اور خون کی گردش میں بہتری آتی ہے اور وہ کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
پروفیسر Froboeselngo کا کہنا ہے کہ صحت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ دس ہزار قدم گن کے پیدل چلا جائے۔ اس مقصد کے لیے پیڈو میٹر یا قدم گننے والے آلے کو بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے، تاہم پروفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر چہل قدمی کا مقصد وزن کم کرنا ہے تو اس کے لیے مزید محنت و مشقت کرنا ضروری ہے، کیونکہ آدھے گھنٹے تک پیدل چلنے سے صرف 200کیلوریز ہی جل پاتی ہیں جو وزن کم کرنے کے لیے بہت ہی کم ہیں۔