ڈاکٹر محمد جسیم الدین /ابہا، سعودی عرب
قرآن نے مومنین کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی ہے کہ وہ لغو بات سے پرہیز کرتے ہیں اور اس سے حتی الامکان دور رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح پانے والے اپنے بندوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے نماز کے بعد جس صفت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فلاح پانے والے مومنین لغو سے پرہیز کرتے ہیں:
’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے، جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں‘‘۔ (المومنون۔23:1۔3)
گویا لغویات سے پرہیز اور اس سے بچنا مومن کی ایک نمایاں صفت ہے، اور یہ فلاح پانے کی ایک سبیل ہے۔ اس کے لیے ہم لوگوںکو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ’لغو‘ کیا ہے؟
لغو کا مفہوم: مولانا مودودیؒ نے لغو کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’لغو ہر اُس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب لغویات ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج 3، ص 262)
پوری آیت کا مطلب جاننے کے لیے ’لغو‘ کے ساتھ ساتھ معرضون کا مطلب بھی جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’معرضون کا ترجمہ ہم نے ’دُور رہتے ہیں‘ کیا ہے۔ مگر اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ ان میںکوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہورہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میںحصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نکل جاتے ہیں، یا بدرجہ آخر بے تعلق ہورہتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص262)
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے ’لغو‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے:
’’لغو سے مراد ہر وہ قول و فعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود… رضائے الٰہی… سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیر مباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے کہ فضول، غیر ضروری، لایعنی، بے مقصد چیزوں سے احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے، اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اُس کو یاددہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حساس ہو کہ غیر ضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی بے حیائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہوگا‘‘۔ (تدبر قرآن، ج 4، ص 435-434)
مفتی محمد شفیعؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اس طرح کی ہے:
’’لغو کی معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغوکا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے۔ اس سے پرہیز واجب ہے، اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حسن اسلام المرأ ترکہ مالا یعنیہ، یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے، جب کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لیے آیت میں اس کو مومنِ کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن، ج 6، ص 296)
مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ نے ’لغو‘ کی تفیسر ان الفاظ میں کی ہے:
’’لغو سے مراد فضول اور بے کار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لیے یا جسمانی کسرت کے طور پر کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیںکھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو، بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے، جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی، نیزہ بازی، تیراندازی اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بے ہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں، جیسے فضول گپیں، غیبت، بکواس، تمسخر، فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی ہو وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔‘‘ (تیسیر القرآن، ج3، ص 187-186)
مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں ’لغو‘ کی تشریح اس طرح کی ہے:
’’لغو ایک ایسا فعل (قول و عمل) ہے جس کا نہ کوئی فائدہ اِس دنیا میں ہے اور نہ اس کے بعد آنے والی زندگی میں، اس لیے یہ مسلم کے لیے بے سود ہے۔‘‘
مفسرین کی گراں قدر آرا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لغو ایک ایسا قول و فعل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ اِس دنیا میں اور نہ اس کا کوئی فائدہ آخرت میں ہے، بلکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ زبان کا بے جا استعمال اور اس کو قابو میں نہ رکھنے کا وبال بھی ہوگا۔ لغو سے ایک دوسرا نقصان تضیع اوقات بھی ہے۔ تیسرا نقصان غیر سنجیدگی اور اصل مقصد سے بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔ گویا لغو ایک بے فائدہ اور لاحاصل عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سراسر نقصان بھی ہے۔ مومن کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرسکتا جو بے سود اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔
مومن لغویات سے دور رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: اول یہ کہ اللہ نے منع کیا ہے، اور دوسری وجہ یہ کہ جو کام ہم یہاں کررہے ہیں، اور جو بات زبان سے نکال رہے ہیں وہ لکھنے والا لکھ رہا ہے، اور اس سارے قول و عمل کا ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔‘‘ (قٓ10:50)
احادیث کی روشنی میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو باتوں کے حوالے سے بھی ہدایت فرمائی ہے:
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو سریح عدویؒ نے بیان کیا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یارسولؐ اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات، اور میزبانی تین دن کی ہے، اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
ان دونوں احادیث میں پڑوسی کی عزت اور اسے تکلیف نہ پہنچانے، مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر تواضع اور زبان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ زبان کی حفاظت کے متعلق دو باتیں دونوں احادیث میں کہی گئی ہیں۔ اول یہ کہ زبان سے اچھی اور بہتر بات کہی جائے، اور دوم یہ کہ بہتر اور اچھی بات نہ کہنا ہو تو خاموش رہے۔ لغو بات زبان سے نکالنے کی کوئی گنجائش اس آدمی کے لیے قطعی نہیں ہے جو اللہ پر اور آخرت کے قائم ہونے اور اس کے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہو۔