مجلہ تحصیل اور قیسی رامپوری کا “غبار”۔

محمد یاسر عرفات مسلم
وطنِ عزیز میں سیاست نے زندگی کے ہر شعبے کو پراگندہ کررکھا ہے۔ علوم کے معنی و مفہوم کی بازیافت اور تحقیق کا معیار تنزلی کا شکار ہے۔ جسے اصل تحقیق کہتے ہیں وہ ناپید ہے۔ ذاتی حیثیت میں چند اساتذہ تحقیق میں نئے رجحانات متعارف کرانے کے لیے سرگرم ہیں، اور وہ تحقیق کی وسعت اور پھیلائو میں حائل وسائل کی قلت کے باوجود علمی و تحقیقی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی شخصیات ابھی موجود ہیں جن کے دم سے حقیقی تحقیق کی جستجو کا چراغ روشن ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی ایک بڑی تعداد اپنی اصل ذمہ داریوں کو فراموش کرکے اپنے عہدوں کی بقاء کے لیے حکومتی حلقوں کے ساتھ مراسم کی مضبوطی کے لیے کوشاں رہتی ہے، جس کے سبب یہ تعلیمی ادارے اور ان کا تحقیقی معیار زبوں حالی کا شکار ہے۔ فکری گھٹن اور حبس کے ایسے ماحول میں کوئی علمی اور تحقیقی کاوش سامنے آئے تو اس کی حیثیت نسیمِ سحرکی سی ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک خوش کن اضافہ مجلہ ’’تحصیل‘‘ ہے۔ معروف محقق، ادیب اور اردو زبان کی نابغۂ روزگار شخصیت ڈاکٹر معین الدین عقیل کی زیرادارت شائع ہونے والا یہ علمی و تحقیقی مجلہ ادارہ معارفِ اسلامی کراچی کے زیراہتمام شائع ہوا ہے۔ مجلے کی تیاری میں نائب مدیران جاوید احمد خورشید اور خالد امین نے ڈاکٹر صاحب کی معاونت کا فریضہ انجام دیا ہے۔ مجلسِ ادارت اطہر فاروقی (بھارت)، اکرام چغتائی(لاہور)، انور معظم (بھارت)، سید تنویر واسطی (ترکی) ، حسن بیگ (انگلستان)، رفیع الدین ہاشمی (لاہور)، سوناگا ایمی کو (جاپان)، سو یامانے (جاپان)، سید شاہد ہاشمی (کراچی)، عارف نوشاہی (اسلام آباد)، عطا خورشید (بھارت)، سید منیر واسطی (کراچی)، نجیبہ عارف (اسلام آباد)، نگار سجاد ظہیر (کراچی) اور وقار احمد زبیری (کراچی ) جیسی علمی اور ادبی شخصیات پر مشتمل ہے۔ مجلے کی خاص بات اس کا اردو اور انگریزی زبانوں میں ہونا ہے۔ دونوں زبانوں میں مضامین کے انتخاب کا معیار مجلے کو اسم بامسمیٰ ثابت کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ’’تحصیل‘‘ کے اجراء کا مقصد عمدہ اور مثبت نتیجہ خیز مطالعات اور تحقیقات کی حوصلہ افزائی اور ان تحقیقات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی متعلقہ علوم کے موضوعات و مباحث میں اضافے کے ساتھ ساتھ کمزوریوں اور خلا کو بھی پُر کرنا ہے۔ تحصیل کے لیے موضوعات کا اچھوتا پن اور پُرکشش ہونا تو لازم رکھا ہی گیا ہے، لیکن ان پرانے موضوعات کو بھی مسترد نہیں کیا گیاہے تاکہ نئے عنوانات اور مباحث کے لیے تحقیق کے دروازے کھولنے میں معاون ثابت ہوسکیں، اور خاص بات یہ ہے کہ ایسے مضامین کا انتخاب مقصود ہے جو معاشرے کے حاضر اور مستقبل کے عصری تقاضوں سے مطابقت رکھنے کے ساتھ ساتھ علم و تہذیب اور انسانیت و اخلاق کو بھی فروغ دینے میں معاون ثابت ہوں۔ غور و فکر کے فروغ کے لیے تحصیل نے جامعات میں تحقیقات کے موضوعات کے انتخاب اور ان کی ا فادیت اور معیار کے حوالے سے ایک قلمی مذاکرے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اگرچہ اس کاوش کو قابلِ ذکر پذیرائی حاصل نہ ہوسکی لیکن تحصیل کا ارادہ اور عزم پورے جذبے کے ساتھ قائم ہے۔
جو اہلِ علم و ذوق قدیم کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں ان کے لیے مجلہ تحصیل میں اردو زبان کی اولین لغت ’’ تحفتہ الہند‘‘ کا عکس اقساط میں شائع کیا جارہا ہے۔ اسی طرح مجلے کے انگریزی حصے میں فارسی، عربی اور سنسکرت زبانوں کے قدیم مسودوں کی فہرست پر مشتمل جیمز فرازر (James Frazer) کی مرتب کردہ کتاب Catalogue of Manuscripts in the Persic, Arabic and Sanskerrit Languages کے صفحات کا عکس بھی شامل ہے۔
تحصیل کے شمارہ2 میں ممتاز محقق اور ماہر زبان رشید حسن خان ((1938-2006کا غالب کے کلام کے فنی و لسانی مطالعے پر مشتمل تحقیق کتاب کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ کتاب ابھی زیر طباعت ہے، لیکن اس کے مقدمے کی اشاعت اطہر فاروقی کے تعاون سے ممکن ہوسکی ہے۔ اس تحقیق میں رشید حسن خان نے غالب ؔ کا مطالعہ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ معانی و مفاہیم کی ممکنہ ساری صورتیں سامنے آجاتی ہیں اور کلامِ غالب کی تہہ در تہہ معنویت نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔
اسی شمارے میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی، برطانیہ کے رکن حسن بیگ کا ایک اہم مضمون ہندوستان میں شدت پسندوں کی جانب سے عبدالرحیم خان خاناں پر ہندو رنگ غالب کرنے پر ہے۔ بیگ صاحب بتاتے ہیں کہ مارچ 2017ء میں آغا خان ٹرسٹ اور انٹر گلوبل فائونڈیشن نے دہلی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس میں بیرم خان اور عبدالرحیم سے متعلق زیادہ تر وہ پوسٹر آویزاں کیے گئے جو عبدالرحیم کی ہندی شاعری پر مشتمل تھے۔ حسن بیگ صاحب نے اپنے مضمون میں ہندی زبان کے عروج اور ہندوستان کی فرقہ وارانہ سیاست کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
پاکستان کے لائق فارسی تذکرہ شناس اور فائق لُغت نگار سید علی رضا نقوی پر ایک مضمون پروفیسر عارف نوشاہی کا بھی شامل ہے۔ فاضل مضمون نگار نے سید علی رضا نقوی سے اپنے تعلق، ان کی زندگی اور تصانیف کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ گوشہ ترجمہ میں البیرونی کی مشہور کتاب الجماہر فی معرفۃ الجواہر میں یاقوت کے باب کا اردو ترجمہ، جو مشیر فیڈرل ٹیکسٹ بک ڈیولپمنٹ، نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام عطش درانی نے کیا ہے، پڑھنے کے لائق ہے۔
موضوعات کے معیار کو دیکھتے ہوئے اگر تحصیل کو خورشید سحر سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
طالب علم جب کبھی بگٹٹ دوڑتی زندگی کی مصروفیتوں اور سیاست کے دوغلے پن دیکھ اور پڑھ کر اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے تو ادب کی طرف پلٹتا ہے۔ جیسا کہ مشہور عربی مقولہ ہے کہ ’’اپنی مجلسوں کا ذائقہ بدلتے رہو‘‘۔ ادب میں زندگی سادگی، متانت اور سکوت لیے ہوتی ہے۔ طالب علم کا تجربہ ہے کہ ادب پڑھ کر ذہنی اطمینان، سکون اور سرشاری کی وہی کیفیت ہوتی ہے جیسے:
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
اردو زبان کے عوامی ادب میں قیسی رامپوری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ قیسی رامپوری کے نام سے آشنائی اپنے والد مرحوم کی زبانی اُس وقت ہوئی جب وہ اپنے ادبی مطالعے کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ شکریہ برادرِ عزیزعادل حسن کا، جنہوں نے اپنے ناناجان قیسی رامپوری کے افسانوں کا مجموعہ ’’غبار‘‘ عنایت فرماکر طالب علم کو ادب کے اس مینار کی تحریروں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ قیسی رامپوری کے قارئین کی بڑی تعداد تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ1944ء اور 1945ء میں شائع ہونے والے ایڈیشن ہزار ہزار کی تعداد میں شائع ہوئے تھے۔ قیسی افسانے اور ناول دونوں اصناف میں یکساں عبور رکھتے تھے۔ عشق، فراق اور ہجر کا بیان مبالغے میں لپٹی کیفیات اور ڈائیلاگ کے بجائے حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اس طرح کا بے باک پن منٹو کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ قیسی رامپوری نے تحریر میں روایتی اسلوب کو سجی سنوری زبان کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ قیسی رامپوری کے افسانوں میں ایسے محاورے بھی ہیں جو اگرچہ آج متروک ہیں لیکن اردو زبان کے خزانے کا اہم حصہ ہیں۔
ان کے افسانوں میں سماجی مسائل کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اور ان کے حل بھی نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانے’’آخری فتح‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جن بچوں کے ماں باپ مر جاتے ہیں، ان کی وارث قوم ہوتی ہے۔ لیکن قوم چند نفس پرست اور پیٹ کے غلاموں کے ہاتھوں میں اپنا حقِ سرپرستی دے کر اس قدر بے پروا ہوجاتی ہے کہ وہ کبھی اس مصیبت کی ماری مخلوق کی حالتِ زار یتیم خانوں میں جاکر دیکھتی بھی نہیں‘‘۔
اسی طرح ’’انتظارِ خط‘‘ میں ایسے واعظین کو ملامت کرتے ہیں جو علمی زندگی میں ایک معطل عضو ہوں اور جن کا عمل قول سے متصادم ہے۔ افسانوں میں جہاں کہیں انہوں نے مکالمے یاگفتگو کو بیان کیا ہے وہ نہایت شاندار ہے، اور خاص کر میدانِ سیاست میں نووارد چھاتہ بردار سیاست دانوں کے لیے سبق ہے جو ْْْْگفتگو کے آداب سے بالکل ہی نابلد ہیں۔ قیسی افسانے ’’کنگن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جدید نظریات پیدا کرنا آسان ہے مگر ان میں سازگاری اور ایک عام سکون سے مطابقت پیدا کرنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں دیرینہ اسباق کی پناہ لینی پڑتی ہے‘‘۔ قیسی رامپوری کے افسانوں کے مجموعے کی تازہ اشاعت ادب کے شائقین کے لیے یقینی طور پر ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔
علم و تحقیق اور ادب کے ابواب میں فکر کے نئے چراغ جلانے کی اشد ضرورت بہرحال ہے، جس سے ہمارے بکھرتے سماج کے حال اور مستقبل کے سماجی و معاشی مسائل کا حل دریافت کرکے معاشرے کی مثبت سفر کی جانب سمت متعین کی جاسکے۔