وزیراعظم عمران خان، اُن کی جماعت تحریک انصاف اور اُن کی حکومتی ٹیم اقتدار کے شہ زور گھوڑے پر سوار تو کرادیے گئے ہیں، لیکن یہ سرمست گھوڑا اُن کے قابو میں نہیں آرہا۔ کبھی اپنے سواروں کو ایک جانب دھکیلتا ہے اور کبھی دوسری جانب۔ اس کی ایک وجہ تو ناتجربہ کاری اور ہوم ورک کی مکمل کمی ہے، اور دوسری وجہ اس گھوڑے کی مکمل باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ اگر مکمل باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں ہو تو شاید کارکردگی مزید خراب ہوجائے۔ بہرحال اب تک یہ حکومت کامل اقتدار کے لیے ہاتھ پائوں مارتی نظر آرہی ہے۔
کئی سال قبل جناب سید منورحسن جو اُس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل تھے، لاہور پریس کلب تشریف لائے تو پنجاب یونین آف جرنلسٹس (دستور) نے اُن سے سول ملٹری تعلقات پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی۔ سید منورحسن نے اس موضوع پر نہایت علمی، تحقیقی اور عملی گفتگو کی۔ اُن کی گھنٹہ بھر کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک بننے والی ہر حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بنی ہے۔ اور ہر جانے والی حکومت کی رخصتی میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ شامل رہا ہے۔ انہوں نے زیادہ واضح انداز میں کہا کہ ہمارے ہاں کبھی تو اسٹیبلشمنٹ براہِ راست حکومت کرتی رہی ہے، اور کبھی پسِ پردہ رہ کر، لیکن عملاً حکومت اُسی کی رہی ہے، اور مستقبل قریب میں بھی اس صورتِ حال میں تبدیلی کا کوئی ظاہری امکان نظر نہیں آرہا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ سید منور حسن نے بطور امیر جماعت اسلامی پاکستان، کراچی میں فوجی آپریشن اور کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوج آپ کی درخواست پر آ تو جائے گی لیکن آپ کی درخواست پر واپس نہیں جائے گی، بلکہ اپنی آسانی اور مرضی ہی سے اس کی واپسی ہوگی۔ گویا اس کو واپس بھیجنا خاصا مشکل ہوگا۔
قارئین کو یہ بھی یاد ہوگا کہ تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ہم نے اپنے قارئین کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ یہ حکومت بھی وہ سب کچھ کرے گی جو نوازشریف اور زرداری کی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ کیونکہ اپنے سابقین کی طرح موجودہ حکمرانوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ ہی اقتدار کے ایوانوں میں لائی ہے۔ اس حکومت کے لیے بہتر تو یہ تھا کہ یہ کوئی بھی دعویٰ کرنے سے قبل اسٹیبلشمنٹ سے پوچھ لے۔ لیکن ناتجربہ کاری کے سبب انہوں نے ازخود یہ سمجھ لیا تھا کہ ہمیں اقتدار میں لانے والوں کا کام ختم ہوگیا ہے، جب اقتدار ہمیں دے دیا گیا تو فیصلوں کا اختیار بھی ہمیں مل گیا ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ چنانچہ قدم قدم پر حکومت کو اپنے فیصلے واپس لینا پڑے، یا اپنے دعووں کے برعکس راستہ اختیار کرنا پڑا، جسے اپوزیشن نے ’یوٹرن‘ کا نام دیا، اور خود وزیراعظم اس یوٹرن کا سیاسی و قانونی جواز فراہم کرنے کی تگ و دو میں تاحال لگے ہوئے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ وہ بیک وقت دو تین گھوڑوں پر ہاتھ رکھتی ہے۔ وہ میدان میں اُتارے ہوئے اپنے نمبر ون گھوڑے کے ساتھ ایک دو گھوڑے ساتھ ساتھ چلاتی ہے تاکہ اگر کسی وقت پہلے گھوڑے کو ہٹانا پڑجائے یا وہ مطلوبہ نتائج نہ دے رہا ہو، یا کبھی سرکشی پر اُتر آئے تو میدان میں پہلے سے متبادل گھوڑے موجود ہوں۔ اِس بار بھی ایسا ہی ہورہا ہے جس کا حکمرانوں کو اندازہ بھی ہے یا انہیں اس کا اشارہ دے دیا گیا ہے، جو نہ صرف حکمرانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے بلکہ اُن کی کارکردگی کو بھی متاثر کررہا ہے۔ اب ایک طرف نوازشریف اور مریم نواز حکمراں جماعت کی کوشش اور خواہش کے باوجود باہر ہیں۔ دوسری جانب تقریباً ڈھائی ماہ سے گرفتار شہبازشریف پر تاحال کچھ ثابت نہیں ہوسکا۔ اس طرح کی صورت حال کو بھانپتے ہوئے ایک ایسے اینکر نے جن کا اپنا تعلق بھی اسٹیبلشمنٹ ہی سے بتایا جاتا ہے، اپنے ایک تجزیے میں کہا ہے کہ ایک ہی دن میں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان کی گرفتاری، حمزہ شہباز کو دوحہ یا لندن جانے والے جہاز سے آف لوڈ کیا جانا اور مریم اورنگزیب کے خلاف نیب کی تحقیقات کا آغاز بے سبب نہیں ہے۔ متذکرہ اینکر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مریم اورنگزیب کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکے گا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچائے گا۔ اُن کی رائے میں لگتا یہ ہے کہ کچھ لوگ شہبازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے لیے اس طرح کے اقدامات سے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا کررہے ہیں، اور ان اقدامات کا مقصد شہبازشریف وغیرہ کو مقبول بنانا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام تحریک انصاف کی حکومت تو نہیں کرے گی، چونکہ یہ اینکر بہت سے معاملات کو جانتے اور سمجھتے ہیں اس لیے اُن کی رائے غیر اہم نہیں ہے۔ گزشتہ سو دنوں کے اندر حکومت جن معاملات میں بے بس اور بے دست و پا نظر آئی یا اُسے بظاہر اپنے ہی ماتحت اداروں کی جانب سے نیچا دکھایا گیا، یہ سارے معاملات اسی جانب اشارہ کررہے ہیں اور مستقبل قریب میں اس طرح کے معاملات کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے قریبی حلقے یہ بات اب اعلانیہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ یہ اپنا وقت پورا کرسکے۔ حکومت تاحال اپنے منشور کی جانب ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکی۔ کوئی ایک فیصلہ ایسا نہیں کرسکی جس سے عام آدمی کو کوئی ریلیف مل سکے۔ مسائل کی گتھی میں سے کوئی سرا پکڑنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اپنی اور ملک کی کوئی سمت متعین کرسکی ہے اور نہ مستقبل کی کوئی واضح پالیسی دے سکی ہے۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی مایوسی ہورہی ہے، اور شاید اُس نے متبادل معاملات پر غور بھی شروع کردیا ہے، شاید اسی وجہ سے آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) قبل از وقت انتخابات کی بات کررہے ہیں۔